• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کینیڈا میں خالصتان پر ریفرنڈم کا دوسرا مرحلہ، ووٹنگ 6 نومبر کو ہوگی، بھارت کینیڈا تعلقات کشیدہ

لندن/ٹورنٹو (مرتضیٰ علی شاہ) کینیڈا میں خالصتان کے قیام کیلئے ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے میں 6 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ریفرنڈم کے اس دوسرے مرحلے کا اہتمام ان لوگوں کیلئے کیا گیا ہے، جو 18 ستمبر کو ہونے والے ریفرنڈم اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرسکے تھے جبکہ خالصتان کے قیام کیلئے سکھوں کی تنظیم سکھ فار جسٹس کی جانب سے ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے کے اعلان کے ساتھ ہی بھارت اور کینیڈا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سکھ فار جسٹس کا کہنا ہے کہ 18 ستمبر کو ریفرنڈم میں 110,000 سے زیادہ سکھوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا لیکن ووٹ دینے کا مقررہ شام 5 بجے کا وقت ختم ہوجانے کی وجہ سے قطاروں میں کھڑے کم وبیش 40000 سکھ اپنا ووٹ دینے کا حق استعمال نہیں کرسکے تھے۔ سکھ فار جسٹس کی جنرل کونسل کے رکن اور نیو یارک کے وکیل گرپت ونت سنگھ پنوں نے بتایا ہے کہ خالصتان پر ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے کا اہتمام سکھ کمیونٹی کے بے حد اصرار اور تمام سکھ تنظیموں کے اتفاق رائے کے بعد کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 18 ستمبر کو ریفرنڈم میں بڑی تعداد میں ووٹ دے کر کینیڈا کے سکھوں نے تاریخ رقم کردی ہے اور 6 نومبر کو بھی سکھ اسی جذبے کا مظاہرہ کریں گے۔ خالصتان پر ریفرنڈم کا دوسرا مرحلہ بھارت اور کینیڈا کے سفارتی تعلقات کیلئے ایک آزمائش ثابت ہوگا کیونکہ کینیڈا میں خالصتان پر ریفرنڈم کیلئے مہم شروع کئے جانے کے بعد ہی سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی جنگ شروع ہوچکی ہے اور برامپٹن میں ہونے والے پہلے ریفرنڈم کے بعد سے ہی دونوں ملک ایک دوسرے کے بارے میں سفر کی ہدایات جاری کررہے ہیں اور اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایات جاری کر رہے ہیں۔اونٹاریو کے شہر برامپٹن میں خالصتان پر ووٹنگ شروع ہونے سے قبل بھارت نے کینیڈا پر سفارتی دبائو ڈالتے ہوئے کینیڈا کو 3 سفارتی مراسلے بھجوائے تھے، جن میں کینیڈا سے ووٹنگ رکوانے کو کہا گیا تھا لیکن کینیڈا کی حکومت نے بھارت کو جواب دیا تھا کہ کینیڈا جنوبی ایشیائی ملک کی علاقائی یکجہتی پر یقین رکھتا ہے لیکن وہ سکھوں کو ایک جمہوری اور پرامن عمل سے نہیں روک سکتا، جس کے بعد دونوں ملکوں کی حکومتوں کی جانب سے اپنے شہریوں کیلئے سفر اور تحفظ سے متعلق ایڈوائز جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ 23 ستمبر کو بھارت کی جانب سے جاری کردہ سفری ایڈوائز اور ایک پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ کینیڈا میں نفرت انگیز جرائم، فرقہ ورانہ تشدد اور بھارت کے خلاف سرگرمیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ وزارت خارجہ اورکینیڈا میں ہمارے ہائی کمیشن اورقونصلیٹس جنرل نے یہ واقعات کینیڈا کے حکام کے سامنے اٹھائے ہیں اور ان جرائم کی تفتیش کر کے مناسب کارروائی کرنے کی درخواست کی ہے لیکن کینیڈا میں اب تک ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ بھارت نے 18 ستمبر کو برامپٹن میں خالصتان کے سوال پر ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹنگ پر کینیڈا کی حکومت کے سامنے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 23 ستمبر کو بھارت کی جانب سے اپنے طلبہ کیلئے جاری کردہ ایڈوائزری، جس میں بھارتی طلبہ سے کہا گیا تھا کہ کینیڈا خالصتان کے حامیوں اور بھارت مخالف سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے، کے صرف 4 دن کینیڈا کی حکومت نے ایک ایڈوائز جاری کی، جس میں کینیڈا کے شہریوں کوپاکستان سے ملنے والے بھارت کے شہر گجرات اورپنجاب میں بارودی سرنگوں کی موجودگی اور غیریقینی حفاظتی انتظام کے پاکستان سے ملنے تمام علاقوں میں سرحد کے قریب 10 کیلومیٹر تک کے علاقے کا سفر کرنے سے اجتناب برتنےکی ہدایت کی گئی تھی۔ کینیڈا کی حکومت نے 27 ستمبر کو یہ ایڈوائز اپنی ویب سائیٹ پر ڈال دی تھی، اس ایڈوائز میں کینیڈ ا کے شہریوں سے بھارت میں دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں سے چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس ایڈوائز میں کینیڈا کے شہریوں کو آسام اور منی پورکا بھی غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کرنے کو کہا گیا تھا۔

یورپ سے سے مزید