• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کھیلوں کی کشش اور تماشائی سہولتوں سے محروم کیوں ؟

کھلاڑی اگر ہیرو ہیں تو تماشائی کسی بھی کھیل کی جان ہوتے ہیں، اسٹیڈیمز اور جمنازیم میں ان کی موجودگی ہی کھیل کی کشش ہوتی ہے، نعرے بازی، تالیاں، سیٹیوں کی آواز، رنگ برنگ پوسٹرز سے ہی کھیل کی رنگیاں عروج پر دکھائی دیتی ہے، کھیل کے حوالے سے پاکستانی شائقین زندہ دل ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر دور میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے میدان کا رخ کیا، ملک میں حالات کیسے بھی ہو عالمی مقابلوں کے دوران تماشائی بھر پور انداز میں اسٹیڈیم پہنچ کر کھلاڑیوں کی کار کردگی پر داد دینے میں مصروف نظر آتے تھے۔ 

کراچی میں ایک زمانے میں جب حالات حد درجہ خراب تھے، کھیل کے میدان اور اسٹیڈیمز کی رونقیں کبھی کم نہیں ہوئی،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی عوام کھیلوں کے دلداہ ہیں انہوں نے ہر دور میں کھیل اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی، دنیا بھر کے کھلاڑی ان کی اسپورٹس مین اسپرٹ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے، سری لنکا کر کٹ ٹیم کی بس پر لاہور میں ہونے والے حملے کے بعد جب انٹر نیشنل ٹیموں نے پاکستان میں خوف کے باعث پاکستان آنے سے انکارکیا اور کئی سال تک پاکستان میں بین الاقوامی مقابلوں کی بندش کی وجہ سے کھیلوں کی سر گرمیاں بند رہی تو پاکستانی شائقین کی مایوسی بھی قابل دید رہی، انہوں نے ٹی وی اسکرین پر مقابلوں کو دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ 

پاکستان کر کٹ بورڈ نے جب پی ایس ایل متحدہ عرب امارات میں شروع کی تو پاکستانی شائقین کی ایک بڑی صاحب ثروت تعداد متحدہ عرب امارات جاکر پی ایس ایل سے لطف اندوز ہوئی، اس کے بعد جب پی ایس ایل کے چند میچز پاکستان میں ہونے لگے تو کر کٹ کے مداحوں نے جس گرم جوشی سے ان میچوں کو دیکھا، ان کے پر امن انداز نے کھلاڑیوں کے دل جیت لئے، پاکستان سپر کر کٹ لیگ کی آمد کے ساتھ جس طرح ملک کا ایک اچھا امیج دنیا بھر میں گیا اس نے پاکستان کے حوالے سے عالمی سطح پر صورت حال کو تبدیل کرنا شروع کردیا، تماشائیوں کی جانب سے دئیے گئے اس مثبت پیغام سے دیگر کھیلوں کی ٹیموں نے بھی پاکستان کا رخ کیا۔ 

ملک کے مختلف شہروں میں اسکواش، ہاکی، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس، ٹینس ، والی بال، پولو کے مقابلے بھی ہونے لگے، پی ایس ایل کے تمام میچز پاکستان میں کراچی، لاہور ، ملتان میں ہوئے، خواتین کر کٹ کی غیر ملکی ٹیموں کی کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ میچز کھیل کر اور یہاں موجود سہولتوں، کھانوں اور سیکیورٹی پر جس خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا اس نے عالمی اور ایشیائی سطح پر پاکستان کے کیس کو مضبوط سے مضبوط تر بنادیا، کر کٹ کے میدان میں غیر ملکی کھلاڑیوں نے بڑی تعداد میں پی ایس ایل میں حصہ لیا۔ 

نیوزی لینڈ، اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کیا، آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان آئی، ہاکی فیڈریشن کے عہدے داروں کی نااہلی کی وجہ سے کئی عرصے سے کوئی غیر ملکی ٹیم پاکستان نہ آسکی، پاکستان سپر ہاکی لیگ کا آغاز نہ ہوسکا، مگر انگلینڈ کے خلاف حالیہ سیریز میں کراچی کے نیشنل اور لاہور کے قذافی اسٹیڈیمز میں ہونے والے سات میچوں کے دوران جس طرح لاکھوں تماشائیوں نے تکالیف اور مشکلات کے باوجود اسٹیڈیم کا رخ اور پر امن انداز میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرکے نئی مثال اور کھلاڑیوں کے دل جیت لئے، تماشائیوں کی دل چسپی قابل دید نظر آئی، چاروں میچوں میں نیشنل اسٹیڈیم مکمل طور پر شائقین سے بھرا ہوا دکھائی دیا۔ 

ایک لاکھ سے زائد تماشائیوں نے اسٹیڈیم کا رخ کیا اور وہ پاکستانی اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے کھیل سے لطف اندوز ہو ئے، اسی قسم کی صورت حال قذافی اسٹیڈیم میں بھی دکھائی دی ،مگر حیرت انگیز طور پر اسٹیڈیم آنے والے تماشائیوں کو وہ سہولت فراہم نہیں کی گئی جس کے وہ حقدار تھے، انکلوژر میں تماشائیوں کے لئے کھانے پینے کے جو اسٹال لگائے گئے تھے ان پر اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں، پانی کی چھوٹی بوتل 100اور بڑی بوتل 150روپے میں فروخت کی گئی، بند کباب 100سے 150روپے، بریانی کے باکس200 سے250 روپے میں فروخت کئے گئے۔

تماشائیوں کو صرف بسکٹ اور چسپس کے پیکٹ لانے کی اجازت دی گئی تھی مگر وہ بھی ایک سے زیادہ نہیں، تماشائیوں کو پار کنگ ایریا سے ان کے انکلوژر کے گیٹ تک لانے اور واپس جانے کے لئے شٹل سروس کی سہولت بھی فراہم نہیں کی گئی۔ تماشائیوں کی دل چسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کہ ملک کے ان دونوں بڑے اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کیا جائے، اسے دیگر ملکوں کے اسٹیڈیمز کی طرح تماشائیوں کے لئے گنجائش بڑھانے کے لئے اسے دو منزلہ کیا جائے، میچوں کے دوران تماشائیوں کو بہتر سہولت بھی فراہم کی جائے، ٹکٹوں کے حصول کے طریقہ کار کو آسان اور سہل بنایا جائے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید