مولانا نعمان نعیم
دین اسلام میں علاج معالجے اور اس کے اخلاقی و قانونی پہلو کی اہمیت‘ قرآن مجید کی ذیل کی آیات‘ رسول اکرمﷺ کی چند احادیث اور کچھ فقہی آرا سے واضح ہوتی ہے، اس حوالے سے ارشادِ ربانی ہے:اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے ،اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔(سورۃ المائدہ ) قرآن مجید کا ایک وصف یہ بھی ہے: اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفاء ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔(سورۂ یونس ) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری سے شفا ءکو رب العزت کی نعمت قرار دیا:اس حوالے سے ارشاد ہے:اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفاء دیتا ہے۔ (سورۃ لشعراء)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ‘ امراض سے شفاء بھی تھا۔
رسول اکرم ﷺ نے امراض و تکالیف کے حوالے سے علاج و اسباب کو اختیار کرنے پر زور دیا، تاکہ مسلمان جسمانی‘ قلبی اور روحانی طور پر صحت مند رہیں۔ حضرت جابرؓ رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں :ہر مرض کی دوا موجود ہے ‘ جب مرض کا علاج ہوجائے تو اللہ کے اذن سے وہ مرض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)اس حدیث میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ امراض کے لیے دوا موجود ہے۔ اسے استعمال کرو‘ مگر یقین یہی رکھو کہ شفاء تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا ہربیماری کی دوا پیدا کی ہے۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصل علم دو ہی ہیں: علم فقہ،تاکہ زندگی گزارنے کا آسان طریقہ معلوم ہو اور علم طب، تاکہ انسانی جسم بیماریوں سے محفوظ اور صحت مند رہے۔
اس بارے میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ امراض سے واقفیت اور ان کے علاج میں مہارت حاصل کرنا‘ مسلمانوں کے تمام معاشروں کے لیے ضروری ہے۔ البتہ علما نے اسے فرضِ کفایہ قرار دیا ہے کہ اگر بقدرِ ضرورت چند افراد اس فن میں ماہر موجود ہوں تو بقیہ معاشرے پر سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔ علاج معالجہ تو زیادہ بڑی بات ہے‘ اسلام میں فقط مریض سے ملاقات کرنے کا بھی بڑا اجر ہے۔ فرمان رسولﷺ ہے: صبح کے وقت ایک مسلمان سے صرف ملاقات و عیادت کرنا‘ شام تک کے لیے ہزاروں فرشتوں کی دعا کا مستحق بنا دیتا ہے‘ اور اسی طرح شام کے وقت کسی کو جاکرملنا صبح تک کے لیے یہی انعام دلواتا ہے اور پھر اسی پر بس نہیں‘ بلکہ جنت میں مزید انعام کا وعدہ بھی ساتھ ہی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی آپ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم ،میں مریض تھا تو نے میری تیمارداری کیوں نہ کی؟ بندہ عرض کرے گا:اے اللہ! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا، حالانکہ آپ رب العالمین ہیں (یعنی آپ بیمار ہونے سے پاک ہیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آئے گا کہ میرا فلاں بندہ مریض تھا تو نے اس کی تیمارداری نہیں کی، کیا تجھے پتا نہیں کہ اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اسی کے پاس پاتا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓاور عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی آپ ﷺ کا فرمان ہے :جب کوئی شخص کسی مریض کی تیمارداری کے لیے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتوں کو مقرر فرماتا ہے جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، (یہ تیمارداری کی غرض سے جانے والا شخص) جب قدم زمین سے اٹھاتا ہے تو اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جب قدم زمین پر رکھتا ہے تو اس کا گناہ مٹادیاجاتا ہے اور اس کا درجہ بلند کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس مریض کے پاس (تیمارداری) کے لیے جابیٹھتا ہے تو اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے اور اس وقت تک اللہ کی رحمت میں ڈھکا رہتا ہے، جب تک(مریض کی تیمارداری کر کے)واپس نہیں آجاتا۔
حضرت انس ؓ سے مروی آپ ﷺ کا فرمان ہے :جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جائے تو اسے جہنم سے ستر سال کی مسافت کے برابر دور کردیا جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓسے مروی آپ ﷺ کا فرمان ہے :تیمارداری کرنے والا مریض کے پاس بیٹھ کر سات مرتبہ یہ دعا کرے تو اللہ اسے اس مرض سے شفاء عطا فرماتا ہے: اَسئَل اللہَ العَظِیمَ رَبَّ العَرشِ العَظِیمِ اَن یَّشفِیکَ۔ اس کے علاوہ بھی دعائیں احادیث میں آئی ہیں۔
اس لیے ڈاکٹر (بشرط ایمان) ان سب اجر وثواب کا اس وقت حقدار ہوتا ہے،جب وہ نیک نیتی اور خدمت خلق کے جذبے سے یہ امور انجام دے مریض کو تسلی کے کلمات کہناہی عیادت ہے جو کہ عبادت ہے، اس کے بعد اس کا علاج معالجہ کرنا مزید باعث اجر ہے۔ اگر خدانخواستہ ڈاکٹر مریض سے محض پیسے بٹورنے کے لیے کام کر رہا ہے تو وہ دھندا تو کہلایا جاسکتا ہے، خدمت خلق کا نام دینا ناانصافی ہے۔ چونکہ یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے اوراسلام انسانیت سے مکمل ہمدردی کا نام ہے ،اس لیے شریعت نے اس بارے میں مکمل رہنمائی کی ہے اور ڈاکٹر کی ضرورت، معیار، ذمہ داریاں اور اس کی معاشرتی حیثیت کو اہمیت سے بیان کیا ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں زہر کے ساتھ ساتھ اس کا تریاق بھی پیدا فرمایا ہے اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی ، رسول ﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا : ﷲ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا ہربیماری کی دوا پیدا کی ہے : ( سنن ابو داؤد ) اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ ﷲتعالیٰ کی دی ہوئی عقل اور تجربے کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے دواؤں کو دریافت کرے ، اس کام کو میڈیکل سائنس اور ڈاکٹر انجام دیتے ہیں ، اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی خدمت کے پہلو سے ان کی خدمات نہایت اہم ہیں ، بھوکے کو کھانا کھلانا ، محتاج کو کپڑے پہنانا ، معذور کے کام میں ہاتھ بٹانا اور ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا یہ سب مخلوق کی خدمت ہے ، لیکن انسان سب سے زیادہ خدمت کا محتاج اس وقت ہوتا ہے ،جب وہ مریض ہو ، بیماری انسان کو اس مقام پر پہنچادیتی ہے کہ کھانا موجود ہونے کے باوجود وہ کھانہیں سکتا ، ہاتھ پاؤں سلامت ہیں ، لیکن وہ ایک قدم چل نہیں سکتا اور تیمارداری اور مددگاروں کے رحم و کرم کا محتاج ہوجاتا ہے ، اسی لئے رسول ﷲ ﷺ نے مریض کی عیادت اور تیمار داری کو بے حد اجر کا باعث قرار دیا ہے ، آپ ﷺنے فرمایا : جب تک ایک شخص مریض کی عیادت میں رہتا ہے، گویا وہ جنت کے باغ میں ہے ۔(صحیح مسلم) اس طرح ڈاکٹر گویا اپنی ڈیوٹی کے پورے وقت اس حدیث کا مصداق ہوتا ہے۔
رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے اور کون ہے جو انسانوںکے لئے ڈاکٹر اور معالج سے بڑھ کر نافع ہو ؟ اس طرح گویا حضور ﷺکی بارگاہ سے ڈاکٹر کو ’’ خیر الناس‘‘ ( بہترین انسان ) کا ایوارڈ ملا ہے ، ان سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوسکتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے اور اس نسبت سے ان کی توقیر و تکریم معاشرے کا فریضہ ہے ، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ علاج سے جلدی فائدہ نہیں ہوا ، یا مریض کی موت واقع ہوئی تو لوگ ڈاکٹر سے اُلجھ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو اس کی جان کے بھی لالے پڑجاتے ہیں ، یہ غیر سنجیدہ طرزِ عمل ہے ، اس لئے کہ علاج تو انسان کے اختیار میں ہے ، لیکن صحت و شفا ءاللہ کی مشیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا،جو شخص جس مقام کا حامل ہوتا ہے ،اسی نسبت سے اس کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں ، اس لئے ڈاکٹر اور معالج حضرات کو اپنی ذمہ داریوں پر بھی توجہ دینی چاہئے ، ڈاکٹر کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اس پیشے میں خدمت کے پہلو کو مقدم رکھے ، ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کریں اور اپنے گھر سے دوائیں لاکر کھلا دیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس پیشے کو محض تجارت اور بزنس نہ بنادیا جائے اور اجرت کے ساتھ ساتھ اجر کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا جائے، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیم اور علاج نے ایک زبردست کاروبار کی صورت اختیار کرلی ہے اور معاشی کشش کی وجہ سے بہت سے ہوٹل ، اسپتالوں میں تبدیل ہوگئے ہیں، ڈاکٹروں کی فیس مریض کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن گئی ہے، پھر فیس کے سلسلے میں بھی ایک نئی روایت یہ قائم ہورہی ہے کہ مریض جتنی بار مشورے کے لئے جائے ،ہر بار فیس ادا کرے، اس طرح بعض اوقات ہر ہفتہ ڈاکٹرز فیس وصول کرلیتے ہیں ، پھر آمدنی کے بالواسطہ ذرائع بھی پیدا کرلئے گئے ہیں، دوائیں لکھی جاتی ہیں اور مخصوص و متعین دکانوں سے دوا خرید کرنے کو کہا جاتا ہے ، تاکہ ان سے کمیشن مل سکے، مریض پر بوجھ ڈالنے اور اپنی جیب بھرنے کے لئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوائیں پہلے لکھی گئی تھیں ،ابھی وہ ختم بھی نہیں ہوئیں کہ دوا تبدیل کردی جاتی ہے اور اسی فارمولے کی دوسری دوا ، جس کا نام کمپنی بدل جانے کی وجہ سے بدلا ہوا ہوتا ہے ، لکھ دی جاتی ہے ، بیچارے مریض کو ڈاکٹر صاحب کی اس ہوشیاری کی خبر بھی نہیں ہوتی ، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جتنی دوا مطلوب ہے، اس سے زیادہ لکھ دی گئی اور چند دنوں میں نسخہ بدل دیا گیا اور زائد دوائیں بیکار ہوگئیں ، یہ بھی ہوتا ہے کہ نقلی دوائیں یا ایسی دوائیں جن کی مدت ختم ہوچکی ہے، دی جاتی ہیں اور معیاری دواؤں کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔
بے مقصد ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں ، مریض نے اگر کسی دوسرے ڈاکٹر سے ٹیسٹ کرایا ہو تو چاہے وہ رپورٹ دن ، دو دن پہلے ہی کی کیوں نہ ہو ، لیکن نیا ڈاکٹر پھر سے پورے ٹیسٹ کراتا ہے اور یہ بھی ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے جس پیتھالوجسٹ کا مشورہ دیا ہے، اسی کے یہاں ٹیسٹ کرایا جائے ، ان اقدامات میں مخلصانہ جستجو و تحقیق کا جذبہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ، اکثر اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ کمانا اور اپنی جیب بھرنا ہوتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر یا کسی خاص ہاسپٹل کو مریض ریفر کرتا ہے، یہ تمام صورتیں اگر مریض کی بھلائی کے جذبے سے ہوں تب تو ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن افسوس کہ ان سب کا مقصد کمیشن کھانا ہوتاہے، دواؤں پر کمیشن، ٹیسٹ پر کمیشن ، مریض کے بھیجنے پر کمیشن اور جہاں جہاں ممکن ہو ،وہاں سے کمیشن کاحصول، ان کمیشنوں اوران کی بڑھتی ہوئی شرحوں نے مریض کی کمر توڑ دی ہے اور غریب لوگوں کے لئے اسپتال جانے کا تصور بھی ایک بوجھ ہوتا جارہاہے ،یہ کمیشن فقہی اعتبار سے رشوت ہے، اس کا لینا حرام ہے اور اس میں واسطہ بننا بھی حرام ہے۔
یاد رکھیے اسلام میں جہاں حقوق اللہ کی اہمیت ہے، وہیں حقوق العباد کو بنیادی اور دوہری اہمیت دی گئی ہے۔ حقوق العباد میں خدمت خلق بنیادی اہمیت کا حامل شعبہ ہےاورخدمت خلق کے شعبے میں بیماراور مریض افراد کا علاج معالجہ اوران کی خدمت ایک عظیم نیکی ہے،اگر ڈاکٹر حضرات اپنے اس پیشے میں اخلاص و ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کریں تو بلاشبہ یہ انسانیت کی خدمت اور ایک عظیم نیکی ہوگی۔