• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاتون جج کو دھمکی پر عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس خارج

اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج زیبا چوہدری کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کرنے پر عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کو ختم کرتے ہوئے نوٹس ڈسچارج کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں 5 ججز پر مشتمل لارجر بینچ نے کی۔

جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بینچ کا حصہ تھے۔

توہینِ عدالت کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔

عمران خان کے وکیل حامد خان، شاہ محمود قریشی اور دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی عدالت پہنچے۔

’’عمران خان کے کنڈکٹ سے بھی مطمئن ہیں‘‘

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بیانِ حلفی ہم نے دیکھ لیا ہے، عمران خان نے نیک نیتی ثابت کی اور معافی مانگنے گئے، ہم توہینِ عدالت کا نوٹس ڈسچارج کر کے کارروائی ختم کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ لارجر بینچ کا متفقہ فیصلہ ہے، ہم عمران خان کے کنڈکٹ سے بھی مطمئن ہیں۔

عدالتی معاون نے اعتراض اٹھا دیا

اس موقع پر عدالتی معاون ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے عدالت میں اعتراض اٹھایا کہ عمران خان نے بیانِ حلفی میں غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔

جس پر چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ اپنے تحریری معروضات جمع کرا دیں تاکہ ان معروضات کو اپنے تحریری فیصلے کا حصہ بنا سکیں۔

توہینِ عدالت کی کارروائی ختم

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی۔

جس کے بعد سابق وزیرِ اعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ سے روانہ ہو گئے۔

عمران پر فردِ جرم کیلئے آج کی تاریخ مقرر تھی

عدالت نے آج عمران خان پر فردِ جرم عائد کرنے کی تاریخ بھی مقرر کر رکھی تھی۔

گزشتہ سماعت پر معافی کے بیان کو بینچ نے تسلی بخش قرار دیا تھا۔

نئے بیانِ حلفی میں عمران کا غیر مشروط معافی سے گریز

نئے بیانِ حلفی میں عمران خان نے غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کیا تھا۔

عمران خان نے گزشتہ سماعت پر دیے گئے بیان پر مکمل عمل درآمد اور مستقبل میں ایسے بیانات سے گریز کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی تھی۔

سیکیورٹی کے سخت انتظامات

کیس کی سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

وکلاء، لاء افسران اور صحافیوں کی کمرۂ عدالت میں انٹری پاس سے مشروط تھی۔

رجسٹرار آفس کی جانب سے محدود پیمانے پر انٹری پاس جاری کیے گئے۔

قومی خبریں سے مزید