رابطہ… مریم فیصل پہلے تھریسامے ،پھر بورس جانسن اور آ ج کللز ٹریس ایسی کشتی پر سوار ہیں جو معاشی بحران کے سمندر میں ہچکولے کھا رہی ہے اور کشتی کے بقیہ دو سواروں کی طرح مس ٹرس کو کبھی بھی ڈبو سکتی ہے کیونکہ جب سے منی بجٹ پیش کیا گیا ہے مارکیٹس میں طوفان برپا ہوگیا ہے جس کی زد میں چانسلر آگئے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے چانسلر جریمی ہنٹ لے بھی چکے ہیں۔چانسلر جریمی ہنٹکہہ رہے ہیں کہ معیشت کی بحالی کے لئے سخت فیصلے کرنے ہی ہونگے اور وہ سخت فیصلے ہونگے ٹیکس میں اضافہ اور حکومتی خرچوںمیں کمی اور بنا ان دو اقدامات کے معاشی استحکام لانا ممکن نہیں ۔ اب یہ تو ہنٹ کہہ رہے ہیں لیکن مس ٹرس یقینا اس پریشانی میں مبتلا ہو چکی ہونگی کہ تھریسامے اور بورس جانسن کی طرح میری وزرات ا عظمیٰ بھی تو خطر ے میں نہیں پڑ گئی ؟؟ کیونکہ ٹوری ایم پیز کے ساتھ سب سے بڑی مشکل ہی یہ ہے کہ وہ جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ ہمارا لیڈر ملکی مفاد میں اچھا کچھ ڈیلیور کرنے میں کامیاب نظر نہیں آرہا تو پچھلی نشستوں میں یہ چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ سب سے پہلے وزیر اعظم کو فارغ کیا جائے ۔ اس کی مثال ہم پچھلے کچھ چار پانچ سال سے دیکھ بھی رہے ہیں کہ وزیر اعظموں کے آنے جانے کا سلسلہ ایسا شروع ہوگیا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اب ایک بار پھر لگ رہاہے کہ مس ٹرس کی وزرات نے ہچکولے کھانا شروع کردیا ہے کیونکہ انھوں نے ٹیکس کے لیے جو فیصلہ کیا تھا اسے واپس لے کر ایسا یو ٹرن لیا ہے کہ مارکیٹس کو ہی ہلا کر رکھ دیا اور پونڈ کی قدر کو بھی ڈالر کے مقابلے میں کم کردیا ۔اب اگر ملک کے وزیر اعظم کے فیصلوں سے ملک میں ایسا بھونچال آجائے تو جمہوری ملک کا تو بس یہی طریقہ ہے کہ سب سے پہلے ملک کے سربراہ سے سیٹ خالی کرواجاتی ہے اور یہ پریشانی مس ٹرس کو بھی کھائے جارہی ہو گی کہ میں تو گئی اس لئے گزشتہ پریس بریفنگ میں اصرار بھی کر رہی تھی کہ میں بطور وزیر اعظم کام کرتی رہوں گی ۔ ایسا اصرار تو تھریسامے نے بھی کیا تھا لیکن روتے دھوتے جانا پڑا تھا اور ایسا ہی اصرار بورس جانسن بھی کرتے کرتے چلے گئے کہ میں نے تو بریگزٹ کر وایا ہے میں کیسے جا سکتا ہوں ۔ اگر مس ٹرس کو دیکھے تو وہ صرف پانچ ہفتوں کی وزرات ا عظمیٰ میں نہ بریگزٹ اور نہ ہی ویکسین رول آوٹ جیسا کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکی ہیں بلکہ آتے ہی انھیں تو کورونا وبا اور روس یوکرین کی جنگ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہلی ہوئی معیشت والا ملک ملا ہے جسے سنبھالنے کی کوشیش میں اپنی کرسی ہی بچانا مشکل ہوگیا ہے ۔ لیکن اب یہ اتنا یقین سے کہنا بھی نہیں چا ہئے کہ ان کی رخصت قریب ہے کیونکہ بہر حال برطانیہ میں وزیر اعطم کو آفس سے نکالنے کے لئے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں اور اگرو زیر اعظم اپنے اختیارات سے دستبردار نہیں ہونا چاہے تو بہت سارے استعفوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے بنا وزیر اعظم کو نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے جیسا ہم نے بورس جانسن کے وقت میں دیکھا تھا ۔ ویسے مس ٹرس پر اعتماد د کھانے والے ایم پیز کی تعدا کافی ہے جو انھیں اپنی وزرات کو برقرار رکھنے کے لئے مدد دے سکتی ہے ۔ لیکن اگر وہ مزید جھٹکوں سے بچنا چاہتی ہے تو انھیں جریمی ہنٹ کے ساتھ مل کر معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے تیز اقدامات کرنا ہی ہونگے کہیں ایسا نہ ہو ان کا عہدہ بھی لڑکھڑا کر گر پڑے۔