• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال اور رومی وشوامترکے غار سے نکلے تو انہیں ایک جادو بھری آواز سنائی دی۔

تو کب تک سراب کے اندر کشتی چلاتا رہے گا

حجاب میں پیدا ہوا اور حجاب میں مرے گا

بجلی بن کر بیابان و خیابانی پر گر

بے محنت کوئی کام ہاتھ نہیں آتا

یہ جادو بھری آواز جنت سے نکالی ہوئی ایک حور کی تھی۔ اقبال اور رومی اب ایک خوبصورت وادی طواسین میں پہنچے، جہاں انوارو تجلیات کا زور رہتا ہے۔ اقبال نے رومی کی شاعری کے متعلق کہا….

علامہ اقبال کی فارسی مثنوی ’’جاوید نامہ‘‘کی تلخیص و ترجمہ

رومی کا کلام عشق و محبت کی دلیل ہے، پیاسوں کیلئے وہ ایک چشمہ ٔ آب ہیں شعر کے اندر آگ ’’اللہ ہو‘‘ سے آتی ہے۔ ایسی شاعری مٹی کو پھول بنا دیتی ہے۔ آسمان کو ہلادیتی ہے، فقیروں کو بادشاہ بنا دیتی ہے، دل کو بیدار کردیتی ہے۔ ایسی شاعری پیغمبری ہے۔

رومی نے اقبال سے کہا… اگر تیری عقل کو کمال حاصل ہو جائے تو بھی پیغمبر سے دور نہ جانا کیونکہ پیغمبر کے نزدیک جسم اور روح ایک ہیں۔

اتنی دیر میں ہم وادی یرغمید میں پہنچ گئے۔ اس مقام کی خوبصورتی کا کیا بیان کروں۔ ہر وقت سات ستارے اس کا طواف کرتے ہیں۔ اہل فرش (انسان) اس سے روشن ضمیری حاصل کرتے اور اہل عرش (فرشتے) اس کی خاک کا سرمہ آنکھوں میں لگاتے، گوتم بدھ اسی وادی میں رہتے ہیں۔ گوتم بدھ نے مجھ سے ’’اے اقبال دنیا کی کوئی شے سکم نہیں ہے۔ 

ہر چیزکو فنا ہے، شراب حسن و حور کوہ صحرا، بروشر، سب کو فنا ہے، یہ چیزیں آنکھ سے نظرتو آتی پر پھربھی کوئی دائمی وجود نہیں رکھتیں، اہل رب کی دانش ہو یا اہل مشرف کا فلسفہ کسی کو بھی دوام نہیں، غیب بھی وہم و گمان ہے۔ اگر جنت بھی بغیر کوشش کے ملے تو قبول نہ کر، راحت جان طلب کرنے کی بجائے مظلوموں کی مدد کرحسن انسانی ایک لمحہ ہے۔ دوسرے لمحے نہیں۔

مہاتما گوتم بدھ سے ملاقات ختم ہوئی۔ آگے بڑھے تو ایک رقاصہ نظرآئی جویہ غزل گا رہی تھی…

اس بے قرار دل کو کشمکش میں نہ ڈال

بلکہ اپنی زلفوں میں مزید پیچ و خم ڈال

تو نے مرے سینے میں وہ برق بجلی پیداکردی ہے کہ مجھے مہرو ماہ بھی نظر نہیں آتے تو نے مجھے طبع پابند عطا کی ہے۔

تو میرے پیروں سے زنجیریں کھول دے تاکہ میں خلعت شاہی کو تیری گدڑی پرقربان کردوں سچا عاشق تو کچا گھڑا لے کر دریا میں اُتر جاتاہے۔

اس کے بعد دونوں حضرات آگے بڑھے۔ وہاں اور بھی بہت سے مشاہدات ہوئے، ابرمن، زرتشت، شیطان اور طالطائی سے بھی ملاقات ہوئی لیکن دونوں نے کب ایک نئے فلک عطارد کی طرف رُخ کر لیا۔ جہاں جمال الدین افغانی اور حلیم پاشا سے ملاقات ہوئی۔ دونوں نے اقبال سے بھی پرمغز اور دلچسپ گفتگو کی۔ ہم نے ان دونوں کے ساتھ نماز پڑھی۔

ایسی عظیم ہستیوں کے ساتھ نماز پڑھنا اصلی عبادت ہے۔ قرآت سن کر دل سینے میں بے قرار ہوگیا۔ کافرکے بعد افغانی نے کہا،اے اقبال دنیا کا کچھ احوال سنا۔ میں نے کہا ہماری قوم پہلے بت شکن تھی، لیکن اب دنیا کی الجھنوں میں ایسی گرفتار ہے کہ اسلام سے نااُمید اور بے فرنگ سے سرشار ہے اہل مغرب سے مغلوب اور کمیونزم سے مرعوب ہے۔

افغانی نے کہا ہے مغربی فکرکے ماہر ہیں۔ انہوں نے ہمیں نیشنلزم کا درس دیا ۔حضرت موسیٰ کی نسل سے ایک شخص کارل مارکس پیدا ہوا۔ اس کا دل مومن اور دماغ کافر ہے۔ اس ناشناس کا مذہب پیٹ پوجا (بھوک) ہے۔ اس کے مقابلے میں سرمایہ داری تو ظلم ہے۔ جس کا جسم موٹا اور سینہ تاریک ہے۔ دانش حق شناس ہوتی ہے۔ اور عشق منزل شناس مغربیوں کی شراب میں سوزو مستی نہیں۔

ابنِ آدم۔عشق کے رازوں میں سے ایک راز ہے، عشق ایک ایسا ستارہ جو کبھی غروب نہیں ہوتا۔ اس کا مشرق ہے نہ مغرب، وہی نمازی ہے۔ وہی امام۔ ہماری توقیر عورت کی سر بلندی سے ہے۔ ہم سب ماں کی نقش گری سے وجود میں آئے ہیں۔ پاک وصاف ہو کر ماں کا مرتبہ و سیکھ یاد رکھ تخلیق کا ذوق بدن میں پوشیدہ آگ ہے۔ علم اور شوق دو نوری زندگی کے مقامات میں سے ہیں۔

عالم کو جلوت اور عاشق کو خلوت پسند ہوتی ہے۔ عقل صرف اپنا فائدہ دیکھتی ہے وحی۔ سب کا فائدہ۔ آدم کی کہانی اور کیا ہے۔ دین پر قبضے کی خاطر جنگیں۔ اے انسان زمین سے بجز رزق اور قبر کچھ نہ مانگ۔ حکمت خیرکثیر ہے۔

جہاں سے ملے لے لے۔ علم کا راستہ آسمان کی بلندیوں میں ہے۔ اس علم نے افرنگ کے سینے میں آگ بھر دی ہے۔ انہوں نے اسی کی مدد سے دوسری اقوام کو فتح کر لیا ہے جو علم، عشق سے خالی ہو اس سے خد ا کی پناہ مانگ۔ آج کا مُلا دین کی حکمت سے بے بہرہ ہے ۔ وہ کم نگاہ اور کور ذوق اپنے۔ کافر کا دین۔ غور و فکر ہے۔ آج کے مسلمان کے دل میں آگ بجھ گئی ہے۔

جمال الدین افغانی سے ملاقات ختم ہوئی تو دونوں فلک زہرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس کی فضا تاریک (سیاہ) تھی۔ وہاں ہوا بہت تیز تھی اور بادل چھائے ہوئے تھے۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو دریا اور کہسار نظرآنا شروع ہوگئے۔ کہسار پُرازبہار تھے۔ معطر ہوائیں آرہی تھیں۔ پرندے گا رہے تھے اور چشمے گنگا رہے تھے۔ بڑی خوبصورت وادی تھی جس میں پرانے زمانے کے خدائوں کی مجلس جمی ہوئی تھی۔ کوئی عرب کا خدا تھا، کوئی ایران کا، کوئی عراق کا، ایک خدا کہہ رہا تھا۔

پرانے خدائو… یہی وقت ہے فائدہ اٹھانے کا، مسلمانوں بتائو کہ دین کے پھندے سے آزاد ہو جائیں۔ نماز صرف ایک رکعت نماز کافی ہے۔

اے پرانے خدائو… یہی وقت ہے … یہی وقت ہے۔

اس کے بعد ہم ایک دریا معین میں داخل ہوگئے۔ وہاں فرعون اور لارڈکچنز کی روحوں کو بھٹکتے دیکھا۔ آگے بڑھے توبرف کا پہاڑ دیکھا اور اس کے نیچے ایک سمندر تھا۔ سمندر بڑا پُرسکون تھا۔

اس کے بعد بجلی چمکی اور مہدی سوڈانی (درویش) نظرآئے۔ مہدی کہہ رہے تھے۔ اے روح عرب بیدار ہو اور اپنے لئے نئے زمانے تخلیق کر۔ وہاں ایک ٹیلہ تھا۔ جس پر سے ہرن نیچے اُتر رہے تھے۔ بڑا دلکش منظر تھا۔

پھر ہماری آنکھیں بند ہوگئیں۔ جب کُھلیں تو ہم نئے فلک مریخ پر تھے۔ میں بھی مریخ کی وسعتیں دیکھتا اور کہیں اس کے سبزہ زار… اتنے میں مریخ کا ایک باشندہ نظرآیا۔ چہرہ تابناک تھا اور وہ ہر علم سے واقف تھا۔ باشندنے کہا۔۔ یہ ہمارا شہر مرغدین ہے۔ مرغدین بڑا خوبصورت شہر تھا۔ عمارات بلند۔ باشندے شیریں گفتار، یہاں کوئی شخص دینار و درہم سے واقف نہیں۔ کسان جفا کش ہیں۔ جاگیرداروں کی لوٹ مار نہیں یہاں نہ فوج ہے نہ پولیس۔ کوئی کسی کا استحصال نہیں کرتا۔

مریخین نے کہا۔اے انسان تو سمجھتا ہے، یہ آب وخاک باغ ورانج تیری ملکیت ہیں۔ اے ناداں یہ سب صرف خدا کی ملکیت ہیں۔ حیرت ہے جو چیزی تیری نہیں ہے۔ تجھے اس پر ملکیت کا دعویٰ کیوں ہے۔

چلتے چلتے ایک مریخی دوشیزہ نظرآئی۔ وہ اندھی بھی تھی اور بد صورت بھی، ہمارے امیر نے بتایا یہ دوشیزہ مریخ کی نہیں ہے۔ اسے شیطان یورپ سے اغوا کرکے لایا ہے۔ اس دوشیزہ کا عقیدہ ہے۔ اے عورتو، مرد سے بچو۔ وہ ایک سانپ ہے، اس کے زہر کو اپنے جسم میں نہ ڈالو، شوہروں کے بغیر زندگی بہت اچھی ہے۔ مرد سراپا شیطان ہیں۔

اے عورت اٹھ اور مرد کی غلامی سے ا ٓزاد ہوجا

پیر رومی نے مجھ سے کہا۔ تہذیب کی اصل دین ہے اور دین کی اصل عشق ہے۔ عشق کا ظاہر سوزناک اور باطن نور ہے۔ آداب دین سیکھے بغیر عشق نہیں آتا۔

اس گفتگو کے بعد ہم ایک نئے فلک کا قصہ کرتے ہیں۔ یہاں ہماری ملاقات منصور حلاّج۔ مرزا غالب اور قرۃ العین طاہرہ سے ہوتی ہے۔ منصور، بغداد کا رہنے والا… اور جنید بغدادی ؒ کا ہم عصر تھا… اس کے سرمیں عشق کا سودا سما گیا…وہ ایسا بے خود ہوا کہ اپنا ہوش نہ رہا۔ اس کا آبگینہ دل تندی صہبا سے پگھل گیا۔ اسے گمان ہوا کہ خدا اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ علمائے وقت کے فتویٰ پراسے اذیتیں دے دے کر مارا گیا۔

طاہر ہ۔ مرزا غالب کی ہم عصر۔ ایرانی شاعرہ تھی۔ وہ بڑی حسین و جمیل عورت اور اعلیٰ درجے کی شاعرہ تھی۔ اس کے زمانے میں علی محمد باپ نے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی۔ طاہرہ اس کی مرید ہوگئی۔ اس راہ میں بڑی صعوبتیں اٹھائیں۔ اپنے عقیدے کی بنا ء پر اسے پھانسی کاحکم ہوا۔ بادشاہ کے دربار میں پہنچایا گیا۔ بادشاہ اس کے حسن اور علم سے بڑا متاثرہوا۔ اسے شادی کی پیشکش کردی۔ طاہرہ راضی نہ ہوئی، چند دن کے بعد اسے پھانسی دے دی گئی۔

منصور حلاّج نے اقبال سے کہا… تو اپنی خاک سے وہ آگ طلب کر جو ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ محبوب حقیقی کے جلوے نے کائنات کا احاطہ کررکھا ہے۔ اگرچہ عقل نے بڑا لائولشکر جمع کر رکھا ہے… مگر عشق بھی تنہا نہیں ہے۔ مرد آزاد کی روح جنت میں نہیں سما سکتی۔ بردِ آزاد کی روح کا کام کائنات کی سیر ہے۔ جنت تو مُلا کے لئے ہے۔ عاشق کیلئے نہ کوئی خوف ہے نہ اُمید۔ عشق کے بغیر زندگی عذاب ہے اس جہاں میں ہر جگہ خودی ہی کارفرما ہے۔ چمن کا جلوہ اسی کے باعث ہے۔

اے اقبال۔ تو اپنی قوم کوجگانے کیلئے ایک محشر برپا کر رہا ہے لیکن اپنی قوم سے بچ کر رہنا۔

طاہرہ ۔ صاحب جنوں لوگوں کے جنون سے ایک نئی کائنات وجود میں آتی ہے۔ سچا عشق ہر پردے کو پھاڑ کر باہر نکل آتا ہے۔

اے ہر لمحہ دار ورسین کی آزمائش درپیش رہی ہے۔ پھر طاہرہ اپنی غزل سناتی ہے۔؎ اے محبوب اگرتو میرے سامنے آجائے تو میں کھل کر غم عشق کی شرح بیان کروں۔ تیرے دیدار کی خاطر میں صبا بن گئی ہوں۔ تیرے فراق میں میرے دل کا خون آنکھوں سے ٹپک رہا ہے۔ دریا بہ دریا، ندی بہ ندی، چشمہ بہ چشمہ میرا ہی خون ہے۔ 

میرے دل حزیں نے تیری محبت کو میری جان پراس طرح پھیلا دیا ہے جیسے ململ کا کپڑا، خاردار جھاڑیوں پر پھیلادیا ہو۔ دھاگہ بہ دھاگہ۔ تار بہ تار۔ طاہرہ نے اپنے دل کی کتاب پر نظر ڈالی کتاب دل کے ہر صفحے پر اور ہر سطر پر تیرا ہی نام لکھا ہوا ہے…

پھر اقبال، غالب کی طرف متوجہ ہوئے۔اے حضرت ذرا مجھے اپنے قمری اور بلبل والے شعر کا مطلب سمجھائیں۔ غالب نے کہا، جو نالہ دل سے نکلتا ہے اس کی تاثیر ہر شخص پر مختلف ہوتی ہے۔ قمری عشق کی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتی ہے اور بلبل کوئلہ… عشق کسی کے لئے زندگی ہے۔ کسی کے لئے موت بلبل کے لئے زندگی ہے تو فاختہ کے لئے موت، زندگی کے اندر موت اور موت کے اندر زندگی پوشیدہ ہوتی ہے۔

اقبال نے پوچھا۔ اتنی بڑی کائنات میں ہزاروں دنیائیں ہیں۔ کیا ہر دنیا کے اپنے اپنے انبیاء اور اولیاء ہیں؟ غالب نے کہا اے اقبال یہاں تو ہر لمحے نئے نئے جہاں وجود میں آرہے ہیں۔ جہاں جہاں زندگی کا ہنگامہ برپا ہو۔ اولیا اورانبیاء ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن رحمت اللعالمین صرف ایک ہیں۔

اقبال ۔ بات کھول کر بیان کریں میں سمجھ نہیں پایا۔

غالب۔ ایسی بات کھول کر بیان نہیں کی جاسکتی

اقبال۔ کیا اہل دل کی بات بے معنی ہوتی ہے

غالب۔ اس نکتہ کو کھول کر بیان کرنا، میرے لئے مشکل ہے۔

اقبال۔ حیرت ہے۔

غالب ۔ خدا کے نظام کی ابتداء تخلیق سے ہوئی اور انتہا رحمت اللعالمین پر۔

اقبال۔ میں سمجھ نہیں سکا۔

غالب ۔اے اقبال تو شعر کو خوب سمجھتا ہے لیکن یہ بات شعر میں بیان نہیں کی جاسکتی۔

یہاں ان روشن دلوں کی مجلس تمام ہوتی ہے۔ (جاری ہے)