• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے شہر اب ذاتی کتب خانوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں، حالاں کہ ہر بڑے شہر میں ایسے کتب خانوں کی اشد ضرورت ہے ،نیز، ایسے قومی اداروں کی بھی، جن میں نجی کتب خانوں یا نجی ملکیت میں موجود ایسی قومی دستاویزات حاصل کرکے محفوظ کی جائیں، جو ہمارا قومی و تہذیبی سرمایا ہیں۔

پاکستان میں ذاتی کتب خانوں کا مستقبل مسلسل غیر محفوظ اور مخدوش ہورہا ہے۔حالاں کہ چند دہائیاں پیش تر لاہور میں ڈاکٹر وحید قریشی، محمّد عالم مختار حق اور کراچی میں مشفق خواجہ کے کتب خانوں کو بڑی شہرت و اہمیت حاصل رہی ہے۔ قریباً بیس، بائیس سال قبل ایک موقعے پر ڈاکٹر وحید قریشی نے ہمیں بتایا تھا کہ اُن کے کتب خانے میں بائیس ہزار کے لگ بھگ کتابیں ہیں۔ 

مشفق خواجہ کے کتب خانے کو امریکی کنسورشیم نے اپنی تحویل میں لینے کے بعد اس کی جو فہرست ترتیب دی، اس کے مطابق اس میں کتابوں کی تعداد آٹھ ہزار ہے۔ کئی اور کتب خانوں کی بابت بھی سننے میں آتارہا ہے ، جن میں اپنی کثرتِ کتب اور وقعت کے اعتبار سے بیرسٹر خالد اسحٰق اور خالد شمس الحسن کے کتب خانے سرِ فہرست تھے۔ بدقسمتی سے آج یہ دونوں کتب خانے بھی بکھر چُکے۔ دیگر اکابر کے ذاتی کتب خانے بھی رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔ جو چند ایک جاگیرداروں، وڈیروں کے پاس قیمتی نوادرات ہیں بھی، تو اُن کی حیثیت روایتی سی ہے کہ وہ صرف سجانے اور مرعوب کرنے کے لیے محفوظ کی جاتی ہیں۔

کراچی میں وسائل نہ ہونے کے باوجود ذاتی کتب خانوں کے قیام کے رواج نے بہت فروغ پایا۔متعدّد کتب خانے تو بھارت سے ہجرت کے نتیجے میں بھی کراچی منتقل ہوئےکہ یہاں ہر لکھنے، پڑھنے والا شخص اپنی اپنی ضرورت یا شوق کے تحت کتب خانے کے قیام کو لازم تصوّر کرتا تھا۔نیز، بعض ذاتی کتب خانے تواپنے ذخیرے کی وقعت کی وجہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ جیسے ڈاکٹر اشتیاق حُسین قریشی کا کتب خانہ تاریخ کے حوالے سے اور ڈاکٹر محمّد ایّوب قادری کا کتب خانہ، جو خاص طور پر ’’روہیل کھنڈ‘‘ کی تاریخ پر مبنی کتابوں کے لحاظ سے منفرد اور مثالی تھا۔ 

مرزا علی اظہر برلاس کا کتب خانہ بھی اسی قبیل کا تھا،حمیدالدّین شاہد کا کتب خانہ دکنیات کے لحاظ سے اہم تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر سہیل بخاری، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ڈاکٹر ریاض الحسن، ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری وغیرہ جیسے متعدّد نام ہیں، جن کے کتب خانے کبھی بڑی شہرت و اہمیت رکھتے تھے، لیکن اب ان کے نام و نشان بھی نہیں۔ جیسا کہ مرزا علی اظہر برلاس، ڈاکٹر ریاض الحسن اور دیگر کئی افراد نے اپنے کتب خانے اور قیمتی نوادرات و مخطوطات مشفق خواجہ کی نذر کردیئے تھے، تو ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے اپنا کتب خانہ ایک دارالعلوم کے کتب خانے کو دے دیا، لیکن متعدّد ذاتی کتب خانوں پر وقت کی ایسی گرد چڑھی کہ اب اُن کا کہیں وجود ہی نہیں ملتا۔ بیش تر کتب خانے کراچی ہی نہیں لاہور، بلکہ ہر شہر میں کباڑیوں اور ردّی فروشوں یا فٹ پاتھوں پر فروخت ہوئے۔ 

آج ہمارے اکابرینِ کراچی میں ڈاکٹر محمّد ایّوب قادری، ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے کتب خانے بہت دقیع سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ سحر انصاری یا لاہور میں محمّد عالم مختار حق، افضل حق قریشی، اکرام چغتائی، ڈاکٹر تحسین فراقی اور اقبال مجددی صاحبان وغیرہ کے کتب خانے بھی ایک مثال ہیں،البتہ، اقبال مجددی کا کتب خانہ اب پنجاب یونی وَرسٹی میں شامل کردیا گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ باقی تمام ذاتی کتب خانوں کا مستقبل کیا ہے؟ مشفق خواجہ کے کتب خانے کو گرچہ امریکی کنسورشیم نے اپنی نگرانی میں لے لیا ہے، لیکن یہ کتب خانہ بھی ایک عارضی سرکاری عمارت میں واقع ہے۔ جب تک اس کی اپنی مستقل اور مناسب عمارت نہیں ہوگی، اس کی حفاظت اور اس سے استفادہ ممکن نہیں۔

کراچی یونی وَرسٹی کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل رہا ہے کہ اس کے مرکزی کتب خانے میں جو ’’ڈاکٹر محمود حُسین لائبریری‘‘ کے نام سے معروف ہے، متعدّد اکابرِ مُلک و قوم اور مشاہیرِ علم و ادب کے ذاتی کتب خانے جمع ہوتے رہے ہیں، جن کی تعداد چالیس اور پچاس کے درمیان ہے، لیکن اب یہ حال ہے کہ ان ذخائر میں شامل کوئی مطلوبہ کتاب ڈھونڈے سے اپنی جگہ پر نہیں ملتی۔ نادر و نایاب کتب کے حوالے سے شہرت رکھنے والا یہ کتب خانہ اب عدم دیکھ بھال کے سبب کیڑوں مکوڑوں اور دیمک کی غذا بن رہا ہے۔ اس کتب خانے کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ یہاں قومی مشاہیر و اکابر کے ذاتی کتب خانے اور نوادرات بھی جمع ہوتے تھے، وہ نجی کتب خانے، جو یہاں ضم ہوئے، اب کس حال میں ہیں،کیا ان کی فہرستیں بنیں، کیا وہ سارا ذخیرہ کیٹلاگ ہوا؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کا حقیقی جواب شاید اب کوئی بھی نہیں دے سکتا۔

ذاتی کتب خانوں کے ایسے افسوس ناک انجام کو دیکھتے ہوئے، خود ہمارے دل میں بھی اپنے کتب خانے کے مستقبل سے متعلق خدشات تھے کہ جس میں پچاس ہزار سے زائد کتب و رسائل محفوظ ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد نادر و نایاب،کم یاب کتب،مخطوطات و دستاویزات اور مائکرو فلمز کی ہے، تو انہی خدشات کے پیشِ نظر ہم نے ایک بار اُس وقت کے ناظمِ کراچی، نعمت اللہ خان (مرحوم) کو تحریراً ایک مفصّل تجویز پیش کی کہ ’’کراچی کے ذاتی کتب خانے جو آئے دن تباہ و برباد ہورہے ہیں یا ردّی میں اور بازار میں فروخت ہورہے ہیں، ان کی حفاظت کے لیے معقول سرکاری انتظام کیا جائے، تاکہ یہ کتب خانے اور نجی تحویل میں موجود قومی نوعیت و اہمیت کے دستاویزات و نوادرات محفوظ رہ سکیں۔‘‘

انہوں نے ہماری تجاویز پسند کرتے ہوئے اگلے ہی دن منظوری دے دی اور یہ اعلان کیا کہ ’’ادارۂ ترقیات بلدیہ‘‘ کراچی میں ایک بڑا مرکز قائم کرے گا، جس میں ذاتی کتب خانے اور نجی ملکیتوں میں محفوظ قومی نوعیت کے نوادرات، دستاویزات، جو مالکان اس ادارے کی تحویل یا تحفّظ میں دینا چاہیں، محفوظ کیے جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد کچھ ہی دنوں بعد گلشن اقبال میں واقع ’’عزیز بھٹی پارک‘‘ سے ملحق یونی وَرسٹی روڈ پر چار ایکڑ کے رقبے کو اس مقصد کے لیے مخصوص کردیا گیا، جس پر مذکورہ ادارہ قائم ہونا تھا، لیکن افسوس کہ نعمت اللہ خان کا دَور ختم ہوگیا اور اگلی انتظامیہ نے یہ منصوبہ منسوخ کردیا۔

ذاتی کتب خانوں کی آئے دن کی تباہی اور بربادی کا سدّباب یوں ہوسکتا ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اخلاص اور سنجیدگی سے ایک قومی ادارہ قائم کریں، جہاں ذاتی کتب خانے اور قومی نوعیت کے نوادرات اور دستاویزات محفوظ کی جائیں اور سنجیدگی اور ذمّے داری سے ان کی دیکھ بھال ہو، تاکہ عوام بھی ان سے استفادہ کر سکیں۔ قومی عجائب گھر یہ کام کرسکتا ہے، لیکن اب اس کی حالت بھی خاصی دگرگوں اور افسوس ناک ہے کہ وہ بھی سخت عدم توجہی کا شکار ہے، اس لیے بہتر ہےکہ حکومت یا کوئی مخیّر ادارہ یہ ذمّے داری اپنے سرلے لے، تاکہ قیمتی کتب خانوں اور نوادرات کی حفاظت اور اگلی نسلوں تک ان کی منتقلی کا قومی فریضہ ادا ہوسکے۔

اس افسوس ناک صورتِ حال میں خود ہمارے ذاتی کتب خانے کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہے، جس میں جنوبی ایشیا کی تاریخ و سیاسیات، مذہبیات و ادبیات، سوانحات و شخصیات، رجال و علمائے اسلام سے متعلق کتب و مخطوطات وغیرہ شامل ہیں۔ اب اس کا کوئی معقول و مناسب اور مستقل انتظام ہوجانا چاہیے، وگرنہ یہ بھی دیگر کتب خانوں کی طرح تباہ و برباد نہ ہوجائے، جس طرح ہمارے سارے ہی شہروں، بالخصوص کراچی، لاہور، راول پنڈی میں بیسیوں اکابر کےکتب خانے برباد ہوئے۔ بہرحال، ہماری تو یہ دلی خواہش ہے کہ ہماری زندگی ہی میں یہ نادر و قیمتی کتب خانہ کسی اچھے ادارے، کتب خانے میں منتقل یا ضم ہوجائے۔