• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قابل اجمیری 27 اگست، 1931ء کو چرولی، اجمیر شریف، راجھستان میں پیدا ہوئے اور 3 اکتوبر 1962کو حیدرآباد پاکستان میں انتقال کرگئے انکا اصل نام عبد الرحیم تھا1948 میں اپنے بھائی شریف کے ساتھ پاکستان آ گئے اور حیدر آباد، سندھ میں رہائش پزیر ہوئے۔ قابل نے چودہ سال کی عمر میں شاعری کی ابتدا کی۔ ان کی شاعری کو نکھارنے اور سنوارنے میں مولانا مانی اجمیری کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان کو حیدرآباد میں دوستوں کا ایک بڑا حلقہ ملا۔ 

وہ ادبی جریدے ‘نئی قدریں کے مدیر و مالک اختر انصاری اکبر آبادی کے خاصے قریب رہے۔ قابل اجمیری کافی عرصے حیدرآباد سندھ کے روزنامے، جاوید میں قطعہ نگاری کرتے رہے، پھر حیدرآباد ہی کے ایک ہفت روزہ جریدے آفتاب میں قطعات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ساتھ ہی غزلیات اور نظمیں بھی لکھتے رہے 1960 میں انکی صحت خراب رہنے لگی تو وہ کوئٹہ کے سینی ٹوریم میں علاج کے لئے داخل ہوئے۔ 

وہاں ان کی ملاقات ایک کرسچن نرس نرگس سوزن سے ہوئی جو قابل اجمیری کی شاعری کی دلدادہ تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد نرگس سوزن نے اسلام قبول کرکے قابل اجمیری سے شادی کرلی جن سے ان کے صاحبزادے ظفر اجمیری نے جنم لیا۔ 31 سال کی عمر میں قابل اجمیری کا انتقال ٹی۔ بی کے مرض میں ہوا۔انکی چند تصانیف درج ذیل ہیں :

دیدہ بیدار۔ خون رگ جاں ۔ انتخاب کلام اجمیری۔ کلیات قابل۔

عشق انسان کی ضرورت ہے

ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے

وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے

دل رسم و رہ شوق سے مانوس تو ہو لے

تکمیل تمنا کے لیے عمر پڑی ہے

چاہا بھی اگر ہم نے تری بزم سے اٹھنا

محسوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے

آوارہ و رسوا ہی سہی ہم منزل شب میں

اک صبح بہاراں سے مگر آنکھ لڑی ہے

کیا نقش ابھی دیکھیے ہوتے ہیں نمایاں

حالات کے چہرے سے ذرا گرد جھڑی ہے

کچھ دیر کسی زلف کے سائے میں ٹھہر جائیں

قابلؔ غم دوراں کی ابھی دھوپ کڑی ہے

حوادث ہم سفر اپنے تلاطم ہم عناں اپنا

زمانہ لوٹ سکتا ہے تو لوٹے کارواں اپنا

نسیم صبح سے کیا ٹوٹتا خواب گراں اپنا

……نظم……

حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے

ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

نا مرادی اپنی قسمت گمرہی اپنا نصیب

کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی

قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا

آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبۂ خاموش عشق

وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

خود تمہیں چاک گریباں کا شعور آ جائے گا

تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابلؔ مے کدے میں انقلاب آنے کو ہے

اہل دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی