• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
برطانیہ میں راچڈیل کونسل کے ڈپٹی لیڈر کونسلر دالت علی ،اولڈہم سے کشمیری دانشور شمس رحمان اور چند دیگر کا کشمیری شناخت اور پہاڑی زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار رہا ہے اسی طرح لوٹن میں رہائش پذیر ظفر خان، وولورہمپٹن میں مقیم بیرسٹر آصف خان، کا کشمیری شناخت اور پہچان کے حوالے سے رول ہے۔ان کے مسئلہ کشمیر پر نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر کسی بھی غلام قوم کو اپنی آزادی کی تحریک کے لیے جو اجزاء لازمی ہوتے ہیں ان میں اپنی پہچان کا ادراک کرانا اور زبانوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ سو اس باب میں ان احباب اور متعدد دیگر کی کاوشیں لائق تحسین ہیں ۔ آج کل برطانوی کشمیری شناخت مہم کی قیادت سردار آفتاب احمد خان اور کونسلر ذوالفقار علی کر رہے ہیں۔ اسی طرح اکیڈمک سطح پر ڈاکٹر سرینا حسین کا نام بھی نمایاں ہے ۔برمنگھم سے ڈاکٹر کرامت اقبال بھی ایک معتبر حوالہ ہیں جو اپنے انداز میں اس طرح کے تحقیقی کاموں کو آگے پھیلانے کا کام کر رہے ہیں ۔ ایک تازہ کاوش میں ڈاکٹر کرامت اقبال نے بتایا ہے کہ 1991سے برطانوی اسکول نسلی بنیادوں پر ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ کتنے بچے کس نسلی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہ کہ یہ بچے کون سی زبان یا بولی بولتے تھے۔ ان میں صرف وہ بچے شامل نہیں ہیں جن کی پیدائش جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے میں ہوئی ہے۔ ان کی نسل اور زبان دونوں کو بالترتیب پاکستانی اور اردو کے طور پرغلط درج کیا گیا ہے حالانکہ یہ بچے پہاڑی بولنے والے تھے اور ان کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا جو پاکستان کے زیر انتظام خطہ ہے ۔ انہوں نے متعدد محققین کی ریسرچر کے حوالے دیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، انگریزی اسکولوں میں 374,031 یا 4.5 فیصد (غیر سفید فام نسلی گروہوں میں سب سے بڑا) بچے جو ہیں وہ پاکستان نژاد ہیں لیکن اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس تعداد میں سے 70فیصد کشمیری ہیں ۔ انہوں نے پیغام دیا ہے کہ 2021کی مردم شماری نے ’’ایشیائی کشمیری‘‘ کیٹیگری بنائی ہے اور تعلیمی نظام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نئی پیش رفت سے باخبر رہے۔ انہوں نے کشمیری کمیونٹی (اور اس کی زبان) کی غلط درجہ بندی کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ غلط درجہ بندی کا مسئلہ اس حقیقت سے بڑھ گیا ہے کہ تمام آزاد کشمیریوں نے پاکستانی پاسپورٹ پر برطانیہ کا سفر کیا اور جب اسکولوں اور دیگر حکام سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ پاکستانی ہیں اور اپنی مادری زبان کو اردو قرار دیتے ہیں۔ کچھ برطانوی کشمیری والدین اور ان کے بچے اب بھی اس طرح کا جواب دیتے ہیں، جس سے الجھن میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خیال رہے کہ برطانیہ میں پہاڑی بولنے والوں کو اردو بولنے والے سمجھنے سے کمیونٹی کی بنیاد پر دی جانے والی مختلف سروسز سے آزاد کشمیر کے باشندے بہت حد تک محروم رہ گئے اور بعض کشمیری محققین کی رائے میں برطانیہ میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ڈاکٹر کرامت کے بقول سالوں کے دوران، ماہرین تعلیم اور محققین نے پہاڑی بولنے والے بچوں کے ساتھ کام کرتے وقت کمیونٹی اور ان کی زبان کے لیے درست زمرے استعمال کیے ہیں ۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں آمد کے وقت کشمیریوں کی پہلی نسل نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ انہیں کس طرح درجہ بندی کیا گیا ہے تاہم، جیسے ہی وہ یہاں آباد ہوتے گئے انہوں نے اس متعلق خیال رکھنا شروع کیا۔ 1970 کے آس پاس سے، کمیونٹی نے اپنی شناخت اور اپنی زبان کو تسلیم کرنے کے لیے مہم چلائی ہے۔ کمیونٹی کے متعدد محققین اور مصنفین نے بھی پہچان کے لیے کوشش کی ہےخاص طور پر نوجوان محققین نے اس متعلق خاصی پیش رفت کی ہے۔ ان محققین میں ڈاکٹر سرینا حسین اور ڈاکٹر فرح نذیر شامل ہیں ۔ ایک محقق نے تعلیمی حصول کے مضمرات پر توجہ مرکوز کی اور ایک اور نے زبان کی پہچان کے لیے ایک کیس بنایا، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ʼپہاڑی برطانیہ میں انگریزی کے بعد دوسری سب سے زیادہ عام مادری زبان ہےʼ۔ اس دوران الجھن جاری ہے کہ زبان کے لیے کون سا لیبل استعمال کیا جائے۔ ایک اور تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس ابہام کے بارے میں لکھا: ‘کیا یہ میرپوری ہے؟ پنجابی کی ایک بولی؟ پہاڑی؟ یا پوٹھواری؟ ۔حالیہ مردم شماری پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کشمیری کمیونٹی کی کوششیں رنگ لانے کے قریب ہیں۔ ہمیں مستقبل قریب میں ان اعدادوشمار کا انتظار ہے جس سے ہمیں اپنے شہریوں کی تعداد کا کچھ اندازہ ہو جائے گا جن کی اصلیت آزاد کشمیر سے ہے اور جن کی زبان پہاڑی ہے۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ برطانیہ کا محکمہ تعلیم حالیہ مردم شماری سے نئے ’’ایشیائی۔ کشمیری‘‘ زمرے کا استعمال کرتے ہوئے اسکولوں کے اعداد و شمار کو اکٹھا کرنے میں سہولت فراہم کرے اور پہاڑی کو کمیونٹی کی زبان کے لیبل کے طور پر استعمال کرے (اس وقت استعمال ہونے والے غلط لیبلوں کی بجائے جیسے اردو، میرپوری یا پنجابی)۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر کرامت اقبال گزشتہ 40 سال سے برطانیہ میں ایکوالٹی اور تعلیم کے لیے کام کر رہے ہیں اس میں مقامی اتھارٹی کے اسکولوں کے مشیر اور محکمہ برائے تعلیم سمیت مختلف سرکاری محکموں کے مشیر کے طور پر کام شامل ہے۔ پسماندہ نوجوانوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ان کا دیرینہ عزم رہا ہے۔ ان کی ایک رپورٹ کو سفید فام محنت کش طبقے کے بچوں کی تعلیم کی بحث کے لیے مرکزی متن کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ۔ان کی حالیہ مشاورتی اسائنمنٹس میں نیشنل سوسائٹی آف دی چرچ آف انگلینڈ اور لارنس شیرف ٹیچنگ سکول کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ کرامت اکیڈمی ٹرسٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹائمز ایجوکیشنل سپلیمنٹ سمیت متعدد اشاعتوں کے لیے لکھا ہے۔
یورپ سے سے مزید