• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے مشہورو مصروف ترین علاقے کورٹ روڈ پر واقع سندھ اسمبلی کی عمارت قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی تاریخ کی گواہ ہے، اس عمارت کے سامنے سندھ ہائیکورٹ ایک جانب ،سندھ سیکریٹریٹ، تغلق ہائوس دوسری جانب آرٹس کونسل آف پاکستان اور تاریخی برنس گارڈن واقع ہے۔ سندھ اسمبلی کے ساتھ ہی صوبائی محتسب کا آفس، انکم ٹیکس کے دفاتر اور دیگر اہم عمارتیں ہیں، ایم آر کیانی روڈ کی جانب کراچی کنٹونمنٹ بورڈ اور پاکستان اسکائوٹس کا مرکزی دفتر اور ہندو جیم خانہ جسے اب ناپا کہا جاتا ہے کی، عمارتیں بھی موجود ہیں، آرٹس کونسل سے ذرا آگے آئیں تو فیضی رحمین آرٹ گیلری اور نامکمل ایوان رفعت اور سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری کی عمارتیں بھی واقع ہیں۔ 

شاہین کمپلیکس سمیت دیگر انتہائی اہم ترین عمارت کے درمیان سندھ اسمبلی کی یہ شاندار اور پرشکوہ عمارت موجود ہے جو برطانوی دور کی یادگار عمارتوں میں سرفہرست ہے۔اس کا سنگ بنیاد 11 مارچ 1940 ء کو اس وقت کے گورنر سر لینسی لاٹ گراہم نے رکھا تھا، تعمیر دو سالوں میں مکمل ہوئی اور اس عمارت کا باقاعدہ افتتاح 4 مارچ 1942 ء کو اس وقت کے گورنر ہیوف ڈائو نے کیا، عمارت کی تعمیر سے قبل یعنی 1937 سے 1942 تک اسمبلی کے اجلاس چیف کورٹ بلڈنگ ، این جے وی اسکول ایم اے جناح روڈ اور دربار ہال حیدرآباد میں منعقد ہوا کرتے تھے، پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں سندھ اسمبلی کی باقاعدہ عمارت تعمیر کی جائے، اس وقت اسپیکر دیوان بہادربھوج سنگھ نے 1938ء میں اسمبلی کی عمارت تعمیر کرنے کی باقاعدہ تجویز حکومت کو پیش کی۔

اس کے ڈیزائن کی تیاری کے لئے یکم ستمبر 1938ء کو آرکیٹکٹ کی تقرری عمل میں لائی گئی تاکہ وہ سندھ اسمبلی کے لئے ایک بہترین ڈیزائن بنائیں جس کے مطابق عمارت تعمیر کی جاسکے، آرکیٹکٹ نے عمارت کا ڈیزائن تیار کیا اور 11 مارچ 1940ء کو تعمیراتی کاموں کا آغاز کردیا گیا، ان کاموں کی نگرانی کے لئے بری لیوس اور رام چندانی کو مقرر کیا گیا، دو سال کی مقررہ مدت میں اس کی تعمیر مکمل کرلی گئی، جس پر کم و بیش 10 لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ عمارت کی تعمیر کا تخمینہ 5 لاکھ روپے لگایا گیا تھا ،تاہم تعمیر کے دوران عمارت میں کچھ چیزوں کا اضافہ کیا گیا جس کے باعث لاگت میں اضافہ ہوا، یہ عمارت دو منزلوں پر مشتمل ہے اسمبلی ہال کے علاوہ وزیر اعلیٰ، قائد حزب اختلاف، اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، مختلف سیاسی پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈرزکے دفاتر، سیکریٹریٹ، محکمہ قانون، لائبریری ،کانفرنس روم اور دیگر دفاتر تعمیر کئے گئے۔

سندھ اسمبلی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ، 1890ء میں پہلی مرتبہ بمبئی قانون ساز اسمبلی میں چار ارکان نے صوبہ سندھ کی نمائندگی کی، چار دہائیوں سے زیادہ عرصے کے بعد سندھ کو یکم اپریل 1936 ء کو صوبہ بمبئی سے الگ کیا گیا اور اس کی اپنی قانون ساز اسمبلی جماعتی اور اقلیتی بنیادوں پر منتخب کی گئی، 7 فروری 1937ء کو پہلے انتخابات کا انعقاد ہوا جس کی بنیاد پر 60 ممبران پر مشتمل سندھ قانون ساز اسمبلی معرض وجود میں آئیجس کا پہلا اجلاس 27 اپریل 1937ء کو سندھ چیف کورٹ کراچی موجود سندھ ہائیکورٹ کی عمارت کے ہال میں منعقد ہوا اجلاس چار دن تک جاری رہا اور دیوان بہادر بھوج سنگھ کو بطور اسپیکر اور خان بہادر اللہ بخش گبول کو بطور ڈپٹی اسپیکر سندھ قانون ساز اسمبلی منتخب کیا گیا۔

30 اپریل 1937 ء کے اجلاس میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کی صدارت کے لئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سرغلام حسین نے کی، اس کمیٹی بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی جگہ بنائی جائے جہاں اجلاس کے لئے مناسب اور معقول انتظام ہو اور ساتھ ساتھ پریس اور مہمانوں کے لئے بھی انتظام کیا جاسکے، پہلے اجلاس میں جن ممبران نے شرکت کی ان میں 35ممبران مسلمان، 19 ہندو، 3 پارسی اور 3 یورپین تھے، مسلمان اور ہندو ممبران میں سے ایک ایک خاتون ممبر بھی شامل تھی، ابتدائی اجلاس کی صدارت دیوان بہادر ہیرا نند نے کی۔ 

اس عمارت کو یہ تاریخی اعزاز بھی حاصل ہے کہ 3 مارچ 1943ء کو پاکستان کے قیام کے لئے پہلی قرارداد اسی اسمبلی نے منظور کی۔مارچ 1943ء میں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد پیش کی جو کثرت رائے سے منظور ہوگئی، اجلاس میں ممبران کی تعداد 33 تھی، 14 اگست 1947ء کو اس وقت کے گورنر جنرل مائوٹ بیٹن نے اسی عمارت میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو باقاعدہ اقتدار منتقل کیا۔ 

15 اگست 1947 ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور قائد ملت لیاقت علی خان نے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ 4 فروری1948ء کو سندھ قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں 38 ممبران نے پاکستان کی نئی ریاست کے لئے وفاداری کا حلف اٹھایا اور ملک کی پہلی کابینہ تشکیل دی گئی جس میں لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، ملک غلام محمد، عبدالرب نشتر، غضنفر علی خان، جوگندرناتھ، منڈل، فضل الرحمن شامل تھے، یہ ایک تاریخی موقع تھا کہ جب اسی مقصد کے لئے تعمیر کی گئی عمارت میں صوبہ سندھ سے منتخب اراکین نے جمع ہو کر اجلاس منعقد کیا اور اسمبلی کی کارروائی میں باقاعدہ حصہ لیا، 1956ء میں کراچی (سندھ) جو پاکستان کا دارالخلافہ تھا ، منتقل کردیا گیا ہوا۔

جب یہ عمارت تعمیر کی گئی اس وقت 70 نشستوں کی گنجائش رکھی گئی تھی کیونکہ ارکان کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی، 1985ء میں اراکین کی تعداد میں اضافہ ہوا تو اسمبلی ہال میں 88 ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش بنائی گئی ، مہمانوں کی گیلری میں بھی 213 مہمانوں کے بیٹھنے کی نشستیں موجود تھیں، اسی طرح پریس گیلری میں صحافیوں کے بیٹھنے کے لئے 45 نشستیں بنائی گئیں، وقت کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ کے مختلف شہروں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا خصوصاً کراچی کی آبادی میں بے انتہا اضافہ ہوا جس کے باعث صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ کرنا پڑا اور یوں ارکان اسمبلی کی تعداد 168 ارکان پر مشتمل ہوگئی لیکن اسی ہال میں پھر گنجائش پیدا کی گئی اور تزئین و آرائش کی گئی، 168 ارکان سندھ اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لینے لگے۔

سندھ اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے باعث ایک نئے اسمبلی ہال کی ضرورت تھی، اس بات کے پیش نظر 2008ء میں اسی تاریخی عمارت کے پچھلے حصے میں سندھ اسمبلی کی نئی تاریخی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور پھر اس کشادہ اور وسیع ہال کی تعمیر کے بعدایک نئی تاریخ رقم ہوئی اور اسمبلی کا پہلا اجلاس نئی اسمبلی عمارت کے انتہائی خوبصورت ، پرشکوہ اور کشادہ ہال میں منعقد ہوا ، سندھ اسمبلی کی نئی عمارت پرانی عمارت کے عقب میں تعمیر ہوئی ہے، پرانی عمارت سے نئی عمارت کا سفر سندھ کی جمہوری تاریخ کا ایک قابل فخر باب ہے۔ 

نئی عمارت میں اجلاس کا آغاز قومی ترانے سے کیا گیا اور اس موقع پر تلاوت ، نعت رسولؐ مقبول اور فاتحہ خوانی کے بعد اسمبلی کے متعدد ارکان نے نئی عمارت میں منتقل ہونے پر زبردست خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور اپنے خطاب میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے سب مل کر کام کریں گے ، نئی عمارت میں تزئین و آرائش کا کام انتہائی عمدہ انداز میں کیا گیا ہے۔ 2010 ء میں اس بلڈنگ کی تعمیر کے لئے فنڈز جاری ہونا شروع ہوئے مختصر عرصے میں یہ عمارت مکمل ہوئی جس میں 350 ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، 28 وزراء کے دفاتر ہیں جنہیں وہ اجلاس کے دوران استعمال کرسکیں گے، عمارت کے اندر بڑے بڑے کمیٹی رومز، سیمینار ہالز اور کیفے ٹیریاز بھی بنائے گئے ہیں، صحافیوں اور مہمانوں کے لئے کشادہ گیلریز ہیں۔

پہلے اجلاس کے موقع پر کئی ارکان نے اپنے خطاب میں اجلاس کو ایک تاریخ ساز موقع قرار دیا اور کہا کہ ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم جذبے کے ساتھ سندھ کے عوام کی خدمت کریں گے اور پورے سندھ کو ایسا ہی خوبصورت اور دلکش بنائیں گے، جیسے سندھ اسمبلی کی نئی عمارت ہے، اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ پرانی عمارت کو میوزیم میں تبدیل کر کےاسے قومی ورثے کے طور پر محفوظ کیا جائے گا، نئی عمارت میں اس تاریخی دن کے موقع پر تحریک پاکستان کے شہداء اور رہنماؤں ، قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والے شہداء ، سندھ اسمبلی کے مرحوم ارکان کے ایصال ثواب کے لئے دعا کرائی گئی ، نئی عمارت میں اجلاس میں شرکت کے لئے خواتین اراکان سمیت مرد ارکان نئے لباس پہن کر آئے تھے، کئی خواتین ارکان نے اجرک سے بنے ہوئے سوٹ پہنے ہوئے تھے۔

سندھ اسمبلی کی نئی پرشکوہ عمارت کی تعمیر پر ساڑھے 4 ارب روپے خرچ کئے گئے نئی عمارت میں 28وزراء اسمبلی کے اجلا س کے دوران امور انجام دے سکیں گے۔ اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لئے مہمانوں، صحافیوں کے لئے کشادہ گیلریز تعمیر کی گئی ہیں، عمارت کے در و دیوار اور چھتوں پر قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں، جدید ترین ساؤنڈ سسٹم اور سینٹرلی ایئر کنڈیشن سسٹم ہونے کے باعث اس عمارت کو منفرد بناتا ہے۔ سندھ اسمبلی کے موجودہ اسپیکر آغاز سراج درانی اور ڈپٹی اسپیکر ریحانہ لغاری ہیں۔