• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی شاندار فتح پر مخالفین جو شور شرابہ کر رہے ہیں وہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس سیاست کرنے کے لئے کچھ اور نہیں بچا ہے۔ انہوں نے اپنی شکست کا کوئی نہ کوئی جواز تو پیش کرنا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نہ تو انتخابات میں دھاندلی پر یقین رکھتی ہے اور نہ ہی اسے دھاندلی کرنے کی ضرورت ہے یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے جمہوریت اور آزاد انہ وشفاف انتخابات کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔اس جدوجہد میں پیپلز پارٹی کے رہنماوں اور کارکنوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے آمروں کا مقابلہ کیا، جیلوں کی سختیاں جھیلیں ،تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنے، اپنے جسم پر کوڑے کھائے اور پھانسی کے پھندے چومے۔ پیپلزپارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر دھاندلی کے ذریعے وہ جیتے یا انہیں جتایا جائے تو بھی سب سے بڑا نقصان پیپلزپارٹی کا ہوگا کیونکہ دھاندلی کا ہتھیار ہمیشہ عوام دوست سیاسی قوتوں خصوصاً پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال کیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک مرتبہ نہیں متعدد بار پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ اس ملک میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ دھاندلی کے ذریعے ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس لئے پیپلزپارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ دھاندلی کا ہر حربہ اور ہر منصوبہ ناکام بنایا جائے ۔ دھا ندلی جمہوریت کو ناکام بنانے کی منظم سازش ہے، جس کے لیے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں۔آج تک جن لوگوں کو دھاندلی سے فائدہ پہنچایا گیا، وہ پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی کے الزامات عائد کررہے ہیں ۔ یہ لوگ کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکتے ہیں کیونکہ انہیں سندھ کے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔ عمران خان اور ان کے مائنڈ سیٹ کے لوگ اس لیے اداروں کے خلاف گمراہ کن مہم چلا رہے ہیں کہ ادارے دباو میں آکر اپنے آئینی اور غیر جانبدارانہ کردار سے ہٹ جائیں اور متنازعہ کردار ادا کرتے ہوئے انہیں ہر حال میں اقتدار میں لے آئیں۔ سندھ میں بھی عمران خان کی ذہنیت والی کچھ جماعتیں اور سیاستدان ہیں جو کہتے ہیں کہ انہیں ہر صورت الیکشن میں جتوایا جائے لیکن سندھ میں یہ ممکن نہیں کیوں کہ سندھ کے عوام نے جمہوری جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں کی شکست کے اسباب بالکل واضح ہیں ۔ سب سے سبب تو یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے پاس امیدوار ہی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے پوری نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) سندھ کو سیاسی طور پر فتح کرنے کے دعوے کرتی ہے لیکن بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 6000 سے زائد نشستوں پر صرف 10 فیصد نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ دیگر سیاسی جماعتوں اور پیپلز پارٹی مخالف اتحادوں کا بھی یہی حال تھا۔ کچھ سیاسی جماعتیں چند اضلاع یا تعلقوں تک محدود تھیں۔ کئی لوکل کونسلز میں تو پوری نشستوں پر ان کے امیدوار بھی نہیں تھے۔باقی تمام سیاسی جماعتوں کے کل امیدواروں کی کل تعداد پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے بھی کم تھی۔ اس صورتحال میں ان کا یہ شکوہ سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں اکثریت کیوں نہیں ملی یا کیوں نہیں دی گئی۔ بلدیاتی انتخابات سے صرف ایک دن پہلے ساری سیاسی جماعتیں سندھ ہائی کورٹ میں جمع تھیں اور عدالت سے استدعا کر رہی تھیں کہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیئے جائیں۔پیپلزپارٹی کے سوا باقی ساری جماعتیں الیکشن سے فرار حاصل کر رہی تھیں۔ سندھ کے عوام ان لوگوں کو کیسے ووٹ دیتے، جو الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہتے تھے۔اب ان لوگوں کو الیکشن کے دوسرے مرحلے کا خوف ہے، جو ایک ماہ کے وقفے سے ہونے جارہا ہے۔ دوسرے مرحلے میں بھی انہیں اپنی جیت نظر نہیں آرہی ہے ۔ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی تین نسلوں سے عوام کی خدمت کر رہی ہے۔ میڈیا ٹرائل اور جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود سندھ کے لوگ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انہیں جو کچھ بھی ملا، پیپلزپارٹی کی وجہ سے ملا۔سندھ کا ایک عہد پیپلزپارٹی سے پہلے کا ہے اور دوسرا عہد پیپلزپارٹی سے منسوب ہے۔پیپلزپارٹی نے نہ صرف لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار دیا ہے اور صوبے پر بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے ہیں بلکہ سندھ کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے سب سے مضبوط آواز بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے۔ جب بھی شفاف الیکشن ہوں گے، لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے اور مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہوں گی۔اگر کسی کو دھاندلی کی شکایت ہیں تو ثبوت پیش کرے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا ہے کہ وہ دھاندلی میں ملوث لوگوں کے خلاف خود کارروائی کریں گے۔ اگر پیپلز پارٹی کا کوئی رہنما یا جیا لہ بھی دھاندلی میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی کیونکہ انتخابات میں دھاندلی اور ناجائز ذرائع کا استعمال پیپلز پارٹی کے آئین اور منشور کے خلاف ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ سوال دلچسپ اور حقیقت حال کا بیان ہے کہ" یہ کیا مذاق ہے کہ لاڑکانہ میں ہماری جیت پر دھاندلی کی شکایت کی جا رہی ہے؟" ۔اس کے بعد باقی کیا بحث رہ جاتی ہے ۔

تازہ ترین