• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ٹرام سروس‘‘ ماضی کی جدید مسافر گاڑی

کراچی شہر کو ہمیشہ ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی طرح کراچی بھی تیزی کے ساتھ ترقی کرتا رہا ہے ، اس کا ماضی انتہائی شاندار اور تاریخ ساز ہے۔ یہ شہر دنیا کے دوسرے شہروں کا ہمیشہ مقابلہ بھی کرتا رہا، جتنا قدیم ہے اس میں اتنی ہی ماضی کی یادیں چھپی ہوئی ہیں۔ نوجوان نسل کو شاید اس بات کا علم ہی نہیں ہوگا کہ کبھی یہاں کی سڑکوں پر سفر کے لئے ٹرام چلا کرتی تھی جو اس وقت ٹرانسپورٹ کا انتہائی اہم ذریعہ تھی۔

کراچی اس خطے کا وہ شہر تھا جو جدید سہولیات سے آراستہ تھا اور یہاں کے شہری ان سہولیات سے مستفید ہوتے تھے۔ یہاں بلند عمارات ، بڑے بڑے باغات، کشادہ سڑکیں، اسپتال، جانوروں کے اسپتال، مارکیٹیں، گھنٹہ گھر، میونسپل آفس، اخبارات کے دفاتر، اسکولز، کالجز اور چڑیا گھر بھی تھا۔ 10 اپریل 1885ء کراچی کی تاریخ میں ایک انتہائی یادگار اور روشن دن تھا، اس دن اس شہر نے ایک اور سنگ میل عبور کیا اور ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی نے کراچی میں ٹرام سروس کا باقاعدہ آغاز کیا جس سے شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کراچی دنیا کے ان شہروں میں شمار ہونے لگا جہاں ٹرام سروس سے لوگ سفر کرتے تھے۔

 1879 ء وہ سال تھا جب جان کریٹن نے کراچی میں ٹرام سروس چلانے کا ابتدائی خاکہ پیش کیا تھا، 1881 ء میں بلدیہ کراچی کے سیکریٹری اور چیف انجینئر جیمس اسٹریچن نے کراچی میں ٹرام سروس کے منصوبے کو حتمی شکل دینا شروع کی، اسی سال ایک انگریز ٹھیکیدار ایڈورڈ میتھو نے ٹرام وے کی پٹری بچھانے کے لئے باقاعدہ ٹینڈر داخل کئے۔ 1883ء میں بھاپ انجن کے ذریعے ٹرام چلانے کی منصوبے کی باضابطہ طور پر منظوری حاصل کی گئی اور ٹھیکیدار ایڈورڈ میتھو کو اس تعمیراتی پروجیکٹ پر کام کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

اکتوبر 1884ء میں کراچی ٹرام وے کے منصوبے پر تعمیراتی کاموں کا آغاز کیا گیا، 10 اپریل 1885ء کو نیپیئر مولجی برج سے لے کر کیماڑی تک بچھائی ٹرام پٹری پر جسے عام طور پر ٹرام پٹہ کہا جاتا تھا بھاپ سے چلنے والی پہلی ٹرام سروس کا افتتاح کیا گیا۔ اس سروس کا باقاعدہ افتتاح کمشنر سندھ ہنری نیپیئر نے کیا۔افتتاحی تقریب میں سندھ کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل جی لک، اسسٹنٹ کمشنر کراچی ڈاکٹر جے پولن اور سابق ولی قندھار پرنس شیر علی خان اور ان کے عملے کے علاوہ معززین شہر نے شرکت کی، جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ 1884-85 ء کا کراچی بہت پرسکون، صاف ستھرا، شور اور آلودگی سے پاک شہر تھا۔

اسٹریم ٹرام کی آمدورفت سے ایسا لگنے لگا کہ جیسے کوئی بحری جہاز شہر میں داخل ہوگیا ہو، یہ شور نہ انگریز حکمرانوں کو برداشت ہوا نہ شہر کی تجارتی پارسی برادری کو پسند آیا، بمبئی کے سیٹھ جو کراچی کو ایک تفریح گاہ سمجھتے تھے وہ بھی اس شور وغل سے نالاں تھے، چنانچہ 1886ء میں اسٹریم ٹرام وے کی جگہ گھوڑا ٹرام نے لے لی اور ہر ٹرام کے آگے دو گھوڑوں کو باندھا جاتا جو اس کھینچ کر منزل تک پہنچانے کا کام انجام دیتے تھے۔ گھوڑوں کو پانی اور چارے کی فراہمی کے لئے شہر میں جگہ جگہ پیائو بنائے گئے، 25 مارچ 1905ء کو کراچی میں پیٹرول سے چلنے والی نئی کشادہ اور ہوادار ٹرام متعارف کرائی گئی،یوں گھوڑے سے ٹرام چلانے کا سلسلہ ختم ہوا اور پورے کراچی میں پیٹرول سے چلنے والی 35 ٹرامیں چلنے لگی ہر پیٹرول ٹرام میں 45 مسافروں کی گنجائش تھی۔

یہ 18 سے 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی تھی۔ پیٹرول سے چلنے والے انجنوں کے ذریعے ٹرام سروس کی آمدورفت میں روانی پیدا کرنے کے لئے پورے شہر میں ٹرام کی پٹری بھی دوبارہ ڈالی گئی۔ 1913 ء کے آخر تک شہر میں 37 پیٹرول ٹرامیں چلنے لگیں،1955 ء تک یہ تعداد بڑھ کر 64 ہوگئی۔ پیٹرول انجن 35 سال تک ٹرام سروس کامیابی سے چلاتے رہے ،پیٹرول سے جو پہلی ٹرام چلی، اس کا نمبر ’’94‘‘تھا۔ 1945ء میں ٹرام کے لئے ڈیزل انجن متعارف کرائے گئے۔1947 ء میں قیام پاکستان کے بعد کراچی وہ واحد شہر تھا جہاں یہ ٹرام سروس چلا کرتی تھی، 1955ء میں کراچی میں چلنے والے ٹرام وے نیٹ ورک کو شیخ محمد علی نے خرید لیا، پھر یہ سروس محمد علی ٹرام وے کمپنی یا ایم ٹی سی کے نام سے موسوم ہوگئی۔

امریکی نیوی سے تعلق رکھنے والے، کیپٹن رحیم اللہ جب کراچی آئے تو ڈاکس پر بحری جہاز سے اترنے کے بعد انہوں نے ٹرام میں سفر کیا اور اس سفر کو انتہائی دلچسپ قرار دیا، انہوں نے ٹرام کی ویڈیو بنائی اور بعد میں ٹرام سروس سے متعلق ایک تاریخی دستاویزی فلم بھی تیار کی جو دیکھنے والوں میں پسند کی گئی۔

پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ’’کراچی کی کہانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شہریوں کو سفری سہولت فراہم کرنے کے لئے صدر سے کیماڑی تک ٹرام چلتی تھی پورا سفر ایک ٹکے میں طے ہوجاتا ، ٹرام بوہری بازار سے ایک طرف صدر ریلوے اسٹیشن کی طرف جاتی اور دوسری طرف بندرروڈ سے ہوتی ہوئی کیماڑی تک، شہری آرام سے سفر کرتے تھے، نہ ٹرام میں دھکم پیل اور نہ خلقت کے گرنے کا مسئلہ، پاکستان کے قیام کے وقت ٹرام کے علاوہ گھوڑا گاڑیوں کا بھی رواج تھا ، موٹریں اور بسیں بالکل نہ تھیں، رکشے کسی نے دیکھے نہیں تھے، مالدار لوگ سواری کے لئے گھر کی وکٹوریاں گاڑیاں رکھتے تھے۔

پہلی موٹر کار ایک میمن سیٹھ عبدالرحیم صالح محمد نے منگوائی جو ہمبر (Humber) تھی، اس کی چھت کھلی تھی، سڑک پر نکلتی تو لوگ باادب ہو کر ایک کنارے ہوجاتے، انگریز زیادہ تر گھوڑوں پر گھومتے تھے، شام کو ہوا خوری کے لئے کلفٹن تک جاتے، یہ سڑک ابھی پکی نہیں ہوئی تھی ، سر ہنری لارنس کمشنر سندھ کو میں نے قریباً ہر شام اسی سڑک پر میم کے ساتھ گھوڑوں پر سوار کلفٹن جاتے دیکھا ہے صرف میاں بیوی، نہ چوکیدار، نہ باڈی گارڈ،ملک میں بے حد سلامتی اور امن و امان تھا، کلفٹن پر جہانگیر کوٹھاری نے اپنے نام کی ایک پریڈ یا سیر گاہ بنوائی تھی۔‘‘

قیام پاکستان کے بعد لوگوں کا اندرون ملک بڑا ذریعہ ریل گاڑی تھی لیکن اندرون شہر کے لئے آمدورفت کا اہم ذریعہ ٹرام ہوا کرتی تھی، شہر میں عام طور پر لوگ تانگوں یا ٹرام میں ہی سفر کیا کرتے تھے، ٹرام ایک چھوٹی ریل نما سفری گاڑی تھی جس میں بیک وقت 60 سے 70 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوا کرتی تھی اور مسافروں کے بیٹھنے کے لئے چاروں اطراف نشستیں تھیں جبکہ درمیان میں مسافروں کے لئے کھڑے ہونے کی جگہ بھی تھی، ٹرام میں شیشے لگے ہوئے نہیں ہوتے تھے بلکہ صرف ایک چھت اور کھڑکیوں کی جگہ بڑے بڑے ہوا دان ہوا کرتے تھے جو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مسافروں کو ٹرام سے نکلنے میں مدد فراہم کرتے تھے، اگر یوں کہا جائے کہ ٹرام اپنے زمانے کی جدید مسافر گاڑی تھی تو غلط نہیں ہوگا۔ 

آج کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے رقبے کے لحاظ سے کراچی اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس کی آبادی ایک طرف سپر ہائی وے کے ذریعے حیدرآباد سے دوسری طرف حب ریور روڈ کے راستے حب بلوچستان سے اور تیسری جانب نیشنل ہائی وے کے ذریعے سندھ کے اندرونی شہروں سے سے ملتی جا رہی ہے لیکن پچاس سال قبل کراچی بہت ہی محدود تھا یعنی کراچی کے نقشے پر اولڈ سٹی ایریا ہی نظر آتا تھا اور یہیں ٹرام چلا کرتی تھی، بندر روڈ پر ٹرام کا ایک طویل ٹریک تھا جو گرومندر سے شروع ہو کر ٹاور پر ختم ہوتا تھا اور اسی ٹریک سے مزید دو اور ٹریک نکلتے تھے ایک کیپری سنیما سے سولجر بازار جاتا تھا اور وہاں سے سیدھا گرومندر، اسی طرح ایک ٹریک کینٹ اسٹیشن سے سیدھا بندر روڈ پر آکر ملتا تھا، ایم اے جناح روڈ کے عین وسعت میں جہاں آج دونوں سڑکوں کو تقسیم کرنے کے لئے فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ بنا ہواہے، وہاں ٹرام کی پٹریاں بچھی ہوتی تھیں، اسی طرح کینٹ اسٹیشن سے ایمپریس مارکیٹ اور وہاں سے سیدھا ایم اے جناح روڈ تک سڑک کے بیچ میں پٹریاں ہوتی تھیں۔ 

ٹرام اپنے زمانے کی تیز ترین اور پرکشش سواری تھی، جو شہر کے مرکز میں چلتی تھی، ٹرام سے متعلق ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی اسٹاپ نہیں ہوتا تھا، اس لئے مسافر اکثر راستے میں چلتی ٹرام پر چڑھا کرتے اور چلتی ٹرام سے ہی اتر جاتے، البتہ ٹرام میں سفر کرنے کے کچھ اصول طے تھے مثلاً آپ اس میں بھاری بھر کم سامان نہیں لے جاسکتے تھے، اگر ایک آدھ چھوٹا بیگ ہو تو اسے گود میں رکھ لیا کرتے تھے، ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ڈرائیور کے لئے کوئی الگ سے ڈرائیونگ سیٹ نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ وہ بالکل اگلے حصے میں کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سے گھنٹی بجاتا رہتا اور دوسرے ہاتھ سے پٹری پر چلنے والے لوگوں کو ہٹنے کا اشارہ کرتا رہتا تھا۔ 

کرایہ دس پیسے تھا، اگر گرومندر سے ٹاور جانا ہو یا کینٹ اسٹیشن سے ٹاور یا صدر آنا ہو تو اس کا کرایہ دس پیسے ہی تھا، کراچی کا موسم عموماً ہوا دار رہتا تھا اس لئے پرانی تصاویر میں ٹرام کی کھڑکیاں کھلی نظر آئیں گی تاہم جب موسم خراب ہوتا یا بارش ہوتی تو کنڈیکٹر ان کھڑکیوں کے شٹر بند کردیا کرتے تھے۔ 

قارئین آپ کو یہ جان کر بھی شاید حیرت ہو کہ ٹرام کی سب سے زیادہ اسپیڈ 25 میل فی گھنٹہ تھی۔1969ء میں حکومت نے کراچی میں 14 ٹرینوں پر مشتمل کراچی سرکلر ریلوے متعارف کرائی جو کہ ٹرام سروس کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتار تھی اور اس کا دائرہ بھی ٹرام کے مقابلے میں زیادہ وسیع تھا، زیادہ تر لوگوں نے سرکلر ٹرین چلنے کے بعد ٹرام میں سفر کرنا کم کردیا اور سرکلر ریلوے کے ذریعے سفر کرنے کو پسند کرنے لگے ، اسی طرح شہر میں پرائیویٹ بس کمپنیوں نے بسیں بھی چلانا شروع کردیں جس سے ٹرام کی اہمیت و افادیت کم ہوتی چلی گئی۔ 

1885ء میں بھاپ کے انجنوں سے شروع ہونے والا ٹرام ویز کمپنی کا سفر 30 اپریل 1975 ء میں اختتام پذیر ہوگیا۔ آج کراچی کے شاندار ماضی میں اپنا کردار ادا کرنے والی ٹرام سروس اب محض کراچی کی تاریخ بن کر رہ گئی ہے لیکن دنیا کے متعدد شہروں میں اپنی تاریخ اور تہذیب کو محفوظ رکھنے کے لئے آج بھی ٹرام سروس کو بند نہیں کیا گیا۔ ان شہروں میں ترکی کا شہر استنبول ، برطانیہ کا شہر لندن، جرمنی کا فرینکفرٹ،انڈیا کے شہروں پٹنہ اور کولکتہ میں ٹرام سروس آج بھی رواں دواں ہے۔ کراچی میں بھی 1975 ء میں ٹرام کی بندش کے بعد پانچ سال تک ٹرام کی پٹریاں اس امید پر نہیں اُکھاڑی گئیں کہ شاید ٹرام سروس کی بحالی کے کسی نئے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوجائے۔ 

ٹرام کراچی کی ایک روایتی سواری تھی جو سب سے سستی سواری کہلاتی تھی ، کیماڑی سے بولٹن مارکیٹ ، بولٹن مارکیٹ سے ایمپریس مارکیٹ، ایمپریس مارکیٹ سے کراچی کینٹ اسٹیشن اور صدر سے سولجر بازار اور کراچی چڑیا گھر تک یہ ٹرام چلا کرتی تھی ، دفتروں میں کام کرنے والے لوگ ، اسکول جانے والے بچے، گھر کا سودا سلف خریدنے والی خواتین اور چڑیا گھر کی سیر کو آنے والے لوگوں کے لئے یہ سب سے سستی سواری تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کراچی میں شہریوں کی دلچسپی اور اپنی شاندار تاریخ سے جڑے رہنے کے لئے ٹرام سروس اسی طرح رواں دواں رہتی۔