• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’حسرت موہانی‘ وہ حق بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے

اصل نام سید فضل الحسن اورتخلص حسرت تھا۔ لیکن تخلص نے اتنی شہرت پائی کہ اصلی نام سے بہت کم لوگ واقف ہوئے۔ حسرت نے ایک شعر میں خود اس بات کا اظہار کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔

جب سے کہا عشق نے حسرت مجھے

کوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن

حسرت کا وطن قصبہ موہان ضلع انائو تھا۔ 1875ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرکے علی گڑھ گئے اور وہاں سے 1903ء میں بی اے پاس کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد رسالہ اُردوئے معلی نکالا۔ اس میں ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی ہوتے تھے۔ 1905ء میں انہوں نے آل انڈیا کانفرنس میں حصہ لیا اور اسی وقت سے وہ سودیشی تحریک کے ممبر بن گئے۔

1907ء میں حسرت کانگریس سے علیحدہ ہوگئے۔ 1908ء میں اُردوئے معلی میں حکومت کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کی پاداش میں قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ دو سال قید رہنے کے بعد 1910ء میں رہا ہوئے۔ پرچہ دوبارہ جاری کیا لیکن 1904ء میں گورنمنٹ نے پھر بندکردیا۔ مجبور ہو کر سودیشی مال کا ایک اسٹور قائم کیا۔ اسی زمانے میں جماعت احرار نے جنم لیا۔ مولانا حسرت موہانی اس کے ایک سرگرم کارکن تھے اسی وجہ سے رئیس الاحرار کہلائے چونکہ وہ آزادی کے بہت بڑے داعی تھے لہٰذا 1919ء میں پھرگرفتار ہوئے۔ ترک موالات کی تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے 1922ء میں تیسری مرتبہ دو سال کے لئے قید ہوئے۔

1935ء میں اردوئے معلی پھر جاری کیا۔ 1936ء میں مسلم لیگ کی نظم جدید سے وابستہ ہوگئے۔1845ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر یو پی اسمبلی اور ہندوستان کی دستورساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔تقسیم ہند کے بعد حسرت ہندوستان ہی میں رہ کر وہاں کے مسلمانوں کا سہارا بنے رہے۔ 1951ء میں فوت ہوگئے۔ ان کے نظریات عجیب و غریب تھے۔ ایک طرف وہ سوشلزم کے قائل تھے۔ دوسری جانب ان کی زندگی ایک مرد مومن کی زندگی تھی ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا ۔ وہ حق بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔

دورِ جدید کے غزل گو شعراء میں حسرت کا مقام سب سے اونچا ہے۔ ان کے کلام میں تغزل کی اتنی فراوانی ہے کہ اس کی بناء پر وہ رئیس المتغزلین مشہور ہیں۔ اُن کی تصانیف میں اپنے کلیات کے علا وہ دیوان غالب کی شرح بے حد مقبول ہوئی۔

ایک مرتبہ مولانا حسرت موہانی حیدرآباد دکن تشریف لے گئے۔ وہاں اپنے ایک دوست سے ملنے کیلئے گاڑی میں جا رہے تھے کہ راستہ میں مغرب کا وقت ہوگیا اور گاڑی چلتے چلتے رُک گئی۔ مولانا نے گاڑی بان سے دریافت کیا کہ گاڑی کیوں روک دی۔‘‘

گاڑی بان نے جواب دیا کہ ’’مولانا خندیل (قندیل) روشن کررہا ہوں۔ اس لیے گاڑی روکی ہے۔یہ سن کر مولانا نے کہا’’بہت قوت‘‘(خُوب) ضرور خندیل روشن کرو۔

……٭٭…٭٭…٭٭……

معَجُونِ مُرکب:مولانا حسرت موہانی سیاسی اور مذہبی اعتبار سے عجب معمونِ مرکب تھے۔ اُن کا خلوص، ان کی صداقت، جرأت ِ اظہار اور بلند کرداری کسی تعارف کی محتاج نہیں وہ کانگریس میں تھے تو گاندھی جی سے چار قدم آگے ہی تھے لیگ میں آئے تو حقوق مسلمین اور پاکستان اور آزادی وطن کے مسائل پر جناح صاحب سے لڑ پڑتے اور قائد اعظم اپنی ضد اپنے قائدانہ ٹھاٹھ کے باوجود حسرت سے خم کھاتے ان کے خلوص اور بزرگی کا بے حد احترام کرتے، حسرت ہمیشہ ہندوستان کی کامل آزادی کے علمبردار رہے۔

مسلمانوں کے حقوق کی حمایت میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے اور پاکستان کے حصوں کی کوششوں میں بھی برابرکے شریک تھے۔ دینی اعتبار سے نہایت پکے اور پابند شریعت مسلمان، طریقت کے شعبے میں پیکر صدق دصفا اور صاحب نسبت بزرگ،اقتصادی لحاظ سے کمیونزم کے ہمنوا جذبات عاشقی کے اعتبار سے نہایت رنگین مزاج غرض ان کے ذہن میں کئی خانے بنے ہوئے تھے ہر چیز اپنے اپنے خانے میں پڑی رہتی تھی دوسرے خانوں میں مداخلت نہ کرتی تھی۔

ایک دفعہ سالک صاحب نے ہنسی ہنسی میں کہا مولانا آپ کا نگریسی، لیگی صوفی، مولوی، عاشق، مزاج، کمیونسٹ ہیں ہنس کر کہنے لگے ایک دفعہ پھر کہنا کہ میں کیا کروں۔

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

٭…حسرت موہانی…٭

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو

پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی

دشوار ہے رندوں پر انکار کرم یکسر

اے ساقئ جاں پرور کچھ لطف و عنایت بھی

دل بسکہ ہے دیوانہ اس حسن گلابی کا

رنگیں ہے اسی رو سے شاید غم فرقت بھی

خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا دے گی

اے حسن حیاپرور شوخی بھی شرارت بھی

برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی

بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی

عشاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک

نازک اسی نسبت سے ہے کار محبت بھی

رکھتے ہیں مرے دل پر کیوں تہمت بیتابی

یاں نالۂ مضطر کی جب مجھ میں ہو قوت بھی

اے شوق کی بیباکی وہ کیا تیری خواہش تھی

جس پر انہیں غصہ ہے انکار بھی حیرت بھی

ہر چند ہے دل شیدا حریت کامل کا

منظور دعا لیکن ہے قید محبت بھی

ہیں شادؔ و صفیؔ شاعر یا شوقؔ و وفاؔ حسرتؔ

پھر ضامنؔ و محشرؔ ہیں اقبالؔ بھی وحشتؔ بھی

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی