• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضمنی انتخابات کی تاریخ جتنی قریب آ رہی ہے سیاسی بیانات میں تندی و تیزی اتنی ہی بڑھتی جا رہی ہے ،جلسے ہر دو اطراف بھرپور ہو رہے ہیں مگر افسوس کہ ان انتخابی جلسوں میں پارٹی منشور یا عوامی فلاحی پروگرام کی بات کم جب کہ ایک دوسرے پر رکیک ذاتی حملے زیادہ ہو رہے ہیں ۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ساتھ بھیرہ انٹرچینج کے ریسٹورنٹ میں بدتہذیبی کا جو واقعہ پیش آیا اس پر سوشل میڈیا میں خوب بحث ہوئی نتیجتاً بدتمیزی کرنے والی فیملی نے خود اپنی غلطی کا ادراک و اعتراف کرتے ہوئے عید کے روز ناروول میں احسن اقبال کے گھرپہنچ کر معافی مانگ لی اور احسن اقبال نےبھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر انہیں معاف کر دیا کہ وہ تو پہلے ہی ان کے خلاف کسی نوع کی قانونی چارہ جوئی نہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں ۔احسن اقبال اعلیٰ انسانی و اخلاقی اوصاف کے مالک ہیں، درویش نے بیسیوں مرتبہ ان کےساتھ سفر کیا ہو گا مگر آج تک ان کی زبان سے اپنے بدترین مخالفین کے خلاف بھی اس نوع کی زبان نہیں سنی جو پی ٹی آئی کے چیف کا وتیرہ ہے۔ حالیہ برسوں میں بدتمیزی پر مبنی جس کلچر کوپروان چڑھایا یا آگے بڑھایا گیا ہے، اس مشن پر کوئی شخص اکیلا نہیں ، ہماری گزشتہ آٹھ دہائیوں میں اس بدتہذیبی کی آبیاری ہوئی ہے ۔

بھیرہ کے اس متذکرہ بالا واقعہ پر جس طرح معافی تلافی ہوئی ،اسے میڈیا میں بہ نظرِ تحسین دیکھا جا رہا تھا مگر اگلے ہی روز سابق کرکٹرنے اس سب پر پانی پھیرتے ہوئے ایک جلسۂ عام میں احسن اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’جھوٹے ارسطو!تم برگرکھانے گئے تھے اور وہاں تمہارے ساتھ جو ہوا وہ بدتمیزی نہیں حقیقت تھی، تمہیں شرم نہیں آتی، تم چور نہیں اس سے بھی بڑھ کر ڈاکو ہو ۔‘‘کیا قوم اس شخص کو دیکھ نہیں رہی جو’’ ایاک نعبدو ‘‘سے اپنی تقریر کا آغاز کرتا ہے اور پھر جو منہ میں آتا ہے،بولتا چلا جاتا ہے ، اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ہر بیہودہ الزام عائد کرنا نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتا ہے اور اب اس میں نیوٹرلز بھی شامل ہو چکے ہیں ۔

دوسروں پرغلیظ الزامات عائد کرتے ہوئے اس شخص نے کبھی ایسے کسی تردد کو قریب ہی نہیں آنے دیا کہ کل کو جب یہ الزامات ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے جھوٹے ثابت ہوں گے تو ان کی کیا توقیر رہے گی لیکن یوٹرن لیتے ہوئے اسے شرم آتی ہے اور نہ دیر لگتی ہے ،یہی حال اس کے اس حامی کابھی ہے ، جو اس کے کان میں کہہ رہا تھا کہ تقریر کو اسلامی ٹچ دو ۔جب رانا ثنا اللہ پر ہیروئن ڈالتے ہوئے جعلی مقدمہ قائم کرکے انہیں جیل میں بند کروا رہا تھا اور ساتھ کہے جا رہا تھا کہ میں نے اللہ کو جان دینی ہے ،کبھی قرآن پر حلف دیتا تھا کبھی آخرت و عاقبت کی قسمیں کھاتا تھا ،ساتھ ایک نیوٹرل جنرل عارف ملک کو بٹھایا ہوا تھا، آج جب ان سب جھوٹوں کی قلعی کھلی ہے، کابینہ میں موجود اپنےہی ساتھیوں نے میڈیا کے سامنے سب کچھ اُگل دیا ہے تو انہیں نظر کیوں نہیں آرہا ؟

انگلینڈ کو سب سے زیادہ جاننے والے سے کوئی یہ پوچھے کہ برٹش پارلیمان جو جمہوریت کی ماں ہے، وہاں جو کچھ آج ہوا ہے کیا جناب کو اس کا بھی کچھ علم ہے؟ برطانوی وزیر اعظم پر ان کے اپنےلوگوں نے عدم اعتماد کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا ہے تو اسے کسی نام نہاد امریکی سازش کا واویلا کرنا پڑا ہے اور نہ امریکی سفارت کار کا مبینہ خط لہرانا پڑا ہے، نہ نیوٹرلز پر حملے کیے ہیں اور نہ لوٹا لوٹا کے آوازے کسے جا رہے ہیں لیکن یہاں سابق کرکٹر مسلسل بولےچلے جاتا ہے اور کوئی گرفت کرنے والا نہیں ۔اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں اس ملک کے متعلق بھی کیا کچھ نہیں کہا گیا ؟ اگر ہمیں نہیں جتوانا، امریکی غلامی کو قائم رکھنا ہےتو پھر اس ملک کو بننا ہی نہیں چاہئے تھا! کیا میڈیا کی طرف سے یہ سوال نہیں بنتا کہ ایسے سیاست دان جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہر نامناسب بات کی، میڈیا سےان کا بلیک آئوٹ کیوں نہیں؟

تازہ ترین