• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ارادہ تھا پانچ جولائی کے حوالے سے لکھنے کا، اس لئے کہ اس ایشو پر بہت زیادہ افراط و تفریط سے کام لیا جا رہا ہے ہمارے جتنے بھی لکھنے والے ہیں وہ بالعموم ضیاء دشمنی اور بھٹو کی محبت میں حقائق کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں ۔کوئی انسان جب محبت اور نفرت کے جذبات سے معمور ہو کر زبان کھولتا ہے یا قلم اٹھاتا ہے تو وہ اپنے موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتا۔پاکستان جیسے جنونیت سے مالا مال ملک میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتا اتنی بڑی خوبی ہے جس کی تحسین نہ کرنے سے بڑی کم ظرفی و بددیانتی شاید ہی کوئی ہو لیکن اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم انصاف و اعتدال کا دامن چھوڑتے ہوئے حقائق کو مسخ کریں۔

سیاست دانوں کی بے اصولیاں ایک جانب، دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں تو ہماری نظریں اندھی اور زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں، بیوروکریسی اور افسر شاہی چاہے خاکی ہو یا سفید کالر میں ملبوس،ان کے سامنے آئین و قانون کی کوئی وقعت نہیں، ہماری جہادی صحافت کو بھی بالعموم سانپ سونگھ جاتا ہے۔

اگر ضیاءالحق ’’حق‘‘ پرنہیں تھا تو بھٹو بھی دودھ کا دُھلا نہ تھا، یہ وہ شخص تھا جو ایوانِ اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ ، ڈکٹیٹر شپ یا آمریت کو ’’ڈیڈی ‘‘ یا ابا حضور کہہ کر گھسا تھا ،چلیں یہ اس کی سیاسی مجبوری تھی بصورت دیگر وہ حکومتی ٹرین کے پائیدان پر قدم نہیں جما سکتا تھا اس لئے اس جرم کی معافی تلافی ہو سکتی ہے اس کے بعد اس نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جو وتیرہ اپنائے رکھا کہ ان سب معززین کا جینا حرام کر دیااور بالآخر قتل کی سازش کرنے کے الزام میں خود بھی مارا گیا، اس کو کس کھاتے میں رکھیں ؟آج بھٹو زندہ ہے تو اپنے کرتوتوں یابل بوتے پر نہیں ،محترمہ بے نظیر بھٹو کی وسعت نظری ، دور اندیشی اور وسیع القلبی کی بدولت۔

درویش ضیاالحق کے کردار پر بھی بات کرنا چاہتا ہے لیکن آئندہ پر ڈالتے ہوئے آج کی صورتحال پر کچھ عرض گزار ہے، آج کا نیا انقلابی رہنما دھمکیاں دے رہا ہے کہ ان لوگوں نے اگررویہ نہ بدلا تو پھر میں بہت کچھ بولوں گا، سب کچھ سامنے لے آئوں گا ، اس سے قبل ایوانِ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اس نے اسی نوع کی گیدڑ بھبکی دی تھی کہ اگر مجھے نکالا تو میں زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔

بندہ پوچھے کیا آپ وہی نہیں ہیں جو ابھی کل ہی یہ خوشامدی الفاظ بول رہے تھے کہ کوئی میرے آرمی چیف کو برا کہے تو مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا تو پھر آج دھمکیاں کس کو دے رہے ہیں ؟کیا سیالکوٹی لیڈر ٹھیک نہیں کہتا کہ عوامی جلسوں میں خط لہرا لہرا کر امریکی سفارت کار ڈونلڈ کو برا بھلا کہنے والا اندر خانے اپنے لوگوں کو اس سفارت کار کے پاس بھیج کر معافیوں تلافیوں کا خواستگار ہے، ایک سانس میں عالمی طاقت پر لعنتیں ڈالتا ہے اور دوسری سانس میں کہتا ہے کہ امریکہ کے بغیر ہماری معیشت چل ہی نہیں سکتی ،ایک طرف اپنے خلاف بیرونی سازش کا واویلا کرتاہے اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کو دھمکیاں دیتا ہے کہ میں تمہارے راز طشت ازبام کر دوں گا مگر کون سے راز ؟

یہ کہ نواز شریف کے خلاف تم لوگوں نے مجھے بطور مہرہ استعمال کیا، یہ کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کو غیر آئینی و غیر جمہوری طریقے سے گرانے کیلئے بنائی گئی اسکیموں میں میں تمہارا آلہ کار بن گیا اور اب جب آپ لوگوں نے اقتدار سے محروم کردیا تو مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو رہا ۔

آپ کا موقف ہے کہ سابق خاتون اول بشریٰ بیگم ایک غیر سیاسی گھریلو خاتون ہیں، ان کے خلاف آڈیوز نہیں لائی جانی چاہئیں جب کہ دوسری طرف بددیانتی کے سارے کھرے بنی گالہ میں انہی کی طرف کیوں جا رہے ہیں ؟جس پر وہ اپنے سوشل میڈیا انچارج کو کال کرتے ہوئے ہدایات دے رہی ہیں کہ تم کسی نوع کی کمزوری نہ دکھائو، امریکی مراسلے کے پروپیگنڈے کو زندہ رکھو چاہے میری بات آئے یا میری دوست فرح گوگی کی تم ہر مسئلے میں ہمارے مخالفین کو بس غدار قرار دیتے جائو۔

آج ایسی آڈیوز پر آپ کی تکلیف واضح ہے مگر کیا یہ آپ ہی نہیں تھے جو ایجنسیوں کے اس حق کی حمایت میں دلائل دیتے نہ تھکتے تھے کہ انہیں سرکاری و غیر سرکاری لوگوں کیا خود وزیر اعظم کی ٹیلی فونز کالز ریکارڈ کرنے کا حق حاصل ہے، پرائم منسٹر کی سیکورٹی کیلئےاس نوع کی کسی پرائیویسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے انہیں وزیر اعظم کی ہر بات کا علم ہونا چاہئے فلاں فلاں ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس طرح ہوتا ہے یا اس کی اجازت ہے اپنے اس موقف کے ساتھ اب دھمکیاں کیوں ؟نیز اس نوع کی ریکارڈنگ کیلئے ایجنسیوں کو حاصل یہ رسائی ضروری ہے تاکہ وہ وزیر اعظم کی کرپشن کو روک سکیں، اس کے معاملات پر نظر رکھ سکیں جس شخص کی نظروں میں بائیس کروڑ عوام کی قدر ہو نہ اپنے ہم عصر سیاست دانوں کی کوئی عزت، وہ جن بیساکھیوں کے سہارے آیا ہو ان کے ہٹنے پر دھمکیاں دینا اچھا نہیں لگتا۔انسان کو چاہئے کہ وہ وقت سے ڈر کر رہے، اپنے اچھے وقتوں میں بس دوسروں کے ساتھ اچھا پیش آئے وقت کے تیور بدلتے دیر نہیں لگتی۔وقت ہے پھولوں کی سیج، وقت ہے کانٹوں کا تاج، وقت کی ٹھوکرمیں ہے کیا حکومت کیا سماج۔

تازہ ترین