روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی نئی رہنما اور نئی وزیراعظم نے نئی ذمہ داریوں کا چارج سنبھال لیا ہے۔ نئے وزیراعظم کے لیے یہ خوشگوار صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب بورس جانسن کی کابینہ کے 58وزراء نے وزیراعظم پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیئے،اس کے بعد بورس جانسن کو اسٹیبلشمنٹ اور پارٹی قیادت کی جانب سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا گیا تو بورس جانسن نے نئے لیڈر آف دی پارٹی کے انتخاب تک اپنے عہدے پر قائم رہنے کا اعلان کیا۔ پارٹی لیڈر کے انتخاب کی دوڑ میں 11 امیدوار آئے اور پارلیمنٹ میں پارٹی کی جانب سے سب سے کم سپورٹ لینے والے دو نچلے ترین امیدوار دوڑ سے خارج ہوتے گئے۔ بالآخر یہ دوڑ دو امیدواروں تک آگئی جس میں مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ رشی سوناک اور2010ء سے رکن اسمبلی چلی آرہیں لز ٹرس کے مابین تھی، میڈیا پر رشی سوناک کافی مضبوط امیدوار دکھائی دیتے تھے لیکن ظاہر ہے اصل حصہ تو پارٹی ممبران تھے جہاں رشی کی پوزیشن کمزور تھی، اس کی وجہ ان کی اہلیت نہیں بلکہ پارٹی کے اندر نسل پرستی ہے، پرانی کنزرویٹو پارٹی تو امیگریشن کے ہمیشہ خلاف رہی ہے اور رنگ و نسل میں تفریق اس کی سیاست ہوتی تھی، گوکہ اب اوپر کی سیاست میں ویسا کچھ نہیں ہے لیکن پارٹی کے اندر تو ایسی تفریق موجود ہے، رشی کا ایک طرف انڈین پس منظر، دوسری طرف برائون فام، پھر بھلا پارٹی کی اکثریت کسے ملتی، تاہم سارا معاملہ جس پرامن طریقے اور خوش اسلوبی سے تکمیل کو پہنچا وہ ایک جمہوری نظام کی اعلیٰ ترین مثال ہے، اختتام پر مقابلے میں ہارنے والا امیدوار صرف مبارکباد ہی نہیں دیتا بلکہ نئے لیڈر کے منتخب ہونے پر اسے بھرپور تعاون کا یقین بھی دلاتا ہے، کوئی پارٹی میں علیحدہ گروپ بناکر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کھڑی نہیں کرتا، وزرائے اعظم کی لسٹ میں چرچل سے لے کر اب لز ٹرس آخری وزیراعظم ہیں جنہوں نے اپنی نامزدگی ملکہ الزبتھ سے وصول کی اور بورس ملکہ الزبتھ کے ہاتھوں مستعفی ہونے والے آخری وزیراعظم تھے، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ روز96برس کی عمر میں ملکہ برطانیہ کا انتقال ہوگیا ہے، ملکہ الزبتھ اس کرۂ ارض پر واحد ملکہ تھیں جنہوں نے طویل ترین عرصے تک راج کیا اور اس کرۂ ارض پر رونما ہونے والی اہم ترین تبدیلیوں کو نہ صرف دیکھا بلکہ اس میں اپنا موثر کردار بھی ادا کیا، اس ملکہ نے وہ دور بھی دیکھا جب دنیا پر برٹش راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اپنی مقبوضہ نوآبادیوں پر حکومت بھی کی اور آزادی بھی دی، جنگ عظیم دوم دیکھی بلکہ وہاں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، شاہی خاندان کا مقتدر دور بھی دیکھا اور شاہی خاندان کے جلال اور طاقت کو فقط اعزازی حیثیت میں تبدیل ہوتے بھی دیکھا، برطانیہ کو پوری یونین میں جاتے بھی دیکھا اور نکلتے بھی دیکھا، سرمایہ دارانہ نظام کی دنیا کے وسائل پر عقابی نگاہیں بھی اس ملکہ نے دیکھیں اور اس وقت اس سب کچھ کو ا گر انسان دوستی کے نظریئے سے دیکھوں تو یہ بادشاہتیں نہ تو عوام دوست ہوتی ہیں اور نہ ہی انسان دوست، اس لحاظ سے برطانوی سامراجی کردار جتنا ملکہ الزبتھ کے حصے آیا، اس نے انہیں سامراجی تقاضوں کے مطابق نبھایا، اس لحاظ سے ملکہ جہاندیدہ ہی نہیں بلکہ جہاں ساز بھی تھیں، جس نے درجنوں ممالک کی تخریب و تعمیر میں اہم ترین کردار ادا کیا، ابھی ملکہ کی تجہیز و تکفین باقی ہے اور برطانیہ حالت سوگ میں ہے گوکہ ملکی سیاست اور انتظامی معاملات پر اثر انداز ہونے والی جو شخصیت ہے وہ تو وزیراعظم لز ٹرس کی حکومت ہی ہے جو اپنے دوراقتدار کو کہاں تک بورس جانسن سے مختلف بنا پائے گی، اس کا ذرا جائزہ لیتے ہیں، لز ٹرس کا خیال ہے کہ بھاری ٹیکسوں کا اطلاق ترقی کو روکتا ہے اور عوام کے پاس معاشی سرگرمیوں کے لیے زیادہ جگہ نہیں بچتی،لز ٹرس حالانکہ ایک چلتے سرمایہ داری نظام کا تسلسل ہی ہیں جس میں کنزرویٹو کو سرمایہ داروں کی پارٹی ہی کہا جاتا ہے اور ان ہی کے مفادات کا تحفظ بھی کیا جاتا ہے، آج کل برطانیہ میں سب سے بڑا بحران توانائی کا ہے، گیس، بجلی کے بل لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتے جارہے ہیں، کاروبار بند ہونے شروع ہوچکے ہیں، ایسے میں لز ٹرس کیا جادو کرسکتی ہیں کہ اس بحران پر جوکہ حکومت کی اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے،وہ اسے الٹا گیئر لگا دے، مجھے تو کچھ بھی ایسا بھلا ہوتا نظر نہیں آتا مثلاً بریگزٹ اس کا سبب ہے، یوکرین پر اربوں پائونڈ لگاکر روس کے ساتھ پراکسی جنگ میں ملوث ہونا اس کا دوسرا بڑا سبب ہے، ان دو اہم ایشوز کو لز ٹرس نہ تو یوٹرن دے سکتی ہیں اور نہ ہی وہ ایسا مانتی ہیں، ایسے میں وزیراعظم کے بدلنے سے مجھے نہیں لگتا کہ برطانیہ کسی بہتر معیشت کے اقدامات کرسکے گا بلکہ برطانوی عوام کے معاشی زخموں میں اضافہ ہی ہوگا۔