• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت کینیڈا میں موجود ہوں ،آجکل یہاں مقیم پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے عید الضحیٰ کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں،میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ بیرون ملک دوروں کے دوران نہ صرف وہاں کے مقامی کلچر اور معاشرے کو سمجھا جائے بلکہ اوورسیز پاکستانیوں سے بھی تبادلہ خیال کیا جائے، مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان کے باصلاحیت باشندے ہر ملک اور خطے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، تاہم حالیہ دورہ کینیڈا کے دوران مجھے پاکستانیوں کے چہرے پر مایوسی نظر آرہی ، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ اب حکمرانوں کی پالیسیوںسے نالاں ہوتے جارہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہر دورِ حکومت میں ان سے قربانیوں کا تقاضہ کیا جاتاہے جبکہ ان کی بے لوث قربانیوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل رہا۔میرے خیال میں قربانی کا تصوردنیا کے ہر مذہب میںپایا جاتا ہے بلکہ زمانہ قدیم میں بھی انسان خدا کی خوشنودی کے حصول کیلئے قربانی پیش کرتا تھا۔آج سے ہزاروں سال قبل اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے سب سے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا مشکل ترین فیصلہ کیا تو باپ بیٹے کو کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوئی، اللہ تعالیٰ نے جنت سے دنبے کو زمین میں اتار کر اس عظیم قربانی کو رہتی دنیا تک کیلئے امر کردیا۔اسی طرح مذہبی طور پر ہندو دھرم ،کرسچینئٹی، جوڈازم اور افریقہ کے قبائل میں خاص مواقع پرمالک کی خوشنودی کیلئے قربانی کی روایات قائم ہیں۔ میری نظر میں دنیا کا ہر بڑا تہوار اپنے اندر کوئی بڑا پیغام سموئے ہوتا ہے، عید الضحیٰ کا مقدس تہوار قربانی کا درس دیتا ہے ہمیں قربانی کا اصل مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، ہمیں پاکستان کی خاطر ہر قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے، یہ وہ بیانیہ ہے جو حکومتی سطح پر گزشتہ پچھتر سال سےپیش کیا جارہا ہے، کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر عوام سے قربانی طلب کی جاتی ہے تو کبھی ڈیم بنانے کیلئے عوام سے چندہ لیا جاتا ہے اور تنخواہوں سے کٹوتی کی جاتی ہے، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ عوام نے ہمیشہ حکمرانوں کی آواز پر لبیک کہا ہے لیکن عوام کے تعاون کو اگر درست انداز میںاستعمال کیا جاتا تو آج ملک کے حالات یوں دگرگوں نہ ہوتے۔ عمران خان حکومت تبدیلی کے نعرے پر برسراقتدار آئی تھی، گزشتہ حکمرانوں کے برعکس خان صاحب کے کریڈٹ میں ناسازگار حالات کے باوجود کرکٹ ورلڈ کپ میں فتح یابی اور شوکت خانم کینسر اسپتال کا قیام تھا، عوام کو یقین تھا کہ جیسے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے لوگوں کی امدادسے یہ عظیم منصوبہ کامیابی سے مکمل کرکے چلایا جارہا ہے، ایک دن ہمارا پیارا وطن بھی ان کی قیادت میں اسی طرح کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے گا، لیکن افسوس، یہ سب وعدے سراب ثابت ہوئے ، ان کے دور میں ملک مزید پیچھے چلا گیا۔اسی طرح موجودہ (ن) لیگ حکومت کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ تجربہ کاروں کی حکومت ہے، انہیں نہ صرف عوامی مسائل کا ادراک ہے بلکہ یہ ان کے حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، تاہم جس بے رحمانہ انداز سے آئی ایم ایف نے انہیں اپنے شکنجے میں جکڑا ہے ، اس نے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑگئی ہے، گزشتہ حکومت کے معاہدے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں جنہیں نہ نگلا جا سکتا ہے اور نہ اُگلا۔ اس وقت پیٹرول کی موجودہ قیمت ڈھائی سو روپے فی لیٹرہوچکی ہے جس میں مرحلہ وار مزید اضافہ ہورہاہے، ملک میں مہنگائی کا سیلاب آچکا ہے، عوام کی قوتِ خرید دم توڑتی جارہی ہے اور ہمارے تجربہ کار حکمراں عالمی اداروں کو ٹیکس میں اضافے کی نوید سنا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت نے اس کی کھپت میں نمایاں کمی کی ہے۔ حکومتی عہدے داروں کو اپنی آرائش، سرکاری مراعات، نوکرچاکر اور پروٹوکول کے نام پرعیاشیوں کی قربانی دینے چاہئے، ہماری ایلیٹ کلاس کو اپنے اثاثے پاکستان کیلئے قربان کرنے کی ضرور ت ہے۔ آئی ایم ایف کو یہ باور کرانا چاہئے کہ ہمیں عوام کا معاشی قتل کسی صورت منظور نہیں، قرضے کا حصول عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہے نہ کہ قربان کرنے کیلئے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہی مسائل جو آج پاکستان کو درپیش ہیں، دنیا کے ہر ملک نے ان کا سامنا کیا ہے لیکن وہاں کے حکمرانوںنے عوام کی خوشحالی کیلئے سب سے پہلے خود کو قربانی کیلئے پیش کیا جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم پاکستان کے نام پر عوام کو قربانی کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنی عیاشیوںمیں کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔ ہر سال عید الضحیٰ کا دن عظیم قربانی کی یاد دلاتاہے کہ ہمیں خدا کی راہ میں اپنی عزیز ترین چیز کوقربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے، وقت آگیا ہے کہ آج اس مبارک موقع پر ہم قربانی کا اصل مفہوم سمجھیں اور اپنے آپ کو سب سے پہلے قربانی کیلئے پیش کریں، اگر ہمارے حکمراںایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو نہ صرف خدا راضی ہوجائے گا بلکہ پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین