حقیقت بہر حال یہی ہے کہ نواز شریف نے دو ہزار اٹھارہ میں اپنی معزولی کے بعد ووٹ کو عزت دو اور آئین و قانون کی بالادستی کا جو طاقتور سیاسی بیانیہ پیش کیا تھا وہ صرف ایک سیاسی دائو پیچ اور پولیٹکل اسٹنٹ ہی ثابت ہوا،اور اب فنا و معدومیت کے راستے پر گامزن ہے۔
کیونکہ طاقتور منطقوں کے فیصلہ ساز مقام پر شریف خاندان کے ناموں کے گرد کھینچی گئی وہ سرخ لکیر اب طاقت اور اقتدار کی کشمکش اور بدلتے سود و زیاں کے معاملات سے نہ صرف ملیا میٹ ہو چکی بلکہ راندۂ درگاہ شریف خاندان پر اقتدار کے دروازے بھی کھلے اور مزید کھلتے چلے جا رہے ہیں۔اور یہی وہ وقت تھا جب نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے رویے میں وہ بنیادی تبدیلی دیکھنے میں آئی جو دورانِ اقتدار عمران خان کا خاصا سمجھا جاتا تھا یا بالفاظِ دیگر انیس سو اسی کے عشرے میں شریف خاندان کا سیاسی بیانیہ تھا۔یعنی اسٹیبلشمنٹ کی قربت اور اس کی رضا مندی کے حصول کے بدلے اقتدار تک رسائی۔
کیا گزشتہ پانچ مہینوں یعنی جب سے اقتدار کا ہما جاتی امرا کے در و بام پر آ کر بیٹھ گیا ہے تب سے کوئی سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کی کوئی نحیف سی آواز تو کیا کوئی مبہم سا اشارہ بھی یہ گواہی فراہم کر سکتا ہے کہ بیانیے کو اب بھی نواز شریف کیمپ کی طرف سے اون کیا جا رہاہے۔ ?
گو کہ شہباز شریف اور مریم نواز سیلاب زدگان اور دوسرے لوگوں کو گلے لگاتے روز دیکھے جاتے ہیں لیکن کیا ان کی’’سابقہ‘‘ سیاست اور مقبولیت کے منبع ’’سول سپرمیسی کابیانیہ‘‘ اور اس کے داعی نواز شریف پر ایک گمبھیر اور مصلحت آمیز سکوت طاری نہیں ?جس نے بہر حال نواز شریف کی سیاسی مقبولیت پر ایک توجہ طلب سوال بھی اٹھا دیا ہے۔سب سے زیادہ رنج تو اس بات کا ہے کہ نظریے اور حکمت کی سیاست پر بے ہودگی اور غل غپاڑے کا غلبہ ہے۔
مزید دُکھ تو یہ ہے کہ سیاسی میدان میں لکیر کی دوسری سمت صورتحال اول الذکر سے بھی زیادہ دگرگوں ہےکیونکہ عمران خان اقتدار کے حصول کے لئے ایک ایسی غیر دانشمندانہ اور سفاکانہ سیاست پر اتر آئے ہیں جس میں ملکی استحکام، جمہوریت کی بالادستی اور عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کی بجائے ہر مخالف کو ملیا میٹ کرنے، اداروں پر کیچڑ اچھالنے، عالمی سطح پر ملکی امیج کو برباد کرنے اور گالم گلوچ کا لہجہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔
خان صاحب کی سیاست کا حرفِ آخر یہ ہے کہ مجھے اقتدار دو اور میرے ہر مخالف کو ملیا میٹ کر کے رکھ دو ورنہ میری زبان اور سامنے کا ہجوم تہمت و دشنام کی طاقت سے لیس ہے۔
اور المیہ یہ ہے کہ خان صاحب اسی کو ہی طاقت اور اقتدار کا راستہ سمجھ بیٹھے ہیں۔
وژن اور دانش ملاحظہ ہو کہ طالبان اور غیر سیاسی قوتوں سے مذاکرات کے لئے تڑپ رہے ہیں لیکن سیاسی قوتوں سے صبح و شام نفرت کا سودا بیچتے ہیں۔
اور تو اور آرمی چیف کے باوقار منصب کا معاملہ بھی نہ صرف نا پختگی اور حماقت سے خواب کیا بلکہ اس حساس اور ذمہ دار عہدے کو بھی اپنے سیاسی مفادات کے لئے حب الوطنی اور غداری کے میزان میں تولنے لگا ۔ پتہ نہیں اقتدار میں رہ کر اور اقتدار سے باہر عمران خان کی اس غیر ذمہ دارانہ اور بعید از تدبر سیاست کا ملک و قوم کو فائدہ کیا ہوا؟ ?
تا ہم اسی طرز سیاست سے خان صاحب کو ایک ایسا ہجوم ضرور مل گیا جس نے ان کی سیاسی طاقت کو بڑھاوا تو دے دیا مگر جھوٹ، مکر و فریب، گالم گلوچ اور بد تہذیبی کا زہر بھی سیاست میں بری طرح سرایت کر گیا جس نے جمہوری عمل سے معاشی استحکام اور قومی وحدت سے تہذیبی ڈھانچے تک کو بہت حد تک درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔
دوسری سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بھی ایک غیر روایتی لیکن پریشان کن صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے، جمہوری جدوجہد میں ہمیشہ سے پیش پیش پیپلزپارٹی کے بارے میں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ وفاق کی ایک اکائی (سندھ) میں مقبولیت اور اقتدار پر اکتفا کئے بیٹھی ہے جس کے سبب قومی سیاست سے الگ تھلگ مسلسل ایک غنودگی کی کیفیت میں ہے۔گو کہ آصف علی زرداری گاہے ایک زیرک سیاسی مکینک کے طور پر بعض اوقات سرگرمی دکھا جاتے ہیں لیکن یہ خلافِ فطرت عوامی لہر سے الگ ایک ڈرائنگ روم سیاست اور جوڑ توڑ کا میکانکی عمل ہوتا ہے جو کسی سیاسی لیڈر کے گھر اور میڈیائی چینلوں کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔ حالانکہ پیپلزپارٹی کا بنیادی مزاج حد درجہ عوامی اور ڈرائنگ روم طرز سیاست سے یکسر مختلف ہے۔
عمران حکومت کے دوران جمہوریت کے داعی اور سب سے زیادہ جارحانہ رویے کے حامل مولانا فضل الرحمٰن کی کل سیاست بھی دو چار وزارتوں تلے دبی محسوس ہو رہی ہے ،نہ اسلامی انقلاب کا نعرۂ مستانہ بلند ہو رہاہے اور نہ ہی جمہوریت کا علم لہرایا جا رہا ہے ۔ باخبر لوگوں کاکہنا ہے کہ وہ عمران خان کی مقبولیت سے کافی حد تک خوفزدہ ہیں خصوصاً اپنے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں انہیں ناپختہ لیکن مقبول حریف علی امین گنڈاپور کا سامنا ہے اور اس سے ملتی جلتی صورتحال ملحقہ اضلاع ٹانک، لکی مروت اور بنوں میں بھی مولانا اور ان کی جماعت کو درپیش ہے۔
جبکہ ایک قریبی عزیز کے بعض معاملات اور اس حوالےسے ہونے والی چہ میگوئیاں مستقبل میں مولانا کی سیاسی(خصوصاً انتخابی) پریشانیوں میں مزید اضافہ کر سکتی ہیں۔ اے این پی بھی ایک عرصے سے غنودگی کی کیفیت میں ہے۔سر دست اس پارٹی کا سب سے بڑا مسئلہ لیڈر شپ کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے جماعت کا توانا ورکر پہلی بار تذبذب اور خاموشی کا شکارہے ۔بلوچستان کی روایتی سیاسی جماعتیں بشمول محمود خان اچکزئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی گو مگو اور تذبذب کے حصار میں دکھائی دیتی ہیں۔ تا ہم ان کی سیاست پر بلوچستان کے مخصوص حالات کی وجہ سے اشتعال اور ناراضی کا غلبہ ہے۔
جماعت اسلامی ایک عرصے سے معدوم ہو چلی تھی لیکن سیلاب زدگان کی قابل ستائش مدد اور اس حوالے سے جماعت کی ذیلی تنظیم الخدمت فاونڈیشن کی بہترین کا رکردگی جماعت کو مقبولیت اور پسندیدگی کے راستے پر ڈالنے کےلئے کافی ہے بشرطیکہ سراج الحق صاحب قاضی حسین احمد مرحوم کی مانند فعال اور متحرک ہو جائیں۔حرفِ آخر یہ کہ خلاف روایت قومی سطح پر سیاست اگر ایک طرف ایک گمبھیر سناٹے اور مضمحل غنودگی کا شکار ہے تو دوسری طرف ایک لاحاصل چیخ چنگھاڑ اور بے مقصد غل غپاڑہ اسے دبوچے فنا کے گھاٹ اتارنے پر بضد ہے۔