روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن انڈیا کے 25 کروڑ مسلمان انڈیا کی کُل آبادی کاتقریباً 15 فیصد ہیں، انڈین اتھارٹیز بڑے مظالم کے ساتھ اس آبادی کو کرش کرنے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ دنوں اپنی رپورٹ میں واضح الفاظ میں کہا کہ جس طرح مسلمانوں کا انڈیا میں قتل عام ہو رہا ہے، ان کے گھروں کو آگ لگائی جارہی ہے وہ صریحاً عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، تین رکنی عالمی قوانین کے ماہرین نے انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والا مظالم پر ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے جس میں بہت سے ایسے شواہد کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں آسام، دہلی، جموں کشمیر اور اترپردیش میں ہونے والے مسلم مخالف واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں بلااشتعال انسانیت سوز تشدد کے واقعات رونما ہوئے، ایمنسٹی نے سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی دہلی، اترکھنڈ، جاٹس گڑھ میں نفرت بھری تقاریر کو شہادت کے طور پر پیش کیا ہے جس میں اشتعال کے بعد وہاں مسلمانوں کے قتل عام، عورتوں سے جنسی ذیادتی اور نسل کشی کی عام ترغیب دی گئی جس پر تمام ریاسی ادارے خاموش اور کسی قسم کی کارروائی سے گریزاں نظر آتے ہیں، اس معاملے پر جب محققین نے انڈیا کے ایسے بااختیار افراد سے رابطہ کیا اور انٹرویو کئے گئے توانہوں نے اس سارے معاملے کا علیحدہ سے دوسرا رخ پیش کیا، انہوں نے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کے علاوہ تین سے چار لاکھ پارسی رہتے ہیں جو خود کو کبھی اقلیت نہیں کہتے، اسی طرح سکھ، جین اور مسیحی بھی اپنے آپ کو اقلیت نہیں کہتے، ان کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ان سیاسی اور مذہبی رہنمائوں نے نفرت پھیلائی ہے، مسلمان کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی صدیوں تک انڈیا پر راج کیا، بہادر شاہ کے بعد انگریز آگیا پھر اتنی غریبی کیوں، رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں تعلیم میں مسلمان سب سے نیچے ہیں، ان بااختیار لوگوں کا یہ بھی کہنا ہےکہ سرکار کی جانب سے مسلمانوں کے بڑھاوے کے لئے اربوں روپے مختص بھی کئے گئے اور تقسیم بھی ہوئے لیکن سب بد عنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں، مسلمان انڈیا میں عموماً تعلیم اور دیگر شعبوں میں تعلیم، ترقی کی مراعات کی بجائے مذہبی اور حج اور مساجد کے لئے مراعات مانگتے ہیں، سڑکیں بند کرکے نمازیں ادا کرتےہیں، اگر اتھارٹیز روکتی ہیں تو مذہبی آزادی کی نعرےبازی شروع کر دیتے ہیں، مذہبی رہنمائوں نے انہیں مذہب میں الجھا کر آخرت کی تیاری پر لگا دیا ہے، انڈیا کا ایکو نظام ہے اور وہ تعلیم پر انحصار کرتا ہے، اس لئے آج انڈیا دنیا کا مقابلہ کر رہا ہے، سوسائٹی میں تعلیم و ترقی کا مقابلہ رہتا ہے، اس لئے انڈیا میں جو نہیں پڑھے گا وہ پیچھےرہ جائے گا، انڈیا کے انہی بااختیار لوگوں اور پالیسی سازوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمان سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ برا ہو رہا ہے حالانکہ مسلمان عورت حجاب وغیرہ کا ہر جگہ استعمال کرتی ہے اور اسے مذہب کے ساتھ جوڑتی ہے لیکن کسی کلچرل چیزکوسرکاری پالیسی کا حصہ بنوانے کا دبائو ڈالنا غلط ہوگا، انہوں نے کہا کہ ہریانہ میں سوا چار ہزار مساجد ہیں لیکن نمازی سڑکوں کو بلاک کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، ان ہی بااختیار لوگوں کی پالیسی سازی میں مسلمانوں کے بارے میں یہ نقطہ نظر ہے کہ مدرسے فالتو کی چیزیں ہیں، جہاں مسلمان کو سائنس سے دور کیا جاتا ہے جب کہ مسلمانوں کو سائنس پڑھنی چاہئے،ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا آٹھ سو یا کئی صدیوں پر محیط ہندوستان پر جب راج ختم ہوا تو یہ دو قومی نظریہ لے آئے جس کا مطلب واضح طور پر یہی بیان کیا گیا کہ ہندو کھا جائے گا، اس لئے ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے، انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ایسا ضرور کہا جاتا ہے کہ تم لوگ پاکستان چلے جائو لیکن ایسا ہر جگہ نہیں ہے، ہندوئوں میں بھی غلط عناصرہوتے ہیں جس طرح مسلمانوں میں ہوتے ہیں لیکن مسلمان بہت امیربھی ہیں۔بالی ووڈ میں کئی چوٹی کے فنکار مسلمان ہیں، انڈیا کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کو گھر نہیں ملتے نہ خریدنے کے لئے اور نہ ہی کرائے پر، اس میں گوشت خوری اور ویجیٹرین کا مسئلہ ہے، کھانوں کی بو کا مسئلہ ہے، یہ ایسے مسائل ہیں جن پر میں نے آپ کو میڈیا پر آنے والے مسلمانوں کے نقطہ نظر اور انڈین پالیسی سازوں کے دماغوں میں مسلمانوں کے متعلق مائنڈ سیٹ کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا ہے۔ تاکہ ہم اس پر بحث کرکے دونوں اطراف سے کسی بھی پراپیگنڈے کا شکار ہونے کی بجائے اصل صورتحال کو سمجھ سکیں۔