• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برانڈ منیجر کمپنی کے اندر یا باہر برانڈ سےمتعلق رابطے کا مرکز ہوتا ہے اور مجموعی طور پر برانڈ کے امیج کو بہتر حالت میں رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اپنی ’’ٹارگٹ مارکیٹ‘‘ پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اسے غیر معمولی فیصلے بھی لینے پڑتے ہیں تاکہ وہ اپنے حریف برانڈز کو نمایاں اور سخت مقابلہ دینے کی پوزیشن میں رہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے برانڈ کا رجحان متعین کرنے یا سرفہرست رہنے کے لیے نت نئی تشہیری مہمات بھی لانچ کرتا رہتا ہے۔

ایک برانڈ منیجر اپنے برانڈکی تشہیر کرتا، اس کے صارفین تلاش کرتا اور اپنے برانڈ اور اس کے صارفین کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنےبرانڈکے صارفین کی تعداد میں اضافہ اور روٹھے ہوئے صارفین کو واپس لانے کے ساتھ یہ بھی کوشش کرتا ہے کہ موجود ہ صارفین اس کے برانڈ کو چھوڑ کر نہ جائیں۔ اس سلسلے میں وہ ’مارکیٹنگ مکس‘ کا استعمال کرتے ہوئے اہداف کو پورا کرنے میں سیلز ٹیم کو سپورٹ کرتا ہے۔

آپ کو اگرا یک اچھا برانڈ منیجر بننا ہے تو اس کے لیے آپ کو تھوڑا وقت درکار ہوگا اور تجربہ حاصل کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ آئیں جانتے ہیں کہ برانڈ منیجر کو کونسی مہارتیں حاصل کرنے اور موجودہ مہارتوں کو مہمیز دینے کی ضرورت ہے۔

تخلیقی صلاحیت

برانڈ منیجر کو حکمت عملی تیار کرنی ہوتی ہے اور اس کے لیے اس کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بھیڑ چا ل کاشکار ہوجائے اور لکیر کا فقیر بن کر وہی کرنا شروع کردے جو دوسرے برانڈ منیجر کررہے ہوں۔ نت نئی چیزیں سوچنا اور ان کو حقیقت کا روپ دینا ایک برانڈ منیجر کا اچھوتا وصف ہے۔

اس کی سوچی گئی برانڈ کیمپین یا کسی بھی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی جانب سے پیش کی گئی کیمپینز میں سے کسی ایک بہترین آپشن کی منظوری ایسی ہونی چاہئے کہ صرف اس کےحریف ہی نہیں بلکہ صارفین بھی چونک جائیں اور وہ ایڈورٹائزنگ اور برانڈز کی دنیا میں زیر موضوع آجائے۔

دور اندیشی

برانڈ منیجر دوراندیش یعنی ویژنری ہو تو وہ وقت سے پہلے ایسے اقدامات یا فیصلے کرسکتاہے جس سے معاملات کی گہرائی تک پہنچا جاسکے اور اس کے کئے گئے فیصلوں کے دور رس نتائج حاصل ہو سکیں۔ مزید یہ کہ وہ اپنے اسسٹنٹ برانڈ منیجرز سے بھرپور کام لیتے ہوئے ان میں بھی یہ صفت پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ جب مشترکہ فیصلے کی ضرورت ہوتو وہ کسی مسئلے کا عمدہ حل نکال سکیں۔

جدید تقاضوں سے ہم آہنگی

صارفین کی ترجیحات اور رجحانات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک برانڈ منیجر کو اس چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئےاپنے برانڈ امیج کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اپنے برانڈ کی تشہیر کے لیے روایتی میڈیا کے ساتھ ساتھ غیر روایتی میڈیم کو بھی استعمال کیا جائے لیکن محض برانڈ کی موجودگی کے لیے نہیں بلکہ اس میں تخلیقی پہلو ہونا چاہیے۔

وقت سے آگے

برانڈ منیجر کو صرف موجودہ ہی نہیں، مستقبل قریب میں ہونے والے واقعات یا ایونٹس کی معلومات ہونا بھی ضروری ہے، یعنی اسے’پرو-ایکٹیو‘ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر، کسی بھی میگا ایونٹ میں اپنے برانڈ کی تشہیر کے لیے تخلیقی نقطۂ نگاہ سے سوچنا ہو گا تاکہ اس کے برانڈ کی کیمپین بہت اچھی طرح ابھر کر سامنے آئے۔

پیش نظر ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں وجدانی یا تصوراتی صلاحیت بھی ہونی چاہئے تاکہ وہ آنے والے دنوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے، اپنے برانڈ کے لیے ایسے اقدامات کرے کہ ایک دنیا حیران رہ جائے۔ اس ضمن میں اسے خیالی پلاؤ پکانے کے بجائے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے پروجیکٹ کا آئیڈیا پیش کرنا ہوگا تاکہ مینجمنٹ اس کی منظوری دے اور ثابت کر دکھائے کہ وہ صرف ہوائوںمیں ہی باتیں نہیں کررہا تھا بلکہ اعداد وشما رکے مطابق برانڈ کو ہونے والے فائدے کی عملی تصویر دِکھا رہا تھا۔

مخلص ہونا

برانڈ منیجر کو اپنے برانڈ کا امیج ہمیشہ بہتر سے بہتر بنانا ہوتاہے کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ برانڈ کی خصوصیات میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے۔ برانڈ کی خصوصیات جتنی اچھی ہوںگی، وہ اتنا ہی اوپر جائے گا ورنہ وہ زوال پذیر بھی ہوسکتا ہے۔ بہت سے برانڈ منیجرز برانڈ کی ترقی و کامیابی کے بارے میں بڑے پُرجوش ہوتے ہیں اور وہ اسے دنیا کا ایک بہترین برانڈ بنانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

تاہم برانڈ منیجرز کو چرب زبان ہونے یا دروغ گوئی کرنے کے بجائے حقائق اور خلوص کے ساتھ مینجمنٹ کو برانڈ کی موجودہ پوزیشن کو بیان کرنا چاہیے، یہ سوچ کر سچ بولنے سے نہیں گھبرانا چاہیے کہ ایسا کرنے سے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑجائیں گے۔ وہ برانڈ کا امیج برقرار رکھنے یا اسے بہتر کرنے میں جو کچھ خلوصِ دل سے کرنا چاہتاہے، اسے کرنا چاہیے اور اپنے اعلیٰ افسران و مالکان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔

اسے مارکیٹنگ کےلئے مختص کردہ بجٹ میں ہی اخبارات، ٹیلی ویژن، آؤٹ ڈور ہورڈنگز، شاپ بورڈز، پوسٹرز وغیرہ، اور برانڈ ایکٹیویشن کے لیے ایسی تخلیقی کیمپینز تیار کرانی چاہئیں جو کم خرچ بالا نشین ہوں اور ان کے عمدہ نتائج بھی سامنےآئیں۔