• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل سنانے کا اعلان کیا ہے۔

ای سی پی کے اعلامیہ کے مطابق پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل صبح 10 بجے سنایا جائے گا۔

الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے کاز لسٹ جاری کردی ہے۔

پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کا کیس 8 سال تک زیر سماعت رہا، جس کا فیصلہ 21 جون کو محفوظ کیا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014ء میں الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کا کیس دائر کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے 8 سالہ طویل سماعت کے دوران 30 مرتبہ التوا مانگا اور 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کی درخواستیں دائر کیں۔

کیس میں پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے، دوران سماعت الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے2018ء میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، جس کے 95 اجلاس ہوئے، 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا۔

پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں جبکہ اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔

الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ نامکمل قرار دے کر مسترد کردی تھی، جس کے بعد حتمی رپورٹ جنوری 2022ء میں جمع کرائی گئی۔

الیکشن کمیشن کی قائم کردہ اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل کردہ 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی گئی، انہیں یورپی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے بھی فنڈز موصول ہوئے۔

اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر نا واضح جواب آیا اور نا ہی پارٹی نے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی دی۔

رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیے جبکہ اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں جبکہ انہوں نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے۔

پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا کہ اسد قیصر، شاہ فرمان، عمران اسماعیل، محمود الرشید، احد رشید، ثمر علی خان، سیما ضیاء، نجیب ہارون، جہانگیر رحمان، خالد مسعود، مرحوم نعیم الحق اور ظفر اللّٰہ خٹک کے نام پر غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔

قومی خبریں سے مزید