• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوکرین: روسی فوجوں کے زیرحراست 5 برطانوی شہریوں کو رہائی مل گئی

لندن (پی اے) برطانوی وزیراعظم لز ٹرس نے بتایا ہے کہ سعودی عرب نے یوکرین اور روس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ کرایا ہے، جس کے تحت 10زیر حراست لوگوں کو رہائی مل گئی ہے، جن میں5برطانوی شہری ایڈن اسلن، جون ہارڈنگ اور شان پنر شامل ہیں۔ برطانوی شہریوں کی رہائی کی اس خبر سے روسی فوجیوں کے زیرحراست برطانوی شہریوں کے اہل خانہ کو اس کرب سے نجات مل گئی ہے، جس میں وہ ان کی حراست کے بعد سے دوچار تھے۔ رہائی پانے والے دیگر2شہریوں کے نام معلوم نہیں ہوسکے۔  معاہدے کے تحت یوکرین نے55روسی فوجیوں کو رہا کیا ہے، جن روس نواز یوکرین کے سیاستداں اولی گراک اور وکٹر میڈویچک شامل ہیں، اس کے بدلے میں روس نے 215 فوجیوں کو رہا کردیا ہے۔ اس حوالے سے جاری کی جانی والی تصاویر میں 3 زیرحراست برطانوی شہریوں ریاض ائرپورٹ پر سعودی حکام کے ایک گروپ کے ساتھ طیارے سے اترتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے زیر حراست برطانوی شہریوں کی فیملی اور دوستوں کو یہ خدشہ تھا کہ یہ لوگ ہلاک کردیئے جائیں گے۔ منگل کو سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کررہی تھیں کہ ان لوگوں کو سنائی جانے والی سزائے موت پر عمل کردیا گیا ہے۔ طیارے سے واپسی کے دوران بھیجی گئی ایک ویڈیو میں اسلن نے کہا تھا کہ ہم اب خطرے سے باہر ہیں اور اب اپنے گھر اور فیملی کے پاس واپس جا رہے ہیں۔ اسلن کا تعلق ناٹنگھم شائر سے ہے، انھیں اپریل میں پنر کے ساتھ یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریو پول میں لڑائی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ ان دونوں اور مراکش کے ایک شہری براہیم صدوم پر خود ساختہ جمہوریہ Donetsk پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ سندرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ہارڈنگ دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ مقدمہ چلائے جانے کے منتظر تھے۔ یہ تینوں برطانوی شہری اس سال فروری میں یوکرین کی جنگ کے آغاز پر یوکرین میں ہی تھے۔ سعودی پریس ایجنسی کی جاری کردہ تصویر میں براہیم صدوم کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اسلن کے حلقے کے رکن پارلیمنٹ رابرٹ جنرک نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی رہائی سے ان کی فیملی کی اندھیری رات کا خاتمہ ہوگیا ہے، یہ لوگ گرفتاری کے بعد کئی ماہ سے شدید ذہنی دبائو اور ٹارچر کا شکار تھے۔ جنرک نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کے بھی مشکور ہیں، سعودی کوششوں کے بغیر یہ معاملہ طول کھینچ سکتا تھا اور اسے حل ہونے میں کئی سال نہیں تو کئی مہینے لگ جاتے۔ وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے برطانوی شہریوں کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معاملہ صرف زیر حراست لوگوں کا نہیں ہے اور ہماری دعائیں Paul Urey کے ساتھ ہیں۔ سعوی عرب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہائی پانے والوں میں مراکش، امریکہ، سوئیڈن اور کروشیا کے شہری بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کو روس سے سعودی عرب منتقل کردیا گیا ہے اور اب انھیں ان کے متعلقہ ممالک بھیجنے کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے ان قیدیوں کی رہائی سے متعلق اچانک اعلان رہائی پانے والوں کی فیملیز سمیت بہت سوں کیلئے حیرت کا باعث تھی۔خیال کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی رہائی سعوی ولی عہد محمد بن سلمان کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے۔ سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات ہیں لیکن بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ روس کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔ سعودی ولی عہد 4 سال قبل جب G20 سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے بیونس آئرس گئے تھے تو مغربی ممالک کے رہنمائوں نے، جو انھیں سعوی صحافی جمال خشوگی کے قتل کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں، ان کے ساتھ انتہائی سرد مہری کا مظاہر ہ کیا تھا اور ان کا پرتپاک استقبال صرف ایک رہنما روس کے صدر پیوٹن نے کیا تھا۔ سعوی ولی عہد اس بات کو بھولے نہیں ہیں۔ وزیراعظم لز ٹرس نے قیدیوں کی رہائی کو ششوں پر یوکرین کے صد ر زیلنسکی اور اس میں معاونت پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ روس سیاسی مقاصد کیلئے جنگی قیدیوں سے سفاکانہ برتائو ختم کرے۔

یورپ سے سے مزید