ایک روز والد گوال منڈی سے نکلے، پیر کسی شے میں رَپٹا، زور سے گر کر زخمی ہوئے، قریب میں واقع میو اسپتال میں بہ غرضِ علاج داخل ہوئے اور چند روز میں فوت ہوگئے۔ اُن کی وفات گھر بھر کے لیے بلائےناگہاں بن کر آئی۔ ایک لمحہ دوستوں یاروں کے ساتھ بے فکری کی زندگی، دوسرا لمحہ ذمّے داری کی گراں باری۔ بڑے بھائی شادی کے بعد علیحدہ ہوگئےتھے۔ ذمّےداریاں مزید بڑھ گئیں۔ ’’لوگ کہتے ہیں، ہمارا خاندانی نظام ہماری سب سے بڑی طاقت ہے، بعض صُورتوں میں یہ ہماری سب سے بڑی کم زوری بھی ہے۔‘‘ ایک مرتبہ مطیع نے تاسف بَھرے لہجے میں مجھ سے کہا تھا۔
مناسب تعلیم حاصل کر کے مطیع نے انشورنس کے شعبے میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہ بائیس برس ملازمت سے منسلک رہا۔ ساتھ دست شناسی کا شوق بھی پنپتا رہا۔ جب اورجہاں تک وہ مبالغہ نہ کرتا اورفسانہ طرازی سے گریز کرتا، وہاں تک وہ خُوب سراہا جاتا۔ وہ شوقیہ طور پر لوگوں کے ہاتھ دیکھتاتھا۔ لوگ اس کے انشورنس کے دفتر تک چلے آتے۔ بطور دست شناس وہ کام یابی کی منازل طے کرتاجارہا تھا۔ ایک روز اُسے ایک معروف انگریزی اخبار کی مدیرہ کا فون آیا۔
انھوں نے مطیع کا انٹرویو کرنے کی خواہش ظاہر کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ نجوم، دست شناسی، رمل وغیرہ کے ماہرین کا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کا علم کتنا حقیقی اور سچّا ہے اور کتنا بے بنیاد۔ یہ سُن کر مطیع نے ٹھان لی کہ وہ بہرحال اپنے علم کو ثابت کرے گا۔ اُس نے مدیرہ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات حاصل کیں، اُنھی کی بنیاد پر اُس کے ہاتھ کا ایک خیالی خاکہ بنایا اور میاں میر پُل کے نزدیک اُن کے دفتر پہنچ گیا۔ وہاں اُس نے مدیرہ کے سامنے اُن کے ہاتھ کا خاکہ رکھا۔ تمام لکیریں حقیقی لکیروں کے قریب تھیں، البتہ حیران کُن طور پر خطِ زندگی کے قریب زہرہ کے اُبھار پر نمایاں طور پر بنایا گیا سیاہ دھبّا، حقیقی ہاتھ کے متعلق ابھار پر تِل سے مماثلت رکھتا تھا۔
مطیع کا انٹرویو اگست1994ء کے شمارے میں شائع ہوا، جس میں مدیرہ نے اُس کے خیالی خاکے کی حقیقی ہاتھ سے مماثلت کو سراہا تھا۔ بس اس کے بعد تو قطار لگ گئی۔ مطیع نے دست شناسی کوکُل وقتی پیشے کے طور پراپنانے کا فیصلہ کرکے شوقیہ ہاتھ دیکھنے ترک کردیے اور ستمبر1994ء میں ملازمت سے استعفا دے دیا۔ اب شوق، پیشے میں ڈھل گیا۔ خاندان کا بارکاندھوں پر تھا۔ شادی کو پندرہ برس ہوچُکے تھے۔ اولاد کی ذمّےداریاں بھی تھیں۔ فارغ اوقات میں وہ باقاعدگی سے بین الاقوامی ادب کا مطالعہ کرتا رہتا تھا۔ نوادار، قیمتی پتھروں اور شکار کاشوق شدّت سے موجود تھا۔ قیمتی پتھروں کے علاوہ قدیم سکّوں کا شوق بھی تھا۔
شمالی علاقہ جات کی سیاحت اور مختلف شائقینِ نوادر کے ساتھ ملاقاتوں میں اُس نے قدیم ادوار کے سکّے اکٹھے کررکھے تھے۔ ایک مرتبہ ضرورت پڑی تو اُس نے وہ سکّے خاصی قیمت میں بیچ دیے اور چند ہی روز میں سارے پیسے دوستوں پر خرچ کردیے۔ ایک مرتبہ وہ ہمارے ایک مشترکہ دوست کے پاس ضرورت کے تحت آیا۔ دوست نے اُسے پانچ ہزار روپے قرض کے طور پر دیے۔ تب اتنی رقم کی خاصی اہمیت تھی۔
پیسے لےکر وہ اپنےدفتر آیا تاکہ اسے بند کر کے گھر جاسکے۔ اس دوران اسے ایک اوردوست کا فون آگیا۔ خوشی کا کوئی موقع تھا، سو سب دوست اکٹھے ہو رہے تھے۔ سردیوں کی شام تھی۔ مطیع نے اس رقم سے کئی کلو گرما گرم مچھلی، نان، سلادچٹنی، بوتلیں وغیرہ خریدیں اور دوستوں کی محفل میں لے گیا۔ جب وہ اُس محفل سے اُٹھا تو ہاتھ دوبارہ خالی تھے۔
اُس کی بیوی بیمار رہتی تھی۔ اُس کے علاج پر بھی خاصی رقم خرچ ہوتی تھی۔ آیا بیوی کے طبّی مسائل کی وجہ مطیع کا غیر ذمّے دارانہ مزاج تھا یا بیوی کی بیماریوں اور خاندانی پریشانیوں کی وجہ سے وہ دوستوں میں پنا ہ لیتا تھا، معلوم نہیں۔ وہ روٹری کلب کا بھی فعال رکن تھا۔ کلب کے اجتماعات اورتقریبات میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا۔ اُسے شکار کا ایسا شوق تھا کہ مرغابی کے شکار کے لیے لاہورکے مضافات کے علاوہ دُور تک چلا جایا کرتا تھا۔ کوہ نوردی اُسے شمالی علاقہ جات تک بار بار لے جاتی تھی۔ اُس نے کئی لوگوں کو مُلک کے اندر سیاحت اور کوہ نوردی کی راہ دِکھلائی۔
پشاور، سوات، تخت بھائی اور دیگر علاقوں کا دورہ وہ بُدھ آرٹ پر تحقیق کے لیے کرتا تھا۔ اُس میں ایک عجب اور غیر معمولی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی کہ وہ ایک نظر دیکھ کر اصل کا نقل سے فرق بتا دیتا تھا۔ لاہور کے عجائب خانے میں وہ باقاعدگی سے جاتا تھا اور بُدھ آرٹ سے متعلقہ لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے علاوہ وہاں آرٹ کے ثقہ ماہرین سے تبادلۂ خیال بھی کیا کرتا تھا۔ اُس کے پاس بُدھ آرٹ سے متعلق بے شمارکیٹلاگ دھرے رہتے تھے۔ ایک رات وہ تارڑ صاحب کے گُلبرگ میں واقع گھر پر رات گئے رکشے پر آیا اور اطلاعی گھنٹی بجائی۔ تارڑ صاحب نے گیٹ کھولا۔
مطیع جلدی میں تھا اور اُس نے رکشا رکوایا ہوا تھا۔ اُس نے ایک مسوّدہ تارڑ صاحب کے حوالے کیا اور کہنے لگا کہ اُس نے کئی برس کی محنت سے یہ ناول لکھا ہے۔ اُسے یقین تھا کہ ناول کو ادب کا نوبل انعام ملے گا۔ تارڑ صاحب نے تذبذب میں پوچھا کہ ابھی تو ناول شائع بھی نہیں ہوا، تو اُسے اتنا بڑا انعام ملنے کی توقع کیوں کر ہے۔ یہ سُن کر مطیع نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’جب ملے گا تو آپ حیران رہ جائیں گے۔‘‘یہ کہہ کر وہ رکشے میں بیٹھا، اور یہ جا وہ جا۔ مَیں نے تارڑ صاحب سے پوچھا کہ کیسا ناول تھا، تو انھوں نے جواب دیا۔ ’’پتانہیں ناول تھا یا نہیں، لیکن جو بھی تھا، دل چسپ اور متاثر کُن تھا۔‘‘
تارڑ صاحب سے ایک تعارفی رقعہ لے کر وہ ہندوستان بھی گیا تھا اور قراۃ العین حیدر سے ملا، ساندہ کے اپنے ہم سائیوں کی وساطت سے انڈین انڈرورلڈ کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں، رنگین محفلوں میں شریک ہوا اور خوب ہلاگُلا کیا۔ بچپن ہی سے اُسے انڈر ورلڈ کی جانب ایک کشش پیدا ہوگئی تھی،وہاں کا گلیمر، تجسّس، قیمتی گاڑیاں، انگوٹھیاں، گھڑیاں، اعلیٰ درجے کی رنگ و موسیقی کی محافل اُسے اپنی جانب یوں کھینچتی تھیں، جیسے اژدھا اپنی مقناطیسی نظر سے شکار کو بےبس کرکے اپنی اور متوجّہ رکھتا ہے۔ بمبئی اور دیگر شہروں کی سوئمنگ پولز کے کنارے ہونےوالی انڈر ورلڈ پارٹیوں، فلمی ستاروں اور نمایندہ ادب کے تخلیق کاروں سے ملاقاتوں کے بعد وہ لاہورلوٹا تو گویا اپنا دل وہیں چھوڑ آیا۔ اُس کی آنکھوں میں اُدھر کی محافل کےتذکروں سےخاصےعرصےتک ستارے دمکتے رہے۔
اُنھی دنوں اُس کے ہاں مُردہ حالت میں بیٹاپیدا ہوا۔ اُس نے دوستوں کو اطلاع کی۔ اگلی صبح عید تھی ۔ سویر ہی کو میانی صاحب کے قبرستان میں تدفین ہونا تھی۔ گنتی کے چنددوست تدفین میں شریک ہوئے۔ ایک عجیب ماحول تھا۔ باہر عید کی صبح زرق برق لباس پہنے، خوشبو لگائے، گلاب کے پھول تھامے، غبارے اور کھلونے لیے بچّے ماں باپ سے اٹکھیلیاں کرتے رشتے داروں کے ہاں، میلوں ٹھیلوں، باغوں، چڑیا گھروں اور جھولوں کی طرف جارہے تھے۔ میانی صاحب کے قبرستان میں عید کی صبح میلا جَمتا تھا۔ قبرستان میں ہر سُو گلاب کی پتیوں کی مہک، درختوں کی گھنی سرسبزشاخوں سے چَھن کر آتی سورج کی تازہ روشنی کی کرنوں اور اگربتیوں کے مخصوص خوشبودار دھوئیں میں گُھل مِل رہی تھی۔
ایک جانب لوگ ایک چھوٹی سی گیلی مٹّی کی ڈھیری کے گرد دُعا مانگ رہے تھے۔ جب مطیع قبرستان سے نم ناک آنکھوں کے ساتھ باہر نکلا تو باہر خوشی کے شادیانے بج رہے تھے، اندر اللہ اللہ، باہر واللہ واللہ تھا۔ پےدرپےحادثات اورخاندانی مسائل نے اُسے ذیابطیس کا مریض بھی بنادیا تھا۔ ہم باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے۔ لوگ اُس کے سامنے دل کھول کر رکھ دیتے تھے۔ وہ اکثر مجھ سے ان کے گفتنی و ناگفتنی حالات بیان کرتا رہتا تھا۔ شادی شدہ مَردوں کی بے وفائیوں کےقصّے، محبّتوں میں گرفتار لڑکے، لڑکیوں کی باتیں، ہاتھوں میں جیل اور قید و بند کی نشانیاں رکھنے والے کلائنٹس کے واقعات، معروف سیاست دانوں کے درونِ خانہ راز، کھلاڑیوں، اداکاروں کے معاشقے اور بیرونِ ملک آباد شوہروں کی بیویوں کے جذباتی بحران اور رومان۔
جب وہ پیس پلازے میں برقی زینے کے نیچے دست شناسی کا دفتر سجائے بیٹھا تھا تو ایک واقعہ ہوا۔ میرے قریبی احباب، میرےدست شناسوں، عاملوں، جادوگروں، سفلی و نوری علوم والوں، شعبدہ بازوں وغیرہ سے متعلق شوق سے آگاہ تھے۔ بھلے وہ دھرم پورہ (حالیہ مصطفٰی آباد) میں ٹرین کی پٹری اور نہر کے اتصال پر واقع دکان کی بالائی منزل پربیٹھنے والا عامل ہو یا گندے نالے (ظفر علی خان روڈ) کے نکڑ پر آبادمسیحی بستی میں رہنے والا کالے علوم کا ماہر، کینال کالونی میں فروکش غیب بیں ہو یا فردوس کالونی گلبرگ میں مزار کے پچھواڑے میں بیٹھنے والا نیک مرد، سب جانتے تھے کہ میرا کئی اسرار بَھرے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اُنھی دنوں ایک لڑکی نے میرے ایک قریبی واقف کار سے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جس لڑکےسےمحبّت کرتی ہے، اُس پرجادو کروانا چاہتی ہے۔
واقف کارنے اِردگرد نظر دوڑائی تو اُسے یہ عاجز اِس کام کے لیے موزوں لگا۔ خود میرے اندر تجسّس کا مادّہ بڑھ گیا تھا۔ البتہ مَیں کسی مسئلے میں گرفتار ہونےکےباعث متردّد تھا۔ جب واقف کار نے یقین دلایا کہ وہ لڑکی اِس معاملے میں بہت سنجیدہ اور بےتاب ہے اور اپنی مُراد پوری نہ ہونے پر ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوکر کسی جذباتی بحران کا شکار ہوسکتی ہے،تو مَیں نے موہوم آمادگی ظاہر کر دی۔لڑکی ایک بےحد رئیس خاندان کی نورچشم تھی، گایکی کی تعلیم شوقیہ طورپر اساتذہ سے حاصل کر رہی تھی، کمال کی گلوکارہ تھی، کئی فلموں میں گایکی کی پیش کشیں ہوچُکی تھیں، مُلکی سطح پر گایکی کے کئی ایوارڈز بھی اپنے نام کرچُکی تھی۔
وہ متوسّط گھرانے کے ایک سنجیدہ، بے روزگار لڑکے سے یک طرفہ عشق میں اس بُری طرح گرفتار تھی کہ ہرقیمت پر اُسے حاصل کرنا چاہتی تھی۔ لڑکے کی اپنی کزن سے شادی طے ہوچُکی تھی اور وہ اُس لڑکی کی جانب متوجّہ نہ ہوتا تھا۔ لاہور کے اعلیٰ ترین علاقے میں لڑکی کاگھرکئی کنال پر محیط تھا۔ گھر والے اُس کے عشق سے آگاہ تھے اور بندشیں عائد کر رکھی تھیں۔ قصہ کوتاہ، ایک روز آدھی رات کو میں اُس کے گھر کے پچھلے حصّے کے باہر پہنچا۔ مَیں خود طالب علم تھا، رات گئے گھر سے گاڑی لے کرنکلنامیرےلیےبھی مشکل تھا۔ وہ دیوارکے اوپرسے کُودکر میری گاڑی میں آبیٹھی اور رسمی سلام دُعا کے بعد میں اُسے اُس بستی میں لے گیا، جہاں عامل سے پہلے سے ملاقات طے تھی۔
امل کے کمرے میں عجیب مہک تھی، بڑا پرُاسرار ماحول تھا۔ کمرے کے نیم اندھیرے کونوں میں چھوٹی مشعل نما روشنیاں جل رہی تھیں۔ اُس نے لڑکے کی تفصیلات معلوم کیں، مجھے دَم کی ہوئی الائچی کے جادو توڑ دانے چبانے کو دیے اور عمل شروع کردیا۔ وہ منتّرالاپتا رہا۔ نشست کے اختتام پر اُس نے لڑکی سے خاصی بڑی رقم بطورِ معاوضہ لی، مجھ سے بھی الائچی کے پیسے لیے۔ میری تمام تر ہم دردی خطرات سے کھیلنے والی اُس لڑکی کے ساتھ تھی۔ چند ایک مرتبہ یہ عمل دہرانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لڑکا جس کی اپنی کزن سے شادی ایک برس بعد طے تھی، اُس کا اُسی کزن سے نکاح چھے ماہ بعد طے ہوگیا۔ لڑکی کو پتا چلا تو وہ پاگل ہونے لگی۔
اُس نے مجھ سے رابطہ کیا اور مشورہ طلب کیا کہ اب کیا کِیاجائے۔ مَیں نے اُسے تسلّی دی کہ جو قسمت میں لکھا ہے، وہی ہوگا۔ ہمیں امرخداوندی کے آگے سرجُھکا دینا چاہیے۔ میں اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔ اُنھی دنوں مطیع نے مجھ سے کہاتھا کہ اگر کچھ کلائنٹس ہوں تواُنھیں اُس کی جانب ریفر کردوں۔ تب اُس کا دھندا ٹھنڈا چل رہا تھا۔ مَیں نے اُسے اُس لڑکی کا بتایا۔ مطیع نے یہ کہتے ہوئے کہ اِن دنوں اُس کا علم صحیح نہیں بیٹھ رہا، مجھ سے اصرار کیا کہ مَیں اُس لڑکی کا کچھ احوال اُسے بتادوں کہ لڑکی مایوس نہ ہو جائے۔
مَیں نے اسے چند معاملات کی خبر دی اور شریکِ راز کرلیا۔ لڑکی مطیع کو ہاتھ دِکھا کر لوٹی تو مجھ سے خاصی ناراض تھی۔ اُسے یقین تھا کہ مَیں نے مطیع کو چند معاملات کی پہلے سے خبر کردی تھی۔ ظاہرہے، مَیں ندامت اور احساسِ جرم میں آئیں بائیں شائیں کرتارہا۔ جب مَیں نے پوچھا کہ وہ کیا بات تھی، جس پر اُسے شک ہوا تو وہ پھٹ پڑی۔ ’’اُس پامسٹ نے میرا ہاتھ دیکھتے ہی کہا کہ میرے ہاتھ میں رات گئے دیواریں پھلانگنے کی نشانیاں ہیں۔ اب بھلا بتائیے، ایسی بھی کوئی نشانیاں ہوتی ہیں۔‘‘مَیں مطیع کو کوستا ہی رہ گیا۔
دھرم پورہ والے عامل کے پاس مَیں پہلی مرتبہ گیا تو اُس نے میرا حساب لگا کر بتایا کہ مجھ پر جادو ہوا ہے۔ اب مجھ ادنیٰ طالب علم پر جادو کی وجہ سمجھ نہ آتی تھی۔ اُس نے جادو کا توڑکرنے کے لیے معاوضہ طلب کیا۔ اگلی مرتبہ مَیں ایک دوست کو لے گیا تو عامل نے اُس کا حساب لگایا اور تردّد سے پہلے مجھے دیکھا، پھر دوست کو، اوردُہرا دیا کہ دوست پر جادو ہے۔ مَیں ایک تیسرے دوست کو ساتھ لے گیا۔ مَیں متجسّس تھا کہ دیکھوں، عامل اب کے کیا کہتا ہے۔ عامل مجھے تیسرے دوست کے ساتھ دیکھ کر گڑبڑا گیا اور اُس کا حساب لگا کر خاموش ہوگیا۔
مَیں نے استہزائیہ لہجے میں کہا’’اس پر بھی جادو ہوگا۔‘‘ عامل نے میری طرف دیکھا، نفی میں سرہلایا اور بولا۔ ’’اِس پر جادو نہیں، بلکہ نحوست کے سائے ہیں۔‘‘ مجھے خُوب معلوم تھاکہ عامل ایسی چند تراکیب ہی دہراتے ہیں تاوقتیکہ میری سراج سے ملاقات ہوگئی۔ کلفٹن، کراچی میں شری رتنیشور مندر واقع ہے۔ یہاں ہزاروں ہندو باقاعدگی سے آتے ہیں، وہاں سراج نامی شخص مندرکے برابر بیٹھتا ہے۔ لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں، وہ اُن کے ہاتھ گاڑی میں بیٹھ کر دیکھتا ہے۔
ایک مرتبہ میرےعزیزدوست کالم نگار، دانش ورجاوید چوہدری بیرونِ مُلک مقیم ہمارے ایک مشترکہ دوست کے ساتھ کراچی آئے ہوئے تھے۔ ہم اکٹھے کھانے پر گئے۔ وہاں باتوں باتوں میں سراج کا تذکرہ ہوا۔ بیرون مُلک مقیم دوست نے اُسے ہاتھ دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ سراج رات گئے ہی میسّر ہوتا تھا۔ عشائیے کے بعدہم سیدھے سراج کے پاس چلے گئے۔ دوست نے تنہائی میں سراج کو ہاتھ دکھایا اور بعدازاں پردیس لوٹ گئے۔ چند ماہ بعد بیرونِ ملک سے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ (جاری ہے)