ڈاکٹر رضوانہ انصاری، حیدر آباد
جنگل کے کنارے ایک بہت گھنا اور خوبصورت اخروٹ کا درخت تھا۔ یہ تو جانتے ہیں نا آپ کہ اخروٹ کتنا مفید پھل ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اس کی شکل انسانی دماغ سے ملتی ہے۔ یہ دماغ کو بہت طاقت دیتا ہے۔ ہاں تو بچو! اس اخروٹ کے درخت کے اوپر ایک گلہری کا چھوٹا سا پیارا سا گھر تھا اور اسی درخت کی جڑ میں ایک چوہا اپنا بل بنا کر رہتا تھا ۔گلہری سارا دن اپنے کاموں میں بہت مصروف رہتی تھی۔ ابھی سردیوں کا موسم دُور تھا ،مگرگلہری اس کے استقبال اور انتظام میں مصروف تھی۔ وہ درخت سے ایک اخروٹ کو توڑتی اور سب سے اونچی شاخ پر جاکر اخروٹ کو نیچے پھینکتی نیچے گرنے سےوہ ٹوٹ جاتا۔
وہ بھاگ کر نیچے آتی اور اسے چھلکے سے علیحدہ کرکے اپنے گھر میں رکھ آتی، یوں اخروٹ جمع کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اسی علاقے میں رہنے والی بھیڑوں سے اُون جمع کرکے سوئیٹر بھی بنتی اور درخت کے اوپر رہنے والے پرندوں کے جھڑ جانے والے نرم پروں سے اپنا ننھا سا کمبل بھی تیار کرتی رہتی۔ ادھر چوہے میاں سارا دن اپنے گھر کے باہر بیٹھے گانے گاتے رہتے۔ نا کھانے پینے کا ہوش نہ کپڑوں کی صفائی پر توجہ، کبھی بلی سے چھپ رہے ہیں کبھی دانہ چگتی چڑیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ بی گلہری دن میں کئی بار چوہے میاں کو کہتی بھیا سردیاں آنے والی ہیں کچھ انتظام کرلو، وقت ضائع نہ کرو۔ گیا وقت پھر واپس نہیں آتا۔ چوہےمیاں ،بی گلہری کی ایک نہ سنتے بلکہ اور تیز آواز میں گانے لگتے۔ ’’جب سردیاں آئیں گی تو دیکھا جائے گا۔‘‘
بس یوں ہی وقت گزرتا گیا اور سردیاں شروع ہوگئیں ایک شام شدید سردی تھی اور بہت تیز بارش بھی شروع ہوگئی۔ جنگل میں سارے جانور اور پرندے اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ تیز بارش ہوئی تو چوہے میاں کے گھر میں ہی پانی آنے لگا۔ سردی سے ان کے دانت بجنے لگے۔ سوئیٹر ان کے پاس تھا نہ موزے ٹوپی، بھوک بھی بہت شدید لگی تھی، وہ بس ایک کونے میں پڑے کپکپا رہے تھے۔
دوسری طرف بی گلہری نے اپنا نرم نرم گرم سوئیٹر پہنا ٹوپی پہنی اور اخروٹ کا کیک بنانے لگیں۔ کیک کی خوشبو ہر طرف پھیلنے لگی تو چوہے تک بھی پہنچی اس کی آنتیں بھوک سے سکڑ رہی تھیں۔ اسے سردی اور بھوک سے رونا آگیا ہمت کر کے اوپر درخت پر چڑھا اور بی گلہری کا دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے بی گلہری نے پوچھا کون ہے؟ تو آواز آئی مم۔مم ، چوہے سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔ گلہری نے آواز پہچان کر جلدی سے دروازہ کھولا ،سامنے چوہے میاں بھوک سے نڈھال اور سردی سے بدحال کھڑے نظر آئے اسےاندر کر دروازہ بند کیا، چوہے میاں کو ایک پرانا سوئیٹر دیا اور کمبل میں بٹھایا اور لذیز گرما گرم خوشبودار کیک کا ٹکڑا دیا۔
چوہے کی آنکھوں میں آنسو آگئے بولے،’’ بی گلہری تمہارا شکریہ‘‘۔ گلہری بولی،’’ میں تمہیں کتنا سمجھاتی تھی کہ سردیاں آنے والی ہیں انتظام کرلو۔ میرے بھائی ہمیں ہر مشکل سے بچنے کےلئے پہلے سے انتظام کرنا چاہئے اور وقت بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ چوہا شرمندہ بھی ہوا اور شکرگزار بھی اورآئندہ کےلئے اسے نصیحت بھی ہوگئی۔
جب سردیوں کا موسم ختم ہوگیا تو سارے جانوروں نے دیکھا کہ چوہے میاں وقت کی پابندی بھی کرتے اورکپڑے بھی صاف پہنتے اور گانے بھی گاتے ہیں، بلی کے ساتھ آنکھ مچولی بھی کھیلتے ہیں، مگر ساتھ ہی انہوں نے دیکھا کہ بی گلہری اخروٹ درخت کی اوپر والی شاخ سے نیچے گراتی ہیں تو چوہے میاں لپک کر اسے چھلکے سے علیحدہ کرکے گلہری کے گھر پہنچا دیتے ہیں، تاکہ دونوں مل کر آنے والی سردیوں کا انتظام کرسکیں۔