• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض لوگ بعض مشہور کتابوں کے ناموں کا تلفظ بھی درست ادا نہیں کرتے، مثلاً سِیَر الاولیا بہت معروف کتاب ہے۔ لیکن بعض لوگ اسے سَیر الاولیا پڑھتے ہیں۔ حالانکہ اس میں لفظ ’’سَیر ‘‘ نہیں ہے بلکہ سِیَر ہے یعنی ’’س‘‘کے نیچے زیر اور ’’ی‘‘ پر زبر ۔

سِیَر(سِ ی َ ر) دراصل جمع ہے سیرت کی۔ سیرت یعنی عادت، خصلت، طبیعت ۔ اسٹین گاس کی لغت کے مطابق سیرت کے ایک معنی سوانح عمری بھی ہیں۔ یعنی سِیَر کے معنی ہیں سیرتیں یا سوانح عمریاں۔ اولیا جمع ہے ولی کی۔ گویا سِیَر ا لاولیا کا مطلب ہوا ولیوں کی سیرتیں یا ولیوں کی سوانح عمریاں۔ یہاں یہ وضاحت کردی جائے کہ عربی میں’’ اولیاء ‘‘کے ہجے میں آخر میں ہمزہ لکھا جاتا ہے لیکن اردو والوں نے اب اس کے تلفظ اور املا دونوں سے ہمزہ کو تقریباً خارج ہی کردیا ہے اور اسے اب بالعموم بغیر ہمزہ کے یعنی ’’اولیا‘‘ ہی لکھا جاتا ہے ۔

سِیَر کا لفظ فِعَل کے وزن پر ہے۔ دراصل عربی میں جمع کے اوزان مقرر ہیں اور فِعَل (فِ۔عَ۔ل) ان میں سے ایک وزن ہے۔ اس وزن پر جس عربی لفظ کی جمع بنتی ہے اس کے پہلے حرف کے نیچے زیر اور دوسرے حرف کے اوپر زبر ہوتا ہے، مثلاً:

جمع واحد

مِلَل (جیسے اقوام و ملل) مِلّت

عِلَل(جیسے اسباب وعلل) عِلّت (یعنی وجہ)

فِتَن(جیسے دور ِ پُر فِتَن) فِتنہ

قِصَص(جیسے قِصَص الانبیا) قِصّہ

نِعَم (جیسے ناز و نِعَم ) نعمت

سِیَر(جیسے سِیَر الاولیا) سیرت

لفظ سِیَر بعض ناموں کا بھی حصہ ہے ، مثلا ً فَرُّخ سِیَر (یعنی اچھی صفات یا اچھی عادتوں والا)۔ برعظیم پاک وہند میں ایک بادشاہ فرخ سِیَر نام کا گزرا ہے۔ وہ جب تخت نشین ہوا تو اس نے حسب ِ دستور اپنا سِکّہ جاری کیا۔ کسی نے اس کا سکہ کہا جو یہ ہے :

سکہ زد از فضل ِ حق بر سیم و زر

بادشاہِ بحر و بر فرّخ سِیَر

اس وقت معاشی، سیاسی اور سماجی حالات دگر گوں تھے۔ ایسے میں بحر و بر یعنی سمندر اور خشکی کا بادشاہ ہونے اور سیم و زریعنی چاندی اور سونے سے سکہ ڈھالنے کے دعوے بعض لوگوں کے نزدیک مضحکہ خیز تھے ۔اور پھر فرخ سِیَر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ لوگوں کو تسمہ کشی سے مروادیا کرتا تھا۔چنانچہ اس زمانے کے معروف طنز نگار جعفر زٹلی نے اس سکے کی پیروڈی یعنی تحریف کی اور کہا :

سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر

بادشاہ ِ تسمہ کش فرخ سِیَر

اس پر بادشاہ برافروختہ ہوا اور جعفر کے قتل کا حکم دیا۔اس کا ذکر جمیل جالبی صاحب نے تاریخ ِ ادبِ اردو میں کیا ہے (جلد ۲، ص ۸۴)۔البتہ جعفر زٹلی کی موت کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ جعفر کو فرخ سِیَر نے تسمہ کشی سے مروایا یا کسی اور طرح قتل کروایا۔ لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جعفر کی سزائے موت پر عمل کیسے ہوا اور بغیر سند کے حتمی طور پر کچھ کہنا تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ فرّخ سِیَر کا درست تلفظ نہ کیا جائے تو مصرع بحر سے خارج ہوجائے گا اور زر اور مٹر کا قافیہ لفظ ِ سَیر نہیں ہوسکتا ، سِیَر ہوسکتا ہے۔ البتہ ثقہ حضرات کے نزدیک اردو یا ہندی کے الفاظ کے درمیان واوِ عطف لانا جائز نہیں سمجھا گیا، جیسے موٹھ و مٹر(اور اسی لیے ان حضرات کے نزدیک چیخ و پکار بولنا غلط ہے)۔ لیکن جعفر نے شاید مزاح پیدا کرنے کے لیے اپنی شاعری میں اس طرح کے مرکبات روا رکھے ہیں۔ بلکہ جعفر نے فارسی کے انداز میں اردو کے الفاظ بھی گھڑ لیے ہیں۔

تو درست تلفظ فِعَل کے وزن پر ہے یعنی سِیَر ۔اور اسی لیے سِیَر الاولیا اور فرخ سِیَربولنا چاہیے۔

رہ گیا سیر (یعنی بیائے مجہول) تو اس کا مطلب ہے بھرا ہوا، پُر،جس کی نیت بھر چکی ہو، جس کا پیٹ بھرا ہوا ہو، جیسے : سیر ہوکر کھانا کھایا۔ سیر کا لفظ بطور سابقہ بھی آتا ہے ، مثلاً سیر چشم، سیر حاصل۔ اسی سیر سے سیری کا لفظ ہے یعنی سیر ہونے کی حالت یا کیفیت، جیسے: سیری ہوجانا ، یعنی دل بھر جانا۔ اکبر الہٰ آبادی کی طنزیہ نظم برقِ کلیسا میں ایک مقامی نوجوان ایک انگریز ’’مِس‘‘سے کہتا ہے :

تُو اگر عہد ِ وفا باندھ کے میری ہوجائے

ساری دنیا سے مرے قلب کو سیری ہوجائے

لیکن اسی ہجے اور تلفظ یعنی سیر ( یائے مجہول سے )ایک اور لفظ بھی ہے۔ سیر ایک پیمانہ ہے جو وزن تولنے میں استعمال ہوتا ہے۔ اب تو خیر کلو گرام استعمال ہوتاہے لیکن پہلے سیر ہی تھا۔ ایک سیر ایک کلو گرام سے کچھ کم ہوتا ہے۔ کہتے ہیں سیر کو سوا سیر، یعنی ایک سے بڑھ کر ایک ،کسی صلاحیت میں بڑھا ہوا، ایک زبردست کے لیے اس سے بڑھ کر دوسرا۔ ’’سیروں‘‘ یعنی کئی سیر ۔ سیروں کنایۃً بہت یا بہت زیادہ کے مفہوم میں آتا ہے، امیر مینائی کا شعر ہے:

خشک سیروں تن ِ شاعر کا لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اک مصرع ِ تر کی صورت

لیکن ایک اور لفظ ہے سَیر (بیائے لین ) ۔ اس کے معنی ہیں حرکت، گھومنے پھِرنے کا عمل، سفر، چہل قدمی۔ سیر کرنا یعنی گھومنا پھرنا، سفر کرنا۔ میر درد کہتے ہیں:

سَیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو نوجوانی پھر کہاں

سَیرِ گل کے معنی ہیں پھولوں کو دیکھنا، باغ کی سَیر کرنا ۔ امیر مینائی کا شعر ہے:

مرغانِ باغ ! تم کو مبارک ہو سَیر ِ گل

کانٹا تھا ایک مَیں ، سو چمن سے نکل گیا

غالب نے اپنے زخموں کو پھولوں سے تشبیہ دی اور کہا کہ:

انھیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا

اٹھے تھے سَیرِگل کو دیکھنا شوخی بہانے کی

سَیرِ دریا یعنی دریا یا سمندر کی سیر ، پانی کے جہاز یا کشتی کے سفر کو بھی سیرِ دریا کہتے ہیں۔ سَیر کے ایک معنی تماشا یا پُر لطف واقعہ کے بھی ہیں۔ داغ دہلوی کہتے ہیں :

حور کے واسطے زاہد نے عبادت کی ہے

سیر تو جب ہے کہ جنت میں نہ جانے پائے

جان ٹی پلیٹس کا کہنا ہے کہ سَیرکے ایک معنی نظارہ ، منظر ، کیفیت ،و سیع طبیعی منظر (landscape) بھی ہے۔ سَیر بین کے معنی ہیں نظارہ دیکھنے والا یا مشاہدہ کرنے والا۔ منظر یا کیفیت کے مفہوم میں میر انیس نے اپنی ایک مشہور رباعی میں سیر کا لفظ استعمال کیا ہے، کہتے ہیں :

گلشن میں پھروں کہ سَیر ِ صحرا دیکھوں

یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں

ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے

حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

یہاں سیرِ صحرا سے مراد صحرا کا منظر یا کیفیت ہی ہے۔ سَیر کے ایک معنی کتاب کا مطالعہ بھی ہیں۔ لہٰذا کتاب کی سیر کرنا کتاب پڑھنا کے مفہوم میں ہے۔

مختصراً یہ کہ سیر، سَیر اور سِیَر تینوں الگ لفظ ہیں۔ ان کے استعمال اور تلفظ میں احتیاط ضروری ہے۔