وہ غُصے میں جلی بُھنی بیٹھی تھی۔
اِدھر اُس نے چٹخنی کھولی، میں نے گھر کے اندر قدم رکھا، اُدھر وہ مجھ پر برس بڑی۔
بچیاں جو مجھے دیکھ کر کھِل اُٹھی تھیں اور میری جانب لپکنا ہی چاہتی تھیں، اِس متوقع حملے میں عدم مداخلت کے خیال سے، جہاں تھیں وہیں ٹھہری رہیں۔
’’اِس سے بہتر تھا ہم اُسی دور افتادہ مَقام پر پڑے رہتے کم از کم آپ شام کو تو وقت پر گھر پلٹ آیا کرتے تھے۔‘‘
بچیاں مسکراتی رہیں، وہ پیچ و تاب کھاتی رہی اور میں اپنے حق میں وہ دلیل جو مسلسل کئی روز سے دہرا چکا تھا، ایک مرتبہ پھر دہرانے سے ہچکچا رہا تھا۔
جس وقت مجھے مری میں تعینات کیا گیا تھا وہ بہت خُوش تھی۔ اُسے ہنی مون والے دن یاد آرہے تھے جن کے سحر سے وہ ابھی تک نہ نکلی تھی: وہی گہرے بادلوں کا زمین پر اُترنا، ٹھنڈی ہوائوں کا بَد ن چوم کر گزرنا، گیلی سڑک پر پھسل کر گرنا، چوٹ لگنا اور چوٹ سہلانے کے لیے ہیئر ڈرائر کا اِستعمال کرنا، محض ایک گرم بالٹی پانی کا ملنا، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مال روڈپر چہل قدمی کرنا، پہروں لینٹاٹ ریسٹوریٹ میں یا پھر پوسٹ آفس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر، آتے جاتے لوگوں کا نظارہ بھی وہ نہ بھول پائی تھی۔
مگر اب اکتاہٹ اُس کے بَد ن کے خلیے خلیے میں اتر رہی تھی۔ میں جانتا تھا ایسا کیوں ہے۔ مگر میں کیا کرتا؟ سیزن ختم ہونے کو تھا لیکن لوگ تھے جو پھر بھی جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ دفتر سرکاری مہمانوں سے بھرا رہتا تو گھر دوستوں اور عزیزو اقارب سے… جو بھی آتا اس خواہش کے ساتھ آتا کہ ایک تو اس کے قیام و طعام کا بندوبست کیا جائے گا اور دوسرا اسے گھمانے پھرانے لے جایا جائے گا اور یوں، نہ چاہتے ہوے بھی، میں گھر وقت پر نہ پلٹ سکتا تھا۔
وہ بے چاری صبح صبح مہمانوں کے بستر سنبھالتی، صفائیاں کرتی، پانی گرم کر کے باتھ روم میں رَکھتی، ناشتہ تیار کرتی، دن بھر کبھی کھانا پکاتی، دستر خوان پر سجاتی تو کبھی چائے اور سموسوں سے مہمانوں کی تواضع کرتی، اُن کے بچوں کے منھ صاف کرتی، اَپنی بچیوں کو سمجھاتی بجھاتی، مہمانوں کے جھوٹے برتن دھوتی۔ پھر جب شام کے دراز سائے، چھتنار درختوں سے اُتر کر رات کے روپ میں ڈھلنا شروع ہو جاتے تو وہ بستر بچھا دیتی اور مہمانوں کی واپسی کا بیٹھے بیٹھے انتظار کرتی کہ وہ سیر سے پلٹیں تو اُسے بھی کمر سیدھی کرنے کو موقع ملے… ایسے میں اُس کی اکتاہٹ اور چڑچڑا پن بجا تھا۔
اسے ہول آرہے تھے کہ ہوائوں میں یخ بستگی بڑھ گئی تھی اور یہ سن سن کر کہ یہاں کی برفانی سردیاں تو ناقابل برداشت حد تک سرد ہوتی ہیں، بہت زیادہ متفکر تھی:
’’دیکھے ہیں لحاف آپ نے، جگہ جگہ سے روشن دان بن گئے ہیں…اوڑھو نہ اوڑھو ایک برابر… دسمبر ہے کہ بھاگا چلا آرہا ہے… اِن کا کچھ کرو جی ، ان کا…‘‘
اُن دنوں مری میں بنے بنائے لحاف نہیں ملتے تھے اور نہ ہی دھنیایا ایسا فرد ملتا جو ان کو ادھیڑ کر روئی نکالتا اسے دھنکتا اور پھر لحاف بھر کر سی دیتا۔ پھر ہمارے پاس اتنے لحاف بھی نہ تھے جو اپنے اور مہمانوں کے لیے انہیں اِستعمال کرتے اور یہ میں اس مقصد کے لیے پنڈی دے آتا۔
’’لکڑیوں کا بندوبست کرو جی… خشک لکڑیاں نہ ہوں گی تو ان ننھی جانوں کو سردی سے کیسے بچاؤ گے؟… دیکھو ساتھ والوں نے لوہے کی انگیٹھی بنوائی ہے، بارہ سو میں۔ اس کے اوپر پائپ لگوا کر روشن دان سے ایک سرا باہر نکال دیا ہے کہ دھواں کمرے میں نہ بھر جائے۔ میرے مانو تو ویسی ہی بنوالو کہ برفیلی راتوں میں لکڑیاں نہیں جلائیں گے تو کمرا گرم نہیں ہوگا…‘‘
وہ ٹھیک کہتی تھی… مگر بارہ سو روپے!… مہمانوں نے بجٹ اس قدر متاثر کر دیا تھا کہ انگیٹھی بنوانے کی تجویز کو میں نے سنا اَن سنا کر دیا۔ رات ایسی بے شمار تجاویز کے ساتھ شروع ہوتی تھی۔ وہ بولتے بولتے تھک جاتی اور میں’’ہاں ہوں‘‘ کرتا رہتا۔ وہ غصے سے پہلو بَد ل کر سو جاتی اور… پھر نہ جانے کب مجھے نیند آتی تو صبح ہونے تک رات کی ساری تجاویز اور باتیں بھول چکا ہوتا۔
ابھی پو نہ پھٹی ہوتی کہ میری آنکھ چڑیوں کی چہکار سے کھلتی۔ میں نے ایسی چڑیا میدانی علاقے میں نہ دیکھی تھی، لمبوترا بَد ن، دل کش رنگت، سر پر سیاہ کلغی، گردن گانی سے مزین، لمبی دُم، مٹکتی آنکھیں… میری آنکھ کھلتی تو وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ میرے بستر پر ہی پھدک رہی ہوتی۔
یقینا انہیں بھوک لگی ہو گی… راتیں بھی تو لمبی ہو رہی ہیں۔
میں سوچتا اور اٹھ کر کچن سے ان کے لیے چوگا تیار کر کے کمرے میں ہی ایک طرف رکھ چھوڑتا۔ کچن کا ایک دروازہ صحن میں کھلتا تھا اور دوسرا اسی سونے والے کمرے میں… اور میری بیگم اس پر گھر بنانے والے کو داد دیتی کہ یوں وہ کچن میں رہتے ہوے بھی بچیوں اور گاہے گاہے مجھ پر نظر رکھ سکتی تھی۔
کچن کے دونوں دروازوں والی دیواریں جہاں چھت سے جا ملتیں، بالکل وہیں اس چڑیا نے ایک گھونسلا بنا رکھا تھا۔ ادھر میدانی علاقوں میں، میں نے ایسا گھونسلا بھی نہیں دیکھا تھا۔ گندھی ہوئی مٹی، جو چڑیا اَپنی چونچ میں بھر کر لاتی رہی تھی، اس کے چھوٹے چھوٹے دانوں کو ایک ترتیب سے باہم چپکا کر، اس نے ایک مضبوط سا گھر چھت اور دیواروں کے سنگم پر بنا لیا تھا۔
ابھی صبح صادق کا وقت ہوتا اور ثوبیہ دونوں بچیوں کو بازوئوں میں سمیٹے خواب کے مزے لے رہی ہوتی کہ چڑیااپنے ننھے منے بچوں کے ساتھ چوںچوں کرتے ہوے میرے سرہانے آبیٹھتی۔ میں مسکرا کر آنکھیں کھول دیتا۔ یوں یہ چڑیا میری محسن بھی تھی کہ جب سے میں اس گھر میں آیا تھا میری فجر کی ایک بھی نماز قضا نہ ہوئی تھی۔ ایک دن بھی میں نے سیر کا ناغہ نہ کیا تھا۔ فجر کی نماز اور صبح کی سیر اور وہ بھی مری جیسے پر فضا مقام پر، یہ وہ دو عوامل تھے کہ جن کے لیے میں اَپنی حیات کے عناصر منتشر ہونے تک مری میں رہ سکتا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ پتوں نے رنگ بَد لنے شروع کر دئیے: قرمزی، جامنی کلیجی، پیلے، سرخ… غرض عجب عجب رنگ تھے جو ان پر آرہے تھے۔ جب یہی رنگ شاخوں سے ٹوٹ کر قدموں تلے چر مر کرنے اور یخ بستہ ہوائوں کے سنگ اِدھر اُدھر ڈولنے لگے تو مہمانوں کی آمد میں بھی وقفے پڑنے شرو ع ہو گئے۔
اگرچہ اب وہ میرے ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے نکل سکتی تھی۔ مال پر شاپنگ کر سکتی تھی۔ میری مصروفیات بھی کم ہو گئی تھیں اور میں اس کے لیے وقت نکال سکتا تھا۔ لہٰذا مزاجوں سے چڑچڑاپن نکل رہا تھا اور زِندگی معمول پر آرہی تھی۔ مگر برا یہ ہوا کہ دونوں بچیاں یکے بعد دیگرے بیمار پڑ گئیں…
یہ اُس وقت ہوا، جب پہلی برف پڑ چکی تھی۔برف پڑنے کا عمل بچیوں کے لیے بالکل نیا تھا۔ خود میں بھی مسحور ہو رہا تھا۔ ثوبیہ کی خُوِشی تو دیدنی تھی۔ وہ بچیوں کے ساتھ برف پر دوڑتی، ہنستی، ان کے پھسل پھسل کر گرنے پر قہقہے لگاتی ہوئی خود پھسلتی اور چیخیں مارتی۔ وہ اس قدر خُوِش تھی کہ خُوِشی اس کے سارے بَد ن سے چھلک رہی تھی۔ ہنستے ہنستے آنکھوں سے آنسو امنڈ آتے، بَد ن ہلکورے کھانے لگتا اور سرخ ناک رگڑ رگڑ کر مزید سرخ کر لیتی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا ،مری کا حسن ثوبیہ کے حسن کی آمیزش سے مکمل ہو گیا تھا… مگر برا ہویخ بستہ ہوائوں کا کہ دونوں بچیاں یکے بعد دیگرے بیمار پڑ گئیں۔
اس سے پہلے کہ ثوبیہ پر پھر چڑچڑے پن کا دورہ پڑتا، میں لوہے کی انگیٹھی بنوا لایا۔ لکڑیوں کا بندوبست کیا، لحاف پنڈی سے بھروا لایا۔ مگر کمرا تھا کہ رات کے کسی پہر پھر بھی گرم ہونے کانام نہ لیتا تھا۔ بچیاں شروع ہی سے علیحدہ بستر پر سونے کی عادی تھیں مگر اب وہ بھی ہمارے بستر میں گھس آتی تھیں اور یوں ہم پہلو بہ پہلو ایک دوسرے سے لپٹ کر سو جاتے اور رات بھر پہلو بَد لنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا کہ پہلو بَد لنے سے یوں لگتا، جیسے برف کے یخ بستر پر ننگا بَد ن دھر دیا ہو۔
یہ وہ دن تھے جب کئی کئی فٹ برف پڑ چکی تھی۔ شاخساروں سے پتے ٹوٹ کر کب کے برف تلے دب چکے تھے۔ حدِ نظر تک دودھ جیسی سفیدی تھی؛ مکانوں کی ڈھلوان چھتوں پر، آنگنوں میں، پتھروں اور گھاس پر، درختوں کی ننگی شاخوں پر… سارا منظر یوں لگتا تھا جیسے مر مر میں تراشا گیا ہو… ایسے میں مجھے اس چڑیا اور اس کے بچوں پر رحم آرہا تھا جو مجھے اپنے گیتوں سے ہر سحر اسی طرح جگاتی آرہی تھی۔ حالاں کہ اس ٹھٹھرے ہوے ماحول سے ان کے ساتھ بھرا مار کر اڑنے والے سبھی پرندے ہجرت کر گئے تھے۔
بچیاں سارا سارا دِن کمرے کے اندر گھسے رہنے پر مجبور ہو گئیں۔ ثوبیہ انگیٹھی میں لکڑیاں ٹکڑے کر کے گھسیڑتی رہتی، پھکنی سے آگ دہکاتی اور بچیوں کو کھینچ کھینچ کر آگ کے پاس بٹھاتی رہتی۔ اگرچہ دھواں پائپ کے ذریعے باہر پھینکنے کا بندوبست تھا مگر پھر بھی کمرے میں دھواں بھر جاتا اور اسے نکالنے کے لیے وہ دروازے کھول دیتی۔ ادھر کمرے سے دھواں نکلتا، ٹھنڈی مرطوب ہوائیں اندر آگھستیں۔ پھر انگیٹھی دہکتی اور کمرا گرم کیا جاتا۔
پھر یوں ہوا کہ مصروفیات کے اسی سلسلے میں سے ایک کالی صبح طلوع ہوگئی…وہی کہ جسے میں ابھی تک بھلا نہیں سکا۔
مجھے مری چھوڑ دینا پڑی۔ نہ چھوڑتا تو راتوں کو یوں ہی ہڑبڑا کر اٹھتا رہتا، سانس گھٹتی رہتی، وہ خواب مسلسل دیکھتا رہتا کہ مری نے برف کا سفید کفن لپیٹ رکھا ہے اور اس کفن میں ثوبیہ بچیوں کو بازوؤں میں لپیٹے سو رہی ہے… یہ تھا وہ خواب جو اس کالی صبح کے بعدآنے والی کئی راتوں کو میں نے مسلسل دیکھا تھا۔ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا تھا اور سانسیں گھٹتی ہوئی محسوس کرتا تھا… اور پھر… اس سے چھٹکارپانے کے لیے مری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اس کالی صبح کو میں حسب معمول بہت پہلے جاگ چکا تھا۔ چڑیا اپنے بچوں کے ساتھ چوگا چگ کر اپنے گھونسلے میں جا چکی تھی اور مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ ثوبیہ کیوں نہیں اٹھ رہی؟ جب بچیاں بھی اٹھ گئیں اور ننھّی مُنّی ناکوں کو رگڑ رگڑ کر انہیں سرخ تر کرنے لگیں تو ثوبیہ نے پہلو بَد لااور کہنے لگی:’’میرا بَد ن ٹوٹ رہا ہے…‘‘
میں نے تشویش سے اسے چھوا، جسم بخار میں تپ رہا تھا…
’’تمہیں تو بخار ہے…‘‘
وہ اٹھ کھڑی ہوئی، کپڑے دُرُست کئے، دوپٹے سے ناک کو رگڑتے ہوے شوں شڑاک کی آواز نکالی اور کہنے لگی:’’بس معمولی سا ہے، اللہ کرے بچیاں ٹھیک ہو جائیں‘‘
جب میں ناشتہ کر چکا اور دفتر جانے کے لیے باہر نکل کھڑا ہوا تو وہ دوڑتے دوڑتے میرے پیچھے آئی، میں رکا، پلٹ کر پوچھا:’’خیریت تو ہے نا؟‘‘
کہنے لگی:’’وہ کچن کے صحن والا دروازہ ہے نا، اس کے اوپر والے روشندان کا ایک شیشہ جب سے ہم آئے ہیں، ٹوٹا ہوا ہے۔ پہلے تو خیریت رہی مگر اب رات بھر ایسی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں کہ کمرا ٹھنڈا ٹھار ہو جاتا ہے۔ آج ہو سکے تو وہاں شیشہ لگوا دیں…‘‘
میں نے اس کی جانب دیکھا: بخار سے اس کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔
’’کیوں نہیں، کیوں نہیں! شیشہ آج ہی لگ جائے گا…‘‘
میں نے اُس کے چہرے کو انگلی کی پوروں سے چھوتے ہوے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ اگلی صبح مری کی وہ پہلی صبح تھی جب میں فجر کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکا تھا۔ پھر جب میں ہڑبڑا کر اٹھا تو صبح کا اجالا کمرے کے اندر کونے کھدروں تک گھس آیا تھا۔ میں جلدی سے بستر سے نیچے اترا۔ ثوبیہ بچیوں کو بازوؤں میں لیے ویسے ہی سوئی ہوئی تھی۔ اِدھر اُدھر دیکھا چڑیا اور اس کے بچے نظر نہ آرہے تھے۔
’’خدا کرے سب ٹھیک ہو‘‘
میں بڑبڑاتا لپک کر کچن تک گیا۔ گھونسلے سے بھی کوئی آواز نہ آرہی تھی۔دفعتاً نگاہ اس روشن دان پر پڑی جس میں کل ہی نیا شیشہ لگوایا گیا تھا۔ اس پر باہر کی جانب برف کے گالے جمے ہوے تھے۔ دل زور زور سے دھڑک اٹھا کچن کا دروازہ کھول کر جَھٹ باہر نکلا۔مری سفید دوشالہ اوڑھے لیٹی ہوئی تھی۔ نظریں پھسلتے پھسلتے کچن کی دہلیز کے پاس ابھری ہوئی سطح پر ٹھہر گئیں۔ میں وہیں دوزانوں بیٹھ گیا اور انگلیوں سے برف کی ڈھیری کھرچنے لگا … اور جب میں برف کھرچ چکا تو مجھے لگا: مری نے دوشالہ نہیں سفید کفن لپیٹ رکھا تھا، اسی کفن میں چڑیا کے پر کھلے ہوے تھے اور دو ننھے منے بچے اس کے پروں تلے دبے کب کے اَپنی ماں کی طرح زِندگی کی سانسیں ہار چکے تھے۔
میرا سر گھومنے لگا۔ وہی انگلی کہ جس سے اگلی صبح میں نے ثوبیہ کے تپتے چہرے کو چھوا تھا اور جس سے ابھی ابھی برف تلے سے تین بے جان لاشوں کو برآمد کیا تھا، میرے چھاتی میں گھسی چلی جاتی تھی… اندر بہت ہی اندر… میں تیزی سی کمرے میں بھاگا۔ ثوبیہ اسی طرح بچیوں کو بازوئوں میں لیے سو رہی تھی …اور… جب میں اسے دیوانہ وار زور زور سے جھنجھوڑ رہا تھا تو میری آنکھیں ابل پڑی تھیں اور حلق ہچکیوں سے بھر گیا تھا۔