تفہیم المسائل
سوال: دو بھائیوں نے والد کی جائیداد تقسیم کی، ایک بھائی کے حصے میں جو پراپرٹی آئی اس کی ویلیو زیادہ تھی، اس نے اپنے دوسرے بھائی سے کہا : میں اسے فروخت کرکے تمہیں تمہارے حصے کی بقیہ رقم دو تین سال میں دے دوں گا، دونوں کا اس پر اتفاق ہوگیا، تین سال بعد اس نے بھائی کے حصے کی رقم اُسے دے دی، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ جتنا عرصہ حصے کی رقم ادا نہیں کی گئی، اس کی زکوٰۃ کس کے ذمے ہے ؟
جواب: میراث کا مال جب تک ورثاء کے درمیان اصولِ وراثت کے قوانین کے تحت تقسیم نہ کردیاجائے اور ہر وارث اپنے حصے پرقابض نہ ہوجائے ، اُس مال کی زکوٰۃ کسی وارث پر واجب نہیں ہوتی۔ آپ کی بیان کردہ صورت میں ورثاء کے درمیان جائیداد کی تقسیم کردی گئی اور پراپرٹی ایک وارث نے خریدلی اور اُس کی ادائیگی کے لیے دو یا تین سال کی مدت طے کرلی گئی ،رقم فریقِ ثانی کے ذمے قرض بن گئی، فقہی اصطلاح میں اسے ’’دینِ ضعیف ‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔
ملک العلماء علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: اور دینِ ضعیف سے مراد وہ دین ہے جو کسی شے کے عوض ذمہ پر واجب ہوجائے ، خواہ اس کے فعل کا اُس میں دخل ہو یا نہ ہو، جیسا کہ مالِ میراث اور مالِ وصیت ، یا جو غیرِ مال کے بدلے میں کسی کے ذمہ پر واجب ہوا ہو، جیسے کہ عورت کا حق مہر اور خلع کا عوض اور قتلِ عمد میں مال پر صلح کرنا اور کتابت کا عوض۔ دینِ ضعیف میں جب تک کل مال پر قبضہ نہیں کرے گا ، اس وقت تک اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی اور یہ ضروری ہے کہ قبضے کے بعد اس پر ایک سال بھی گزر جائے ،(بدائع الصنائع ، جلد:02،ص:14)‘‘۔
دَینِ ضعیف پر زکوٰۃ اُس وقت واجب ہے، جب نصاب پر قبضہ کرنے کے بعد سال گزر جائے گزشتہ سالوں کا اس میں اعتبار نہیں یا اُس کے پاس (پہلے سے)کوئی نصاب اُسی جنس کا ہے اور اس کا سال تمام ہوجائے تو زکوٰۃ واجب ہے ۔شیخ الاسلام علامہ ابوبکر بن علی بن محمدالحداد یمنی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جو شخص مالکِ نصاب ہے، اگر درمیان سال میں کچھ اور مال اُسی جنس کا حاصل کیا، اُسے پہلے سے موجود مال میں ملا کر اُس کی زکوٰۃ اداکرے، خواہ وہ مال اُس کے پہلے مال سے(نمو پاکر) ملاہو یا میراث یا ہبہ یا کسی اور جائز ذریعے سے حاصل ہوا ہو ، شرط صرف یہ ہے کہ اُسی جنس سے ہو ،(الجوہرۃ النّیّرۃ ،ص:173)‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ کہ تین سال بعد جب وارث کو اُس کے حصۂ شرعی کی طے شدہ رقم ملی تو اگر پہلے سے صاحبِ نصاب ہے اور نصاب کی جنس بھی ایک ہے ، تو مجموعی نصاب میں اُس وصول شدہ رقم کو شامل کرکے مقررہ تاریخ پر زکوٰۃ ادا کرے گا ، چونکہ یہ رقم اس عرصے میں بھائی کے ذمے بھی قرض تھی، لہٰذا اُس پر بھی اِس کی اِس تین سالہ مدت کی زکوٰۃ نہیں ہے ۔