اسلام آباد ( رانا غلام قادر ) ملکی سیاست کا محور اب آڈیو لیکس بن گئی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اب آڈیو لیکس کی بنیاد پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس ایشو پر دونوں آمنے سامنے آگئے ہیں لیکن بادی النظر میں حکومت کا پلڑہ بھاری ہے اور عمران خان کیلئے اس کیس میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ‘ رانا ثناء اللہ‘ اعظم نذیر تارڑ ‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ ایاز صادق اور راجہ پرویز اشرف سے انکوائری کیلئے کمیشن بنایا جائے۔
دوسری جانب وفاقی کابینہ نے سابق وزیراعظم عمران خان، ان کے ساتھی وزرا اور سابق سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان کیخلاف قانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری دیدی ہے۔
کابینہ نے ʼڈپلومیٹک سائفر سے متعلق آڈیو لیک پر ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات اور قانونی کارروائی کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ نے 30 ستمبر کو عمران خان کی سائفر سے متعلق آڈیو لیک پر کابینہ کمیٹی تشکیل دی تھی۔
کابینہ کمیٹی نے ʼسرکولیشن کے ذریعے کابینہ کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دی ہے۔ کابینہ کمیٹی نے قرار دیا ہے یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس کے قومی مفادات پر سنگین مضر اثرات ہیں۔ انکوائری کا ٹاسک ایف آئی اے کو دیا گیا ہے۔
ڈپلومیٹک سائفر سے متعلق عمران خان کی پہلی آڈیو 28 ستمبر کو منظر عام پر آئی تھی۔ ڈپلومیٹک سائفر سے متعلق عمران خان کی دوسری آڈیو 30ستمبر کو منظر عام پر آئی۔ آڈیو لیکس میں عمران خان، اعظم خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سائفر تبدیل کرنے کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں۔
عمران خان نے ایک نجی کو انٹر ویو میں یہ اعتراف کرلیا ہے کہ سائفر کی ایک کاپی میرے پاس تھی پتہ نہیں کہاں گم ہوگیا۔ یہ اعتراف کرکے وہ اپنے ہی بنے جال میں پھنس گئے ہیں۔
یہ ایک سنگین معاملہ ہے جس میں عمران خان پھنس چکے ہیں اور ان کی اس کیس میں گرفتاری بھی متوقع ہے کیونکہ وفاقی حکومت نے پالیسی کے طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اب عمران خان سے کوئی رعایت یا نرمی نہیں کی جائے گی۔