نواب زادہ، لیاقت علی خان جنوبی ایشیا کے اُن مسلمان قومی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک نئی مملکت کا خواب دیکھا اور پھر اس کے حصول و قیام کے لیے سرگرم جدوجہد کرکے اپنے خواب کو حقیقت کا رُوپ دیا۔ لیاقت علی خان نے نئے مُلک کی تعمیر و ترقّی کے لیے بے مثال جدوجہد کی اور راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دُور کرکے اسے استحکام دینے میں اپنا منفرد و مثالی کردار بھی ادا کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالا، تو اُس مشکل ترین وقت میں بھی عنانِ حکومت کے تمام تقاضے اپنی بے پناہ عُمدہ صلاحیتوں کے طفیل کام یابی سے نبھاتے رہے۔اُنھوں نے اپنی بھرپور جدوجہد سے ایک خاموش اور پُرعزم رہنما ہونے کی عظیم مثال پیش کی۔
انھیں ابتدائے شعور ہی سے قومی و سیاسی معاملات میں دل چسپی رہی اور اُس وقت سے، جب اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان میں ایگزیٹر کالج، آکسفورڈ میں مقیم تھے، ہندوستان کی مسلم سیاست میں دِل چسپی لینے لگے تھے۔1921ء میں اسی کالج سے وکالت کے امتحان میں کام یاب ہوئے تھے۔وہاں جنوبی ایشیا کے طلبہ نے ایک ہندوستانی مجلس تشکیل دی تھی، جس کے تحت ہندوستان کی ترقّی اور سیاست سے متعلق معاملات کی انجام دہی پر خاصے بحث مباحثے ہوتے۔
وہ اس مجلس کے سرگرم رکن تھے۔اعلیٰ تعلیم کی تکمیل پر ہندوستان واپس آئے، تو یہاں کی سیاست میں عملی حصّہ لینا شروع کردیا۔1926ء میں اپنے صوبے کی ’’مجلسِ قانون ساز‘‘ کے رُکن منتخب ہوئے اور پھر مسلسل جدوجہد اور اپنے خلوص و جذبے کی وجہ سے مستقل اس نشست پر منتخب ہوتے رہے۔ اعلیٰ تعلیم و قابلیت کی وجہ سے انھیں برطانوی حکومت کی جانب سے ایک اعلیٰ ملازمت کی پیش کش ہوئی، لیکن انھوں نے نوکری کی بجائے وکالت کو ترجیح دی۔
اُن دنوں مسلم لیگ کچھ زیادہ مضبوط اور فعال جماعت نہیں تھی۔ عام لوگ انڈین نیشنل کانگریس کے پُرفریب نعروں سے متاثر تھے، لیکن اُنھوں نے کانگریس کا کوئی اثر قبول نہ کیا اور اس سے دُور ہی رہے۔ یوں ان کی سیاست ہمیشہ ہندو سیاست سے دُور یا اس کے متوازی رہی۔ ان کا رجحان ابتدا ہی سے مسلم لیگ کی جانب تھا۔1923ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور پھر تنظیمی سرگرمیوں میں بھرپور حصّہ لینا شروع کردیا۔ کم عُمری میں اپنے صوبے سے’’مجلسِ قانون ساز‘‘ کے رُکن منتخب ہوئے، جس پر قائدِ اعظم، محمّد علی جناح نے انھیں مبارک باد دی۔
تاہم، انھوں نے کم عُمری کے باوجود اپنے فرائض اور ذمّے داریاں نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیں۔اِسی کارکردگی کی بنیاد پر صوبائی کاؤنسل کی نائب صدارت کے لیے بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ بعدازاں، مُلکی اور قومی سیاست میں ان کا کردار نمایاں ہوتا چلا گیا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان بھی دیگر مسلمان رہنماؤں کی طرح’’نہرو رپورٹ‘‘ کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔ اِس ایشو پر ہونے والی’’ کُل جماعتی کانفرنس‘‘ میں مسلم لیگ کی نمایندگی کی کہ قائدِ اعظم نے انھیں مجلسِ قائمہ کا رُکن بنایا تھا۔
جب گول میز کانفرنس کے بعد قائدِ اعظم محمّد علی جناح نے لندن میں سکونت اختیار کرلی تھی، تو لیاقت علی خان اُن رہنماؤں میں شامل تھے، جنھوں نے قائدِ اعظم کو ہندوستانی سیاست میں واپس لانے کی کام یاب کوشش کی۔ قائدِ اعظم کی انگلستان سے واپسی کے بعد مسلم لیگ کی تشکیلِ نو ہوئی اور وہ ایک مقبول و منظّم جماعت بن گئی، تو اس اہم مرحلے پر نواب زادہ، لیاقت علی خان اس کے سیکریٹری نام زَد ہوئے۔ گویا، وہ اب قائدِ اعظم کے دستِ راست اور ان کے نائب تھے۔ یہ 1946ء کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ وہ قیامِ پاکستان تک مسلم لیگ کے سیکریٹری کے عُہدے پر فائز رہے اور ہر موقعے پر اپنی صلاحیتوں اور لیاقت کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے بروئے کار لاتے رہے۔
عبوری حکومت کے قیام کے زمانے میں لیاقت علی خان مسلم لیگ کی نشست پر وزیرِ خزانہ نام زَد ہوئے اور متحدہ ہندوستان کا آخری بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ کو ہندوستان کی تقسیم کا ایک بڑا سبب بھی گردانا جاتا ہے کہ اُنھوں نے ہندوؤں اور انگریزوں کی توقّع کے برخلاف بجٹ کچھ اس طرح ترتیب دیا تھا کہ اس کی ضرب سرمایہ داروں اور مہاجنوں پر پڑتی تھی، جو زیادہ تر ہندو تھے۔ کانگریس اور ہندو رہنما اس صُورتِ حال سے خاصے پریشان، شدید مضطرب ہوئے۔ سو، چند ہی ہفتوں میں بعض ہندو رہنما بھی مُلکی تقسیم اور مسلمانوں کی علیٰحدگی ضروری سمجھنے لگے۔
اُس وقت کانگریس میں اُس طبقۂ فکر کو خاصی اہمیت حاصل تھی، جو اشتراکی رجحانات کا حامی تھا، لیکن اس عوامی بجٹ پر احتجاج سے ایک طرف اشتراکیت کے پُرفریب نعروں کی حقیقت نمایاں ہوئی، تو دوسری طرف، مسلمانوں میں کانگریس کی ساکھ کو بھی خاصا نقصان پہنچا۔ یہ ایک دشوار مرحلہ تھا، جس میں لیاقت علی خان کی دُور اندیشی اور ذہانت کے سبب مسلمانوں اور مسلم لیگ کو کام یابی میّسر آئی۔ بلاشبہ، پاکستان کا قیام جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی اور تاریخی کام یابی تھی کہ عالمِ اسلام میں اِس طرح کی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔
مسلمانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان قائم تو ہوگیا، لیکن آغاز ہی سے متعدّد مشکلات کا سامنا رہا، جو قائدِ اعظم کی بصیرت اور دانش و حکمت کے سبب کسی حد تک سہولتوں میں ڈھلتی رہیں۔ گرچہ قائدِ اعظم کے انتقال تک مُلک کو یک گونہ استحکام میّسر آگیا، لیکن اُن کے بعد مشکلات و مسائل میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایسے میں لیاقت علی خان ہی کی بصیرت اور اَن تھک جدوجہد نے جیسے تیسے مُلک کو استحکام و ترقّی کی جانب گام زن کیا۔
لیاقت علی خان قیامِ پاکستان کے اگلے ہی روز سے وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہوگئے تھے اور16 اکتوبر 1951ء تک اسی عُہدے پر کام کرتے رہے۔ اُنھوں نے اس ابتدائی اور مشکل وقت میں وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ دفاع اور داخلہ کے قلم دان بھی سنبھالے اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک یہ ذمّے داریاں کام یابی سے انجام دیں۔اپنی شہادت16 اکتوبر 1951ء کے بعد سے وہ عرفِ عام میں’’شہیدِ ملّت‘‘ کے لقب سے معروف ہوئے، جب کہ وہ ’’قائدِ ملّت‘‘ کے خطاب سے بھی سرفراز تھے۔
قائدِ ملّت، لیاقت علی خان نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کے عالمی مفادات کے پیشِ نظر امریکی حکمتِ عملی کے تحت روس کی مخالفت میں قائم ہونے والے مغربی بلاک کی بجائے مقامی مشرقی بلاک میں شمولیت اختیار کی اور بھارت کے مقابلے میں کشمیر کی جنگِ آزادی کی بھرپور حمایت کی۔ ان کی شہادت کے پسِ پُشت ایک حقیقت یہ بھی نظر آتی ہے کہ وہ اسی تنازعے کا شکار ہوئے۔
وہ مغربی طرزِ جمہوریت کی بجائے اسلامی طرزِ جمہوریت کو ترجیح دیتے تھے، جو مغرب کو کسی طور گوارہ نہ تھی۔ ان کی شہادت کے نتیجے میں مُلک میں آئین سازی کا کام کئی برس پیچھے ضرور چلا گیا، لیکن قائدِ ملّت نے اس ضمن میں پہلے ہی بہت سی کام یابیاں قوم کے سپرد کردی تھیں اور مُلک و قوم کو وہ کچھ دے دیا تھا، جو ان سے ممکن ہوسکا۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!