سورج اس کائنات کا سب سے کراماتی ستارہ ہے اس کی روشنی اگر دن میں اجالا اور گرمی کی حدت دیتی ہے تو رات میں یہی روشنی چاند کی چاندنی میں لپٹ کر پر سکون ٹھندک کا احساس دلاتی ہے۔ سائنسدانوں نے اس قیمتی ترین اثاثے پر بھر پور تحقیق کی ہے اور یہ سلسلہ مزید جاری ہے۔ مندرجہ ذیل میں ان میں سے چند تحقیقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
مصنوعی شعاعی تالیف
قدرتی طور پر شعاعی تالیف کے عمل میں ( جوکہ پودوں الجی اور دوسرے جراثیمی انواع میں وقوع پذیر ہوتا ہے )فضا ء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سورج کی روشنی کی موجودگی میں شکر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ ہر سال 100بلین ٹن کاربن بائیو ماس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ چناں چہ اس سے 100ٹیرا واٹ توانائی حاصل ہوتی جوکہ ہمارے کرۂ ارض پر استعمال ہونے والی توانائی سے 6گناہ زیادہ ہے ۔ماضی میں سائنس دانوں نے محدود کامیابی کے ساتھ مصنوعی طور پر شعاعی تالیف کاعمل انجام دینے کی کو شش بھی کی ہے۔ امریکاکے محقق نے پودے سے حاصل ہونے والے انزائم کے حامل فوم سے شعاعی تالیف کے مواد کی تحقیق کا طریقہ ایجاد کیا ہے ۔یہ انزائم پودوں، بیکٹیریا ،مینڈک اور فنجائی سے حاصل کیا جا تا ہے۔
یہ فوم سورج کی روشنی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو شکر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ یہ شکر بعدازاں ایتھنول اور دوسرے با یوفیول میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔فوم کے استعمال کا خیال سائنسدانوں کو بعض مخصوص اقسام کے مینڈکوں سے آیا جواپنے ٹیڈ پول کی نشونما کے لئے مضبوط اور پائیدار فوم تیار کرتے ہیں۔ اس فوم میں روشنی اور ہوا کے نفوذکی شاندار صلاحیت ہوتی ہے۔ اس فوم میں جمع ہونے والے انزائم کو مصنوعی شعاعی تالیف کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین اس فوم کے بے شمار فوائد کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کے لئے مٹی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ بغیرمٹی کے سورج کی روشنی کو استعمال کرتے ہوئے شکر تیار کرلیتا ہے ،جوکہ عام طور پر پودوں میں شعاعی تالیف کے عمل کے لئے ضروری ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سورج سے حاصل ہونے والی تمام توانائی کو شکر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ پودے اس توانائی کا کچھ حصہ شکر کی تیاری اور کچھ حصہ دوسرے افعال کی انجام دہی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
سورج سے حاصل ہونے والی توانائی ہمارے سیارے کو توانائی سے بھر دیتی ہے ،اس کی مقدار 58000 ٹیراواٹ سالانہ ہے ۔ اس کے مقابلے میں ہماری زمین کی توانائی کی سالانہ کھپت 16ٹیراواٹ ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج زمین پر توانائی کی درکار مقدار سے 5000 گنا توانائی فراہم کرتا ہے۔ چناں چہ یہ بات عجیب سی محسوس ہوتی ہے کہ معدنی تیل کو جلا کر ہم اپنی زمین کو کیوں آلودہ کر رہے ہیں جب کہ سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کی کثیرمقدار یونہی ضایع ہورہی ہے ،تاہم صورت حال اب تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور ایسی جدید ٹیکنالوجیاں سامنے آرہی ہیں جن کا پاکستان استعمال کر سکتا ہے۔
شمسی خلیے عام طور پر سلیکون ویفرز سے بنائے جاتے ہیں ۔یہ شیشے (crystalline)جیسے مواد کے مقابلے میں تجارتی طور پر 20فی صد زائد کارکردگی حاصل کرچکے ہیں ، مگر اسی دھات سے شمسی پینل کی تیاری کافی مہنگی ثابت ہوسکتی ہے، تاہم یہ ان دوردرازعلاقوں کے لئے مناسب ہے جہاں سستی بجلی فراہم کرنے کے لئے گرڈاسٹیشن تعمیر کرنا نا ممکن ہے۔ پتلی فلم والے شمسی سیل(nanocrystalline اور amorphous)سلیکون کی دوسری اقسام سے تیار کئے جاتے ہیں اور ان کو کیمیائی بخارات کو ذخیرہ کرکے تیار کیا جا تا ہے۔
ان کی کارکردگی ۹فی صدہے اور ان کو پانچ گنا کم لاگت پر تیار کیا جا سکتا ہے ،تا ہم ان کی کارکردگی تیزی سے بہتر ہورہی ہے ۔شمسی توانائی کے حوالے سے سب سے پسندیدہ شکل ہزاروں آئنوں کا استعمال ہے جو سورج کی توانائی کو ٹاور پر موجود بوائلر پر مرتکز کردیتے ہیں۔ اس مرتکز شمسی طاقت سے پیدا ہونے والی بھاپ کا درجۂ حرارتC ° 850 ہوتا ہے، جس کو بجلی بنانے والے ٹرباٹن کو چلانے کے لئے استعمال کیا جا تا ہے۔
گوگل نے لاس اینجلس کے قریب ایک شمسی پلانٹ کے لئے امداد فراہم کی ہے جوکہ 5میگا واٹ بجلی فراہم کرے گا ۔ان شیشوںکو کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جا تا ہے یہ سورج کی روشنی کو بوائلر پر مرتکزرکھتے ہیں۔ اُمیدکی جا رہی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال پوری دنیا میں دگنا کیاجائے گا ۔پاکستان میں سورج کی روشنی وافر مقدار میں موجود ہے اور یہاں بجلی کی شدید قلت بھی ہے ضرورت صرف کام کے عزم کی ہے۔
سورج سے بجلی کا حصول
سورج ہمارے کرۂ ارض کو بڑی مقدار میں توانائی فراہم کرتا ہے صرف پندرہ دن میں ہم سورج سے جس قدر توانائی حاصل کرتے ہیں ،یہ اس مقدار سے کہیں زیادہ ہے جو ہم سال بھر ایندھن، کوئلے اورتوانائی کی دوسری شکلوں سے تیار کردہ بجلی کو استعمال کرنے میں خرچ کرتے ہیں ۔ اگرچہ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں فوٹولٹانک سیل کا استعمال بجلی بنانے میں استعمال ہورہا ہے ،تا ہم یہ طریقہ کافی مہنگا ہے۔ اس کا سستا طریقہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی کو حرارت کی شکل میں جمع کرلیا جائے اور پھر اس حرارت کو بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جائے۔
شمسی حرارت والے پاور پلانٹ چار اقسام کے ہیں ۔ ان میں سے تین میں آئنوں کا استعمال کیا جا تا ہے جوکہ تیل،پانی یا پگھلے ہوئے نمک سے بھرے ہوئے معلق پائپ پر سورج کی روشنی کو مرتکز کرتے ہیں۔ اس سے پیدا ہونے والی حرارت بھاپ بناتی ہے اور یہ بھاپ ٹربائن چلا نے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ آئن محرابی برتن کی شکل میں آئینوں کی صف کی شکل میں لگائے جاتے ہیں۔ کیلی فورنیا میں گزشتہ20 سالوں سےصحرا میں اس قسم کے 9 ایک دوسرے سے منسلک پلانٹ 300 میگاواٹ بجلی بنارہے ہیں۔
سولر تھرمل پاور پلانٹ ا یسے فیلڈ آئینوں پر بھی مشتمل ہوتا ہے جب کہ سورج کی روشنی کو مٹی(سیرامک) کے حرارت جذب کرنے والے برتن پر مرتکز کرتے ہیں۔ یہ برتن ٹاور پر نصب ہوتا ہے ۔ امریکا ،چین،آسٹریلیا اور اسرائیل میں شمسی توانائی سے چلنے والے سولر تھرمل پاور پلانٹ نصب کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سولر تھرمل پاور پلانٹ پر فوری کام شروع کردینا چاہیے۔
شمسی خلیوں کی 40فی صد سے زائد کار کردگی
چند سال قبل تک شمسی سیل نہ صرف مہنگے تھے بلکہ ان کی کار کردگی 20فی صد تک تھی ۔ ان کی زیادہ لاگت کی وجہ سے دور درازدیہاتوں میں بجلی کے گرڈ کو ان کے ذریعے بجلی پہنچانا عملی طور پر ممکن نہیں تھا ۔ شارپ فائونڈیشن نے نئی قسم کے مرکب شمسی سیل(Compound Solar cell)تیارکئے ہیں، جس کی کارکردگی تجربہ گاہ میں 40فی صد اور بجلی کے میدان میں 853فی صدہے ۔ یہ جرمینینئم دھات کی تہہ کے بجائے انڈیم گیلٹم آرساءڈ استعمال کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ شمسی سیل میں استعمال ہونے والے کرسٹل کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے سائنس دان مصنوعی تکنیک بروئے کار لا رہے ہیں جو ان کی کارکردگی میں اوربھی اضافہ کرے گی۔
پاکستان کو بجلی اور گیس بچانے کے لئے ہر عمارت میں سولر تھرمل یونٹ کا استعمال لازمی قرار دینا چاہیے ان شمسی حرارتی یونٹ یا سولر تھرمل یونٹ میں مہنگے فوٹو وولٹاءک سیل کے بجائے پانی کا استعمال کیا جائے اور جب پانی سیاہ دھات اور شیشے کی سطح سے گزر ے تو وہ براہ راست سورج سے حرارت حاصل کرتے ہوئے گرم ہوجائے۔
یہ یونٹ سستے بھی ہیں اور ان کو گیس یا بجلی سے چلنے والے پانی گرم کرنے والے آلات میں استعمال کیا جاسکتا ہے جوکہ گھروں اور عمارتوں میں پانی گرم کرنے کے لئے خرچ ہونے والی توانائی کی ضرورت کو50فی صدتک کم کردیں گے ۔ یہ پانی کوباآسانی 67درجۂ حرارت تک گرم کردیں گے جب اس سے زیادہ حرارت کی ضرورت ہوگی تو گیس یا بجلی کے برنر حرکت میں آجائیں گے ۔ اس کے نتیجے میں توانائی کی کثیر مقدار میں بچت ہوگی۔
امریکا میں شمسی توانائی کے میدان میں تیز رفتار پیش رفت
امریکا میں صنعتی شعبے میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت شمسی توانائی کی صنعت ہے۔ اگلے پانچ سا لوں میں امریکا میں 10گیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 6گنا اضافہ ہوجائے گا۔ اس سال امریکا میں دولاکھ گھروں میں شمسی توانائی کے پینل نصب کردئیے جائیں گے ۔ایک اندازے کے مطابق اگلے چند سالوں تک 20لاکھ مزید گھر یہ پینل نصب کروالیں گے۔
پاکستان میں شمسی اور ہواکی توانائی سے چلنے والے پلانٹ کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت میں اضافہ کے لئے ان کوآسان قرضوں کی سہولت فراہم کی جائے، جس طرح مغربی ممالک میں کیا گیا ہے۔