• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو زمانہ قدیم سے ہی تعمیرات میں لکڑی اور درختوں کے مواد کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا آیا ہے لیکن خاص طور پر صنعتی انقلاب سے پہلے اور اس کے بعد دیگر تعمیراتی مواد نے لکڑی کی جگہ لے لی۔ تاہم، ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ شدت اختیار کرنے کے بعد لکڑی ایک بار پھر پائیدار تعمیراتی مواد کے طور پر تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ساختی لکڑی کا ڈیزائن آسان نہیں ہے۔ 

فی الحال، فلور فریمنگ ڈیزائنرز حتمی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے بہت سے ممکنہ ڈیزائن تیار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ سادہ، مستطیل فرش کی شکل کے لیے بھی ہزاروں ممکنہ امتزاج اور ترکیبیں موجود ہیں، جس سے مجموعی طور پر ڈیزائن کا عمل طویل اور مہنگا ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ڈیزائنر کو ڈیزائن کے امکانات کی تعداد کو کم کرنے کے لیے اپنی ادراکی صلاحیتوں اور تجربے کو استعمال کرنا ہوگا، لیکن یہ عمل (جو ریاضی کے لحاظ سے ایک اصلاحی مسئلہ کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے) ناکارہ رہتا ہے اور اس سے غیر اطمینان بخش نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے تعمیراتی صنعت نے ’کیڈ‘ جیسے سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے ڈیزائن کے کچھ مراحل کو خود کار بنانے اور ڈیجیٹلائز کرنا شروع کیا۔ یہ ٹولز مددگار ہیں لیکن انہیں ابھی بھی بہت زیادہ انسانی عمل دخل کی ضرورت ہے تاکہ کسی ایسے حل کو حاصل کیا جاسکے جو ممکنہ طور پر بہترین ہو۔

ان ہی باتوں کے پیشِ نظر 2018ء میں، لکڑی کی تعمیرات کی ٹیکنالوجی میں کام کرنے والی کمپنی ’اسٹیئرکرافٹ‘نے اپنے جدید سوفٹ ویئر کو مزید بہتر بنانے اور ایک ایسا نظام بنانے کے منصوبے کے لیے اشتراک کیا جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی لکڑی کے فرش کے لیے مخصوص متغیرات اور رکاوٹوں کے تحت مناسب فلور پلان ڈیزائن تلاش کرسکے۔ دو سال کی محنت کے بعد DAISY AIکے نام سے ایک نیا بہتر سوفٹ ویئر تیار کرلیا گیا۔ اس سوفٹ ویئر کی خاص بات اس میں جینیاتی پروگرامنگ کا استعمال ہے۔

ایک مربوط اور مؤثر سافٹ ویئر تیار کرنے کے لیے، جو کسی بھی قسم کی لکڑی کے فرش کا بہترین نمونہ تلاش کرسکے، ٹیم نے جینیاتی پروگرامنگ میں جدید تحقیق کا اطلاق کیا۔ چار پی ایچ ڈی سطح کے مصنوعی ذہانت کے ماہرین، ڈیٹا انجینئرز اور ریاضی دانوں پر مشتمل ٹیم نے اس پیچیدہ اصلاح کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسٹیئر کرافٹ سے وابستہ ماہرین کے ساتھ مل کر کام کیا۔

فلور پلان تیار کرنے میں بڑی تعداد میں امتزاجات کو پراسیس کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہزاروں ممکنہ ڈیزائن سامنے آتے ہیں۔ ارتقائی تلاش کی تازہ ترین پیشرفتوں کو استعمال کرتے ہوئے ان تمام امکانی امتزاج کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے اور آخر کار ہر مؤکل کے لیے مختلف منظرناموں پر لاگو ایک حقیقی ڈیزائن تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اس وقت تعمیراتی ڈیزائنرز کے پاس زیرِ استعمال سافٹ ویئر کے مقابلے میں نیا سافٹ ویئر تقریباً 100فیصد زیادہ اور بہتر نتائج کی ضمانت دیتا ہے۔مصنوعی ذہانت مکمل طور پر خودکار طریقے سے بہترین ڈیزائن حاصل کرنے کے ساتھ، تمام ہندسی اشکال کو زیادہ تیزی اور مؤثر طریقے سے سمجھنے کی سہولت دیتی ہے۔ لہٰذا، یہ طریقہ ایک ’’مصنوعی ذہین ڈیزائنر‘‘ تخلیق کرتا ہے، جو انسانی ڈیزائنر سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔

جینیاتی پروگرامنگ ارتقاء اور فطری انتخاب کے اصولوں پر مبنی اسکیم ہے۔ ابتدائی طور پر اوپر سے نیچے ہیورسٹکس اور بے ترتیب پن کے مرکب کے ذریعہ ڈیزائنوں کی بڑی تعداد تیار کی جاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر ڈیزائن نامکمل ہوں گے جبکہ کچھ بہترین اور کامل نتائج کے حامل ہوں گے۔

ہر ڈیزائن کا ساختی فزیبلٹی کے لیے تجربہ کیا جاتا اور ہر ڈیزائن کے اخراجات کا حساب لگایا جاتا ہے۔ ان اشاریوں سے ہر ڈیزائن کے لیے ’’فٹنس‘‘ ویلیو تفویض کی جاتی ہے۔ ابتدائی ڈیزائنوں کی مدد سے ممکنہ طور پر بہترین نتائج تک پہنچنے کے لیے دو جینیاتی آپریٹرز ’کراس اوور‘ اور ’میوٹیشن‘ کا استعمال کیا جاتا ہے اور نئی آبادیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ جینیاتی پروگرامنگ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ فٹنس فنکشن کو کسی بھی ناپنے کے قابل اشیا کے لیے مخصوص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

غلط یا ناقص تعمیراتی ڈیزائن بہت عام ہیں اور اس عمل کی پیچیدگی اور اس میں شامل فریقین کی تعداد ان چیلنجوں کو بڑھا دیتی ہے، جن پر قابو پانا مشکل ہے۔ یہ سارے مسائل تعمیراتی صنعت کے ماحول میں پائے جانے والے منفی اثرات کو بڑھادیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں تعمیراتی صنعت ہر سال چالیس لاکھ ٹن فضلہ پیدا کرتی ہے۔ جینیاتی پروگرامنگ جیسی تکنیکوں کا استعمال کرکے یہ مسئلہ بڑے پیمانے پر حل کیا جاسکتا ہے۔

تعمیراتی ڈیزائن کے عمل کو خودکار ڈیزائن آلات کی مدد سے آپٹمائز کرکے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ لکڑی سے تعمیر ہونے والے اوسط گھر میں سوت کے تقریباً 100 میٹر استعمال ہوتے ہیں، جن کا وزن 300 کلوگرام ہے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس میں 8 فیصد اضافی بچت ہوتی ہے، جو فی گھر 25کلوگرام لکڑی کے فضلہ کی بچت کرتی ہے۔ برطانیہ میں سالانہ ایک لاکھ 60 ہزار مکانات تعمیر کیے جارہے ہیں، اس طرح ہر سال تخمینے کے مطابق 4 ہزار ٹن لکڑی کا فضلہ بچایا جاسکتا ہے۔ اس کو ’’کنٹرولڈ فضلہ‘‘ سمجھا جاتا ہے، جسے روایتی انداز میں زمین کی بھرائی کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی تعمیراتی افرادی قوت کی کارکردگی بڑھانے، آمدورفت کی لاگت اور تعمیراتی سائٹ پر آلودگی میں کمی لانے اور تعمیراتی لاگت میں کمی (جس کے نتیجے میں بہرحال گھروں کی قیمتوں میں کمی ہوگی) کا باعث بنے گی۔

تعمیرات سے مزید