• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضرورت سے زیادہ فلسفہ بگھارنابنتی چیز بھی بگاڑ دیتا ہے ۔ توقیر بھملہ نے عربی کی ایک حکایت ترجمہ کی ہے کہ صدیوں قبل ایک ریاست کے بادشاہ نے تین افراد کو سزائے موت کا حکم دیا، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا ، جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسی سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا۔

رسی کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھر زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا ۔ ان میں سے ایک عالم دوسرا ،وکیل جب کہ تیسرا فلسفی تھا۔ ہوا یہ کہ جب عالم سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی توعالم نے جواب دیا کہ زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے وہی زندگی اور موت عطا کرتا ہے۔ عالم کا پختہ یقین دیکھ کر سب دم بخود ہو گئے ،پتھر کو کھولا گیا وہ پوری قوت سے نیچے کی طرف آیا مگر عالم کے سر کے پاس آ کر رُک گیا، سب حیران رہ گئے کہ عالم کے یقین نے اس کو بچالیا، عالم کو رہا کردیا گیا ۔اس کے بعد وکیل کو سزائے موت دینے کی باری آئی، اس کو سزائے موت والی جگہ پر لٹا کر اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا کہ وہ ہمیشہ حق اور سچ کے ساتھ رہا ہے اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ رَسے کو دوبارہ کھولا گیا، پتھر پوری رفتار سے وکیل کی جانب بڑھا مگر اس کے سر کے پاس آ کر رُک گیا ۔ سب نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں، وکیل کو بھی رہا کر دیا گیا کہ یہ بھی خدائے تبارک تعالیٰ کے انصاف کے باعث بچ گیا۔ سزائے موت کا تیسرا منتظر قیدی فلسفی تھا ،وہ یہ سب بہت غور سے دیکھ رہا تھا جب اس کو لٹا کر اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے فلسفہ بگھارنا شروع کر دیا کہ نہ تو عالم کو خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف پر پختہ یقین نے بلکہ رسے پر ایک جگہ گرہ ہے جس کے باعث پتھر رُک جاتا ہے۔ سب نے رسی کو بغور دیکھنا شروع کیا تو ان کو بھی وہ گرہ نظر آگئی چناں چہ گرہ کو کھول کر رَسی کو درست کر دیا گیا اورپتھر فلسفی کی جانب لڑھکا دیا گیا ۔

پتھر پوری رفتار اور قوت سے فلسفی کی جانب آیا اور وہ چند ہی لمحوں میں موت کے منہ میں چلا گیا۔ ضرورت سے زیادہ فلسفہ یا علم بگھارنا بسا اوقات غیر معمولی نقصان کا باعث بن جاتا ہے ۔وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل اپنی وزارت کے بعد مختلف ٹیلی ویژن پروگراموں میں آئے اور اپنی معاشی پالیسیوں کے حق میں عوام کو سمجھانے کی بجائے فلسفہ بگھارنا شروع کر دیاکہ میں بھی معیشت کو جانتا ہوں ۔ ماضی کی حکومتوں کے وزرا بھی ڈگریاں رکھتے تھے مگر ناکام ہو گئے، اس لئے صرف یہ کہنا کہ میں اکنامکس جانتا ہوں، عوام کے اطمینان کے لئے کافی نہیں، وہ تو اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔ پیٹرول کی قیمتوں میں حال ہی میں دوبارہ اضافہ کیا گیا تو عوام ششدر رہ گئے کیوں کہ اس سے قبل وہ روز یہ دیکھ رہے تھے کہ وہ ڈالر جو کم و بیش ڈھائی سو روپے کو چھو رہا تھا نیچے جانا شروع ہوگیا تھا جب کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے گرنے کی خبریں بھی سماجی میڈیا کی بدولت سب کے سامنے ہیں ۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ عوام قوانین کے گنجلکوں اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں نہیں الجھتے ۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جب پیٹرول کی قیمت کم ہو رہی ہے اور ڈالر کی قدر بھی تو پیٹرول جو مہنگائی میں اضافے یا اس کی قیمت میں کمی کا بنیادی سبب ہے تو اس کی قیمت بھی کم ہونی چاہئے ۔ اور عوام میں بھی یہ تاثر بہت مضبوط تھا کہ اس بار قیمت مزید کم کر دی جائے گی۔ بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھانا ناگزیر تھا تو قیمتوں میں اضافے کی یہ خبر وزارت اطلاعات اور حکومتی جماعت کا شعبہ اطلاعات و سماجی میڈیا عوام تک پہنچاتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس سے عوامی امنگوں کو ٹھیس پہنچی۔ مسلم لیگ ن ویسے بھی تنظیم کی عدم موجودگی کے سبب مسائل کا شکار ہے، علاوہ ازیں، سدا بہار ایم این اے اور ایم پی اے کے تصور نے بھی مسلم لیگ ن کو نقصان پہنچایا ہے کہ موجودہ اراکین پارلیمنٹ اور وزرا کے علاوہ اور پارٹی کارکن کو بھی پارلیمان میں نمائندگی کا موقع ملے گا، اس لئے متحرک لوگ نواز شریف کی محبت میں ووٹ تو مسلم لیگ ن کو ہی ڈالتے ہیں مگر جلسے ، جلوسوں میں متحرک نہیں ہوتے، اس لئے یہ بھی ایک غیر معمولی چیلنج مسلم لیگ ن کو درپیش ہے۔ اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ مسلم لیگ نون کے ساتھ عوام کا غیر معمولی لگائو نواز شریف کی وجہ سے ہے ۔ وہ کسی کی مخالفت میں نوازشریف کے گرد نہیں بلکہ نواز شریف کی شخصیت کی وجہ سے ان پر فدا ہیں۔ پھر شہباز شریف کا ایک اعلی منتظم ہونے کا تصورایک سکہ بند حقیقت کے طور پر عوام کے دلوں میں راسخ ہے اور اس سب کا منطقی نتیجہ وہ معاشی معاملات میں بہتری سمجھتے ہیں جس کے عوام منتظر ہیں ۔ میں مفتاح اسماعیل کی قابلیت سے نہ صرف واقف ہوںبلکہ اس سے انکار بھی نہیں کر رہا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی قابلیت کے ثمرات عوام تک منتقل نہیں ہوئے اور اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ خدانخواستہ بھاری پتھر غیر معمولی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔

تازہ ترین