• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خاتم الانبیاء،سیّدالمرسلین حضرت محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ’’رحمۃ للعالمین ‘‘بناکر دنیا میں بھیجا، یہ لقب اور شرف ایسا ہے جو کسی اور کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ رحمۃللعالمین وہی عظیم ترین شخصیت قرار پائے گی، جس نے انسانیت کو توحید کے نور سے منور کرنے ،دنیا کو امن و سلامتی کادرس دینے کے ساتھ ساتھ امنِ عالم کے قیام و استحکام کے لیے ساری زندگی صرف کی ہو، جس نے بندوں کواللہ سے ملایا ہو، جس نے غریبی و امیری، جوانی و پیری، امن اور جنگ، رنج و راحت، حزن و مسرت، ہر موقع اور مقام پر انسانیت کی راہ نمائی کی ہو، جس کی تعلیم نے تمام افرادِ بشر کو بھائی بھائی قرار دیا ہو، جانی دُشمنوں کو پروانۂ اَمن و امان عطا کیا ہو، غیرمسلم ذمیوں کو جان و مال، عزت و آبرو اور دیگر حقوقِ انسانی کی حفاظت میں مسلمانوں کے ہم پلّہ اور مساوی قرار دیا ہو۔

رحمۃ للعالمینﷺ وہی ہے جس نے تمام بنی نوع انسان کو انسانی، قومی، قانونی اور مالی مساوات کا درس دیا ہو، جس نے یہودیوں، عیسائیوں، منافقین اور تمام مخالفین کے ساتھ بے نظیر رواداری اور عدل و انصاف کا معاملہ کیا ہو اور ان کے ہر طرح کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی ہو، جس نے انسانوں کے تمام طبقات، امیر و غریب، عوام و خواص، بوڑھوں، بچوں، جوانوں، مردوں عورتوں، نیک و بد، محنت کشوں، مزدوروں، غلاموں، کنیزوں کے ساتھ رواداری و غم گساری، مساوات و ہم دردی کے جذبات سے معاشرے کو آراستہ کیا ہو۔

سرورِ عالم ﷺکی حیاتِ طیبہ رواداری، مساوات و ہمدردی اور غم خواری و غم گساری، عفو درگزر اور رحم و کرم کے واقعات سے معمور نظر آتی ہے۔ عام انسانوں کی خدمت ان کی حاجت روائی اور اَشک شوئی سے سرکارِ دوعالمﷺ کو بڑی دل چسپی رہی، خدمتِ خلق چوں کہ دعوت کا راستہ ہموار کرتی ہے، دلوں کے بند دروازے کھولتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبوت سے پہلے نبی اکرمﷺ کو خدمت خلق کی تربیت دی۔خدمتِ خلق کے دائرے میں سرکارِ دو عالمﷺ نے رشتے داروں کا ہمیشہ خیال رکھا، ان کے ساتھ حسبِ مراتب معاملہ کیا، ان کے حقوق کی ادائیگی میں پیش پیش رہے، یتیموں، بیوائوں اور بے نوائوں کی خبرگیری کی اور ان کی امداد فرمائی،بے روزگاروں کی مالی مدد اور مظلوموں، مصیبت زدہ لوگوں کی دست گیری فرمائی اور نبوت کے ساتھ سرفراز کیے جانے سے پہلے بھی مکہ معظمہ میں امن و امان کے قیام کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں آپﷺ برابر شریک رہے۔

محسنِ انسانیت، حضرت محمدﷺ کی نبوت و رسالت کا امتیاز یہ ہے کہ رحمن و رحیم پروردگار نے آپ ﷺکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمایا۔ اس حوالے سے ارشادِ ربانی ہے:: اور ہم نے (اے رسولﷺ) آپ کو تمام جہانوں کے لیے (سراپا) رحمت بناکر ہی بھیجا ہے۔ (سورۃ الانبیاء 105)

قرآن کریم کی یہ آیتِ مبارکہ قرآنِ ناطق رحمۃ للعالمین ﷺ کی شانِ رحمت، آپﷺ کے خصائل و شمائل اور اخلاق کریمانہ کا جلی عنوان ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ عزوجل کے تمام انبیاء ومرسلین ’’رحمت‘‘ تھے، مگر ’’رحمۃ للعالمین‘‘ نہیں تھے۔ ان کی شانِ رحمت اپنی قوم، اپنے علاقے، اپنے دور اور اپنے زمانے تک محدود تھی، جب کہ رحمتِ مجسم ، محسنِ عالم حضرت محمد ﷺکی رحمت و شفقت کا دائرہ ہر عہد، ہر زمانے، ہر قوم، اپنے پرائے، جملہ کائنات اور جملہ مخلوقات یہاں تک کہ تمام جہانوں اور دنیا و آخرت کو شامل ہے۔

رحمۃ للعالمین ﷺکی صفتِ رحمت اور آپﷺ کی شانِ رحمت کی تجلّی عام ہے۔ رحمت کے اس خزانے اور امت کے غم خوار کے دربار میں دوست، دشمن، اپنا پرایا، عورت، مرد، بوڑھے بچّے، کافر، مسلم، آقا و غلام، انسان ،حیوان، کائنات اور تمام جہانوں کا ذرّہ ذرّہ ہر ایک صنف ہستی برابر کی حصّے دار ہے۔ آپﷺ کی شانِ رحمت تمام عالمین، تمام جہانوں اور ہر عہد کو محیط ہے۔

سید المرسلین، رحمۃ لّلعالمین حضرت محمدﷺ کی سیرت طیبہ میں ’’فتح مکہ‘‘ ایسا تاریخ ساز واقعہ ہے کہ جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ کفار و مشرکین نے مکہ مکرمہ میں وہ کون سا ظلم تھا جو سرکارِ دوعالمﷺ اور صحابۂ کرامؓ کے ساتھ روا نہ رکھا ہو، آپﷺ کوجسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپﷺ پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی، آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپﷺ کا گلا گھونٹا گیا، نماز کی حالت میں آپﷺ پر اُونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی، آپﷺ کے قتل کے منصوبے تیار کیے گئے، تین سال تک شعب ابی طالب میں آپﷺ کو محصور رکھا گیا، جس میں ببول کے پتے کھا کر گزارا کرنے کی نوبت آئی، طائف میں آپ ﷺکو سخت اذیت پہنچائی گئی۔ 

لوگوں نے آپﷺ کو اتنا زدوکوب کیا کہ آپﷺ کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے، آپﷺ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، آپﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون و اطمینان سے رہنے نہیں دیا گیا، اور طرح طرح کی سازشیں جاری رکھی گئیں، یہود کے ساتھ مل کر رحمتِ عالمﷺ اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مہم چھیڑ دی گئی، فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آ رہی تھی، انہیں خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے گا، سرکارِ دوعالمﷺ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا: اے قریش کے لوگو! تمہیں کیا توقع ہے، اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟انہوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی اُمید رکھتے ہیں، آپﷺ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں، جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔ (زادالمعاد، ج: 1ص: 424)

عفو و در گزر، جود و کرم کا جو بے مثال مظاہرہ رحمت عالمﷺ نے فرمایا، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس کی بلندی، اس کی پاکیزگی اور اس کی عظمت، عدیم المثال ہے۔ کسی باد شاہ، کسی سیاسی راہنما، کسی فوجی جرنیل نے اس قسم کے کریمانہ اخلاق کا کبھی بھی مظاہرہ نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبیﷺ کے سوا کسی کے بس کا روگ نہیں کہ ان حالات میں ایسی عالی ظرفی کا مظاہرہ کرسکے۔ وہ نبی مرسل، جس کی رحمت، اللہ کی رحمت، جس کی حکمت، اللہ کی حکمت اور جس کا عفو و در گزر ،اللہ تعالیٰ کی شان عفو و در گزر کا آئینہ دار ہے۔ 

رسول اللہ ﷺنے رحمت وحکمت سے لبریز جن کلمات سے اپنے دشمنوں کو عفو و درگزر کا مژدہ سنایا، یہ مژدۂ جاں فزا سن کر ان پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ گویا انہیں قبروں سے زندہ کرکے دوبارہ اٹھایا گیا ہے۔ وہ اس شان رحمۃ لّلعالمینی کو دیکھ کر جوق در جوق آگے بڑھ کر حضور اکرمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ فاتح اعظمﷺ نے اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کے سامنے اس عظیم فتح کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا،اس میں دنیاکے تمام فاتحوں کے لیے رشد و ہدایت کا وہ دل کش درس ہے، جس سے ہر ایک مستفید ہوسکتا ہے۔

علامہ شبلی نعمانی رحمتِ دو عالم، حضرت محمد ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے ان واقعات کو نقل کرنے کے بعد آپﷺ کی شان رحمت اور رحمۃ للعالمینی کے متعلق لکھتے ہیں ’’حضور انور ﷺ کی ذات پاک تمام دنیا کے لیے رحمت بن کر آئی تھی، حضرت مسیحؑ نے کہا تھا کہ ’’میں امن کا شہزادہ ہوں‘‘، لیکن امن و سلامتی کے شہنشاہ اعظم حضرت محمد ﷺ کو خدا وند ازل ہی نے خطاب کیا!’’وما ارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعالمین‘‘

(محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ آپ ﷺکے خزانۂ رحمت میں دوست و دشمن، کافر و مسلم، بوڑھے بچے، عورت مرد، آقا و غلام، انسان و حیوان ہر ایک صنف ہستی برابر کی حصے دار تھی۔ آپﷺ نے فرمایا! میں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔ آپ ﷺنے دنیا کو پیغام دیا! ’’ایک دوسرے سے بغض و حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، اور اے خدا کے بندو! سب آپس میں بھائی بھائی بن جائو۔‘‘

ارشاد ہوتا ہے! گھر سے بے گھر کرنے والوں، تلواریں سونت کر مقابل آنے والوں، علم برداران اسلام کو اذیت دینے والوں اور قتل کی سازش کرنے والوں کو میں نے معاف کیا۔ آج تمہارے لیے کوئی سرزنش نہیں۔ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں۔ فاتح مکہ کی اس شان رحمت پر ملائکہ نے درود و نعت کے ترانے بلند کیے اورکائنات ارض و سما کا ذرہ ذرہ پکار اٹھا ’’وماارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعالمین‘‘۔

رسول اللہﷺ کی یہ بے مثال تعلیمات آپﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے اور شانِ رحمت کا عظیم مظہر ہیں۔