• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دانت انسانی جسم میں سب سے سخت مادّہ ہیں ۔ یہ کھانا چبانے کے علاوہ بات کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ایک اہم عضو کے طور پر اگر دانت کو دیکھا جائے تو یہ صرف سفید ہڈی کی طرح نہیں ہے بلکہ اس میں کئی پرت یا تہہ ہوتی ہیں سب سے اوپر والی تہہ کو انیمل کہا جاتا ہے جو کہ سفید چمکدار تہہ ہوتی ہے ۔ یہ کیلشیم فاسفیٹ سے بنی ہوتی ہے جو کہ ایک پتھر جیسا سخت معدنی مرکب ہے ۔ پھر جو تہہ آتی ہے اس کو دنتین کہا جاتا ہے جو کہ دانت کے اندرونی نرم حصے کے اوپر اور انیمل کے نیچے یعنی دو تہوں کے بیچ میں موجود ہوتا ہے۔ 

دنتیں ایک سخت ٹشو یا بافت ہے، جس میں خرد بینی ٹیوبیں ہوتی ہیں اگر دانت کا انیمل خراب ہو جاتا ہے تو دنتیں ظاہر ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے دانت حساس ہو جاتا ہے اور کوئی بھی گرم یا ٹھنڈی چیز دانتوں میں محسوس ہونے لگتی ہے۔ دانت کی تیسری تہہ کو پلپ یا گودا کہا جاتا ہے جو دانتوں کی نرم زندہ اندرونی ساخت ہوتی ہے۔ اس میں خون اور اعصاب کی رگیں موجود ہوتی ہیں۔ ہر دانت اپنی جڑ کے ذریعے سے اوپر یا نیچے والے جبڑے میں پیوست ہوتا ہے اور مسوڑا یا جبڑوں کا گوشت والا حصہ ان دونوں کو ملانے اور مضبوطی دینے میں مدد دیتا ہے۔

اس کے علاوہ دانت کی جڑ کی سطح پر موجود بافتوں کی تہہ جس کو’’ سیمنٹم‘‘ کہا جاتا ہے، اس جوڑ کو مزید مضبوط بناتی ہے۔ ایک عام انسان کے منہ میں بتیس دانت ہوتے ہیں عقل داڑھ ان بتیس دانتوں کے علاوہ ہوتی ہیں۔ خوراک کو چبانے اور نگلنے کے قابل بناتے ہیں اور تقائی طور پر اگر دیکھا جائے تو تقریبا ً ستر لاکھ سال پہلے ہمارے ابتدائی آبائو اجداد کے لمبے جبڑے ہوتے تھے جن میں اوپر اور نیچے کے جبڑوں میں دو دو نوکیلے دانت واضح طور پر موجود تھے۔ 

تقریبا ً پچپن لاکھ سال پہلے یہ نوکیلے دانت چھوٹے ہونے شروع ہوئے اور پینتھیس لاکھ سال پہلے ہمارے آبائو اجدا د کے دانت قطاروں میں ترتیب میں آنا شروع ہوگئے ،جس کے نتیجے میں جبڑے کی ساخت بھی تبدیل ہونا شروع ہوگئی جو کہ لمبی ساخت سے گولائی کی ساخت کی طرف جانے لگی ۔ کوئی اٹھارہ لاکھ سال پہلے ہمارے آباؤ اجداد کے نوکیلے دانت کند ہوچکے تھے۔جبڑے بھی چھوٹے ہوچکے تھے ،جس کی وجہ سے چہرہ عمودی ہوگیا تھا۔ دو لاکھ پچاس ہزار سال پہلے ہمارے اجداد کے جبڑے چھوٹے ہوچکے تھے اور اضافی طاقت کے لئے نوکیلی ٹھوڑی چہر ے پر موجود تھی۔ دانت اب چھوٹے تھے اور ایک مضبوط تمثیلی یا گولائی میں ترتیب پاچکے تھے یہ موازنہ اس وقت زیادہ واضح طور پر دیکھا جاسکتاہے جب ہم ایک گوریلا اورانسان کے جبڑوں کو ایک ساتھ دیکھیں۔

گوریلے کا جبڑا چہرے سے باہر کی طرف نکلا ہوا ہوتا ہے، جس میں نوکیلے دانت واضح ہوتے ہیں جب کہ انسانی جبڑا گولائی میں اندر کی طرف ہوتا ہے اور ٹھوڑی سے تھوڑی سی باہر کی طرف محسوس ہوتی ہے۔ بات کی جائے اگر دانتوں سے جڑی بیماریوں کی تو دس ایسی بیماریاں ہیں جوکہ انسانی دانتوں میں عام طور سے پائی جاتی ہیں۔ ان میں دانتوں کا سٹرنا یا کیڑا لگنا سب سے عام ہے۔ دوسرے نمبر پر مسوڑھوں کی سوزش یا سوجن ہے۔ یہ دونوں بیماریاں دانتوں پر جمنے والی گندگی کی تہہ کوصاف نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں ،کیوں کہ اس تہہ کی موجودگی میں بیکٹیریاں باآسانی افزائش پاتے ہیں اور انفیکشن کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ 

بدبودار سانس بھی خشک منہ یاگندے دانتوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دانتوں کا حساس ہونا یادانتوں میں گرم ٹھنڈا لگنا بھی دانتوں کی ایک بیماری ہے جوعام طور سے دانتوں کے انیمل کے خراب ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ دانتوں کا چٹخنا یا تھوڑا سا ٹوٹ جانا، مسوڑھوں کا پیچھے ہٹنا یاسمٹنا، دانتوں کی جڑ میں کوئی انفیکشن ہونا جو کہ بعض اوقات مسوڑھوں کے سُکڑے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ دانت کے انیمل یا اوپری تہہ کا ختم ہوجانا ، منہ خشک ہونا اوردانت کی بیماریوں میں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں تقریباً دوارب لوگ دانتوں میں کیڑا لگنے کا شکار ہوتے ہیں۔ 

اس کے بعد نمبر آتا ہے مسوڑھوں کی بیماری کا اور پھر منہ کے کینسر کا ۔ بعدازاں منہ میں لگنے والی چوٹ جس سے کہ دانت کا ٹوٹ جانا یامکمل طورپر منہ سے نکل کے باہر آنا ، چوتھے نمبر پر آتی ہے۔ پاکستان میں ہونے والی تحقیق میں زیادہ تر کام دانتوں میں کیڑا لگنے اور مسوڑھوں کی بیماری سے متعلق ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں دانتوں میں کیڑا لگنے کی شرح تقریباً بچاس فیصد ہے جس میں بچے اور بوڑھے افراد شامل ہیں۔ اسی طرح مسوڑھوں کی بیماری کی شرح پورے پاکستا ن میں اوسط پچیس فی صد ہے۔ دندان سازی عام طور سے منہ کی بیماریوں ، عوراض اور حالات کا مطالعہ ، تشخیص ، روک تھام ، انتظام اور علا ج سے متعلق طریقوں کو شامل کرتی ہے۔ 

یہ خاص طور سے دانت اور جبڑوں کی ہڈی کا مطالعہ ہے۔عالمی صحت عامہ کے ادارے کے مطابق منہ کی بیماریاں صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے ۔عام طور سے دانتوں میں کیڑا لگنا یا مسوڑھوں کی بیماری کا علاج دانت کی صفائی کی بحالی یا سرجری کے ذریعے دانت کا نکالا جانا، دانت کو سیدھا کرنا، دانت کی جڑ کا علاج اور زیبائشی دندان سازی کے ذریعے ہوتا ہے ۔ دانت کے خراب حصے کو کسی مصنوعی کیمیا ء مادّہ یا مواد سے تبدیل کرنا جہاں وہ دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتا دانتوں کے علاج کا بنیادی مقصد ہے۔

جدید آلات اورجمالیاتی مواد کے تعارف نے دندان سازی کے پیشے کو کافی حد تک تبدیل کردیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی مواد کے استعمال نے دانتوں کی ساخت کی بحالی اور دوبارہ خراب ہونے سے بچائو میں اہم کردار دیکھانا شروع کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داندان ساز ی میں اب حیاتیاتی مودا کو نہ صرف دانت کی خرابی کی روک تھام میں اہمیت دی جاری ہے بلکہ تخلیق نومیں بھی ان حیاتیاتی سالموں کو انتہائی موزوں سمجھا جارہا ہے۔ حیاتیا تی مواد، کیمیاوی مواد کے مقابلے میں جراثیم کش افعال ، سخت بافتوں کی تشکیل کو فروغ دینے اور خلیے کے محرک اور تفریق کرنے میں اہم کردار ادا رکرتے ہیں ۔جب کہ کیمیاء مواد دانت کی ساخت میں ڈال کر روشنی کی شعاع کے ذریعے سے پولیمر یا کثیر سالمی مرکب میں تبد یل ہوکر جم جاتا ہے۔

اور دانت میں یا دانتوں کے درمیان موجود سوراخ بھر جاتا ہے اکثر یہ مواد ان سوراخوں میں سے نکل بھی جاتا ہے اور پھر دوبار ہ سے دندان ساز کے پاس جاکر بھروانا پڑتا ہے ۔ ان حیاتیاتی سالموں میں نوراسپر مڈین جو کہ ایک قسم کا پولی امین ہے ، چیڈسن کی بنیاد پر بنے ہوئے ہائیڈروجیل ، بائیوگلاس، پلیٹلیٹ سے بھر پور فائبرن وغیرہ شامل ہیں ۔ پولی ایتھرا ایتھر کیٹون کو حیاتیا تی مادّہ کے طور پر دانتوں میں داخل کرکے نصب کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ زرکونیہ کے نینوذرّات بھی دانتوں کی ساخت کو بحال کرنے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ 

تحقیقی طور پر نئے سالموں اور دھاتی ذرّات کو جوڑ کر ایک نیا آمیزہ یا مرکب بنا کر تجربہ گاہ میں مختلف آزمائشی معیاد جانچے جاتے ہیں ۔ مثال کے طورپر مواد کی طاقت ، اس کا دیر پا ہو نا ، تڑخ جا نا، اس کی رنگت یارنگ کا پھیکا پڑ جانا سوراخ یا کیوٹی میں جمے رہنا وغیرہ۔ یہ مختلف مادّے آمیزہ مرکب دانت کے انیمل کی جگہ سرامک مادّے کے طور پر یا گلاس آئنو مر سیمنٹ اور دانت کے شگاف کو بند کرنے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے تحقیقی مطالعے بھی کیمیاوی مادّے اور دھات وغیرہ پر جاری ہیں۔ عام طور پر دانت کو بھرنے والے مواد کے اوپر ہونے والے مطالعے میں زنک نیو ذرّات، زرکونیم، کیلشیم کے مرکب، سوڈیم فاسفیٹ کے روایتی او رغیر روایتی دانتوں کو بھرنے والا آمیزہ یا مرکب شامل ہیں۔ 

جامعہ کراچی پروٹیومکس سینٹر میں ہونے والی ایک تحقیق میں دانتوں کے سوراخ کو بھرنے والے مرکب جوکہ بعض اوقات مصنوعی بتیسی بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے ،ا س پر کا م کیا گیا یہ جانچنے کی کوشش کی گئی کہ آیا یہ مواد پولیمر بننے کے بعد یک سالمی بن کر اس پولیمر میں سے باہر نکلتا ہے یا نہیں اور اگر نکلتا ہے تو کتنے عرصے تک نکلتا رہتا ہے دراصل یہ کیمیاوی مواد پولیمر بننے کے بعد تقریبا ً بے ضرر ہوتے ہیں ،مگر یک سالمی یا مونومر کے صورت میں صحت کے لئے نقصاند ہ ہوتے ہیں۔

یہ مشاہدہ کیا گیا کہ یہ مواد جوکہ مخفف کے طور پر ٹیگڈما کہلا تا ہے یک سالمی ہوکر تھوڑا تھو ڑا اپنے پولیمر میں سے نکلتا رہتا ہے ۔ یہ عمل تقریباً اکیس دن تک جاری رہ سکتا ہے جو کہ شروع میں زیادہ اور آخر میں کم مقدار میں ہوتاہے اور ایک ماہ میں پولیمر میں سے یک سالموں کا نکلنا بند ہوجا تا ہے۔ اسی طرح ایک اور مطالعے میں جوکہ ابھی جاری ہے اس پہلو پر کام کیا جارہا ہے کہ دانتوں کو بنانے والا یک جز جس کو ہائیڈرواور کسی کو پٹا ئٹ کہتے ہیں۔ اس کو دانت میں سے نکال کر دندان ساز ی میں استعمال ہونے والے آمیزے میں ایک جز کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 

یہ ہائیڈرواور کسی پٹائٹ مویشی سے حاصل شدہ دانتوں سے نکالا جاسکتا ہے اور استعمال میں بھی لایا جاسکتا ہے ۔بین الاقوامی سطح پر یہ تحقیق بھی جاری ہے کہ مریض سے حاصل ہونے والے خلیات کو اس کے اپنے دانتوں کی خرابی کو دور کرنے میں استعمال کیا جائے ۔ مثال کے طور پر اگر کچھ خاص خام خلیات کو حیاتیا تی سالموں کی طرح دانتوں میں بھر نے والے مواد کے ساتھ استعمال کیا جائے جو کہ دانت کے اندر تخلیق نو کرے اور دانت اپنی ساخت میں ہونے والے کریک یا سوراخ کو دوبارہ سے بھردے۔

یہ طریقہ علاج نہایت سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ دانت کا علاج عام طور سے ایک مہنگا علاج ہے ۔جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے اس علاج کو ایک سستے علاج میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس شعبے میں بہت تیزی سے تحقیقی کام جاری ہے۔ حیاتیا تی مواد نہ صرف دندان سازی کے شعبے میں استعمال کیا جارہا ہے بلکہ دیگر صحت عامہ اور علاج سے متعلق شعبہ جات میں بھی انتہائی اہمیت اختیارکرچکاہے۔ پاکستان میں حیاتیاتی مواد کو لے کر دندان سازی میں ہونے والی تحقیق انتہائی محدود ہے ۔البتہ اب اس میدان نے توجہ اپنی طرف مبذول کرانا شروع کردی ہے۔ 

آئندہ آنے والے سالوں میں پاکستان سے بھی اس تحقیق میں ہونے والے مطالعات بین الاقوامی سطح پر جریدوں میں شائع ہوں گے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے ملک میں دندان ساز ی اس مثبت تبدیلی سے گزرے گی اور یہ علاج پسماندہ افراد کے لئے بھی قابل گنجائش ہوجائے گا۔ اگر منہ اور دانتوں کی صفائی رکھی جائے اور خوراک میں میٹھے وغیرہ کا خیال رکھا جائے تو انسانی دانتوں میں یہ صلاحیت ہے کہ خراب ہوئے بغیر اپنا کام انجام دے سکتے ہیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید