آج دنیا کا ہر شہر کسی نہ کسی مسئلے سے دوچار ہے۔ آبادی کا دباؤ، بے روزگاری، پانی اور بجلی کے مسائل وغیرہ سر فہرست ہیں۔ ان مسائل کا واحد حل معقول منصوبہ بندی ہے۔ آبادی کی شرح اور مستقبل کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ملک منصوبہ بندی کرتا ہے۔ شہروں کو اگر منصوبہ بندی کے تحت نہ بسایا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ مسائل گمبھیر صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ منصوبہ بندی آج کی بات نہیں ہے، اس کا سلسلہ چار ہزار سال قبل مسیح میں بھی ملتا ہے، جب ہڑپہ اور موہن جودڑو جیسے قدیم شہر بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بسائے گئے تھے۔
ان تہذیبوں کے کھنڈرات گواہی دیتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر شہر تعمیر کیے جاتے تھے، کشادہ گلیاں، پختہ سڑکیں، نکاسی آب کا انتظام، ترتیب سے بنائے گئے مکانات وغیرہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شہر کے منصوبہ سازوں نے ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان شہروں کو بسایا تھا، لیکن ہم اکیسویں صدی میں رہنے کے باوجود اپنے آبائو اجداد سے کچھ نہ سیکھ سکے۔ ہمارے شہر بغیر منصوبہ بندی کے بے ڈھنگے پن سے پھیلتے جارہے ہیں۔
انگریزوں نے برصغیر کو نئی تہذیب سے روشناس کرایا، مغل بادشاہوں نے اپنی توجہ زیادہ تر قلعے، باغات اور مقبرے بنانے پر صرف کی، مگر ذرائع آمد و رفت، آبادی، بندرگاہوں پر خاص توجہ نہیں دی۔ انگریزوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ہر چیز کو باقاعدہ منصوبہ بندی اور مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے شروع کرنے کے عادی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں بنائی ہوئی سڑکیں، عمارتیں، بندرگاہیں، ریلوے اسٹیشن وغیرہ آج بھی منفرد نظر آتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہم نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ کراچی کا شمار دنیا کے گنجان آباد والے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کی آبادی قیام پاکستان کے وقت صرف چند لاکھ تھی۔
اس کی ابتدائی پلاننگ دس لاکھ کی آبادی کے لیے کی گئی تھی۔ پھر ستّر کی دہائی میں کی جانے والی پلاننگ تیس لاکھ کی آبادی کے لیے تھی۔ آج کراچی کی آبادی کا تناسب وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ جس میں سب سے زیادہ حصہ ان تارکین وطن کا ہے جو غیر قانونی طور پرکراچی میں رہ رہے ہیں۔ ان میں افغانی، بنگلہ دیشی، ایرانی، برمی بھی شامل ہیں۔ آبادی کی کثرت نے بے روزگاری کو جنم دیا۔ ایک زمانہ تھا جب کراچی کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا۔ آج کراچی کا شمار دنیا کے گندے اور غیر محفوظ شہروں میں کیا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس شہر کا نظم و نسق چلانے والوں کو اس شہر سے لگائو ہی نہیں۔ وہ صرف اپنی جیبیں بھرنا جانتے ہیں۔
کراچی دنیا کے ان خوش نصیب شہروں میں سے ایک ہے، جہاں چوڑی سڑکیں موجود ہیں، مگر مینجمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے۔ کراچی میں تیس پینتیس برسوں میں زمین کا سارا استعمال لینڈ ویلیو کی بنیاد پر ہوا۔ جس کے بنا پر شہر کا اندرونی حصوں سے کم آمدنی والے لوگوں کو آہستہ آہستہ شہر سے باہر کر دیا گیا، ایسا کرنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ اور دیگر سماجی مسائل نے جنم لیا۔ کم آمدنی والوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا ہے۔ سوشل ہاؤسنگ اسکیم نہ ہونے سے بڑی تعداد میں کچی بستیاں آباد ہورہی ہیں اور یہ آبادیاں غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ بدقسمتی سے جو شہری منصوبہ بندی کی ضروریات ہیں، وہ ہمارے ہاں نہیں ہیں۔ اسی لیے روز بہ روز ہمارے شہروں کے مسائل پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔
کراچی آبادی اور صنعت کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس لیے آئے دن بجلی کی کمی کا شکار ہونا پڑتا ہے، بجلی کی طلب اس کی رسد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں قائد اعظم کے مزار سے تھوڑا آگے لوگ شکار کھیلنے جاتے تھے۔ گورا قبرستان کے بعد شہر کی آبادی ختم ہوجاتی تھی۔ موجودہ دور میں کراچی اتنی وسعت اختیار کر گیا ہے کہ اس کی حدود ایک طرف بلوچستان کے شہر حب سے جاملتی ہے تو دوسری طرف نوری آباد اور ٹھٹھہ کو چھو رہی ہے۔ رہائش کے لیے تو اب ہم نے سمندر سے بھی زمین چھین لی ہے۔ کراچی کی پہاڑیاں بھی اب نہیں بچیں، لینڈ مافیا نے انہیں بھی بیچ کر مکانات تعمیر کرادیے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آلودگی بڑے شہروں کا بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کی بڑی وجہ وسائل کے صحیح استعمال کا فقدان ہے۔ آلودگی کا مسئلہ اتنا سنگین ہوچکا ہے کہ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو چند برسوں میں انتہائی خطرناک صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ موجودہ صورت حال میں بھی شہری طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ آبادی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے جرائم میں بھی بہت اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اب جرائم کی صورت حال یہ ہے کہ انہیں شہری معمولات کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔
ٹریفک کے رش کی وجہ سے زندگی گویا رینگ رہی ہے، جو سفر 15 منٹ میں طے ہوسکتا ہے، وہ عام طور پر ایک یا دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ گویا ہر شخص کا قیمتی وقت ان سڑکوں کی آلودہ فضا میں ضائع ہورہا ہے۔ شہر میں جگہ جگہ گندگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ سڑکوں پر رکھی کنڈیاں تک کم پڑجاتی ہیں۔ گندگی کے ڈھیر اتنا زیادہ ہے کہ گندگی اٹھانے والوں کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ اسے اٹھا سکیں۔ یوں یہ مسئلہ بھی دیگر مسائل کی طرح انتہائی نازک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔
یہ تمام مسائل صرف اور صرف منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ہیں۔ اگر وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے پلاننگ کی جاتی تو آج یہ مسائل اتنے شدید نہیں ہوتے۔ اگر ان مسائل کے حل کی کوشش بھرپور طریقے سے نہ کی گئیں تو مسائل مزید سنگین ہوجائیں گے۔