• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورہ امریکہ نے یہ امید پیدا کردی ہے کہ دونوں ممالک آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرلیں گے،امریکہ میں جس شاندار طریقے سے جنرل باجوہ کو پروٹول دیا گیا ہے اوربلاول کی جو ملاقاتیں ہوئی ہیں، اس سے حالات میں بہتری کی امید پیدا ہوگئی ہے اور پاکستانی روپے کی قدر پر بھی خوشگوار اثرپڑا ہے۔میرے کالم کے رسپانس میں واٹس ایپ پرمختلف دوستوں اور خیرخواہوں نے اپنا فیڈبیک دیا، انہوں نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں بہتری لانے کیلئے جنرل باجوہ کا قائدانہ کردار ہے ،بالخصوص انکا متعارف کردہ باجوہ ڈاکٹرائن وقت کے ساتھ موثر ثابت ہواہے، عالمی اداروں کے مطابق باجوہ ڈاکٹرائن کی بدولت پاکستان نے بیرونی دباؤ کو بخوبی ہینڈل کیا ہے، ایک زمانہ تھا کہ پاکستان سے ڈومور کا تقاضاکیا جاتا تھا اور اب عالمی برادری پاکستان کے موقف کی قائل نظر آتی ہے، جرمنی کی طرف سے کشمیر ایشو پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرنا اہم پیش رفت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کا آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک سمیت بیشترعالمی اداروں پر اثر و رسوخ ہے، امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نارمل رکھنا دنیا کے ہر ملک کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے،ہم اپنے آس پاس نظر ڈالیں تو امریکہ مخالف ممالک اپنی کوششوں کے باوجود ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کی پوزیشن میں نہیں آسکے ہیں، جنرل باجوہ کے اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کا ماحول پروان چڑھا ہے۔امریکی دورے کے دوران انکا ایک اہم بیان میڈیا کی زینت بنا تھا کہ وہ مزید ایکسٹینشن کے خواہاں نہیں اور اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹارڈمنٹ لے لیں گے۔میں ذاتی طور پر ایکسٹینشن کے حق میں نہیں ہوں لیکن میری علاقائی صورتحال پر گہری نظر ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان ایک نازک دوراہے سے گزر رہا ہے، افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے بعد کے حالات، پڑوس میں امڈتے جنگ کے بادل، عالمی طاقتوں کے مابین کشمکش ، ان حالات میں بھارت اور روس کے درمیان نزدیکیاں بڑھ رہی ہیں، میری نظر میںامریکہ کو بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات پسند نہیں، امریکہ پاکستان کی اہمیت اچھی طرح سمجھتا ہے اور ہمیشہ سے پاکستان کو ترجیح دیتا آیا ہے،تاہم امریکہ کا پاکستان کی جانب جھکاؤہم سے درست فیصلے لینے کا تقاضہ کرتاہے کیونکہ صحیح فیصلے ہی ملک و قوم کو آگے لیکر جاسکتے ہیں،ہمیںماضی کے برعکس امریکہ سے فائدہ لینا چاہیے، تاہم اس کیلئے رائٹ پرسن ایٹ رائٹ جاب کی پالیسی اپنانابہت ضروری ہے۔ پاکستان کیلئے مستقبل قریب میں مختلف چیلنج درپیش ہوسکتے ہیں، ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے ضروری ہے کہ فی الحال آئندہ ایک سال تک عسکری کمان میں تبدیلی نہ لائی جائے، جنرل باجوہ کی موجودگی نہ صرف ملکی استحکام بلکہ امریکہ سے قریبی تعلقات کے فروغ کا باعث ہے۔ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ آزادی کے 75سالوں میںپاکستان میں جو بھی حکومت رہی، چاہے وہ صدر ایوب کی حکومت تھی یا پھرذوالفقار علی بھٹو، ضیاالحق سے لیکرجنرل مشرف اور اس کے بعد جمہوری سیاستدانوں میں ہر ایک نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون بنایا۔گزشتہ سات دہائیوں میں جب بھی پاکستان کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا،امریکہ نے ہماری مدد کی ہے۔ بے شک دونوں ممالک کے مابین تعلقات سردمہری کا شکار بھی رہے ہیں، تاہم اس میںکچھ قصور ہمارااپنا بھی ہے کہ ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے کبھی بھی پاکستان کے مفاد کو مقدم نہیں رکھا، ہم سپرپاور امریکہ سے فائدہ نہیں اٹھاسکے، ہم نے ہمیشہ دوسروں کی جنگوں اور لڑائیوں میں اپنے آپ کو شامل کیا جس کی وجہ سے ہم اندرونی طور پر کمزور ہوئے اور ملک دشمن عناصر کو پنپنے کا موقع مل گیا، ہماری اس کوتاہی کی سب سے بڑی وجہ ہماری ماضی کی دقیانوسی خارجہ پالیسیوں ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کی بات کی جائے تو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ایک جائز پارلیمانی طریقے سے پی ٹی آئی حکومت کی رخصتی ہوئی لیکن سابق حکمران قیادت نے جس غیرذمہ دارانہ انداز سے امریکہ کے خلاف الزام تراشی کی، اس سے ہمارے دوطرفہ تعلقات کو شدید زک پہنچی ہے۔ خوش قسمتی سے ایک طویل عرصے بعد پاکستان کو ایسا وزیرخارجہ نصیب ہوا ہے جسکے کامیاب دورہ امریکہ کاخود عالمی میڈیا نے اعتراف کیاہے، میڈیا کاکہنا ہے کہ نوجوان وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے امریکی دورے سے پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں اجاگر ہوا۔گزشتہ دورِ حکومت میں عالمی سطح پر ایسا تاثربنایا جارہا تھا کہ روس ایک مرتبہ پھر سپرپاور کا تاج سجانے کیلئے قابل ہوچکا ہے اور پاکستان کو اب روس کا ساتھ دینا چاہیے لیکن یوکرائن پر حملے کے ایک غلط فیصلے نے روس کا امیج شدیدکمزور کردیا ہے، ہمیں روس بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکہ کے تحفظات کو اپنے سفارتی تعلقات میں بہتری کیلئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہماری توجہ کا مرکز ملکی معیشت کا استحکام ہونا چاہیے، موجودہ وزیراعظم حکومت میں آنے سے قبل میثاقِ معیشت کی پیشکش کرچکے ہیں، حالیہ دنوں میں صدر عارف علوی کابیان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ قومی سیاسی جماعتوں کے مابین معیشت پر اتفاق رائے پیداکرنا چاہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ معیشت کی بہتری کیلئے پہلا قدم پالیسیوں میں تسلسل ہے، دنیا کے ہر اس ملک نے ترقی کی ہے جہاں پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا ہے، میری ذاتی رائے میں آج ہماری سیاسی قیادت کو عسکری کمان کے حوالے سے ایک واضح لائن لینی چاہیے، ہمیں اس وقت صرف اور صرف پاکستان کا سوچنا چاہیے،یہ ایک مشکل فیصلہ ضرور ہوگا لیکن میری ذاتی رائے میں جنرل باجوہ کو کم از کم ایک سال کی توسیع دیناملک و قوم کے وسیع تر مفاد کیلئے بہت ضروری ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین