علّامہ اقبال جدید دنیائے علم و فکر میں اپنی دانش، حکمت اور شاعری کی وجہ سے بالخصوص بیسویں صدی کے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ و سیاست میں اپنے لازوال کردار کے سبب کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ گر چہ جنوبی ایشیا میں کئی بلند پایہ علماو مفکّرین پیدا ہوئے، جن پر ان کی باوقار علمی و فکری خدمات کے حوالے سے نظر ٹھہرتی ہے، لیکن اُردو اور فارسی زبانوں میں اپنی شاعری کے توسّط سے اقبال کی مقبولیت و اثرات کا دائرہ کہیں زیادہ وسیع ہے کہ شاعری ہی وہ وسیلہ ہے، جس نے ایک بلند پایہ مفکّر و دانش وَر کو عوام کی صفوں میں بھی ایک مثالی پسندیدگی او رقبولیتِ عام عطا کی، پھر چاہے اُن کی اُردو شاعری ہو یا فارسی،شائقینِ ادب نے ہر زمرے میں انھیں کماحقہ پسند کیا ہے۔
جب کہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں اپنی فکر و دانش کواس قدر مناسب و پُرکشش صورت میں پیش کیاکہ جو تاحال موثر ہے۔ گرچہ اقبال نے اپنے مخصوص موضوعات کے تقاضوں کے تحت نثر کو بھی جائز صورتوں میں اختیار کیا یا اس کا استعمال اُن کے لیے ناگزیر رہا، جیسے ان کی مکتوب نویسی، خطبہ نویسی، شذرہ نویسی وغیرہ، جن پر مشتمل ان کی اُردو اور انگریزی زبانوں میں متنوع تصانیف اوریادگار مجموعے موجود ہیں۔
لیکن تخلیقات کے اعتبار سے بہرحال اُن کی وجہ ٔشہرت شاعری ہی ہے، جس نے اُنھیں متعلقہ زبانوں میں ایک ممتاز، پُروقار اور مقبول ترین شاعر کی پہچان بخشی۔ اُنہیں عالمی سطح پر متعارف کروایا اور ظاہر ہے اس تعارف کے پسِ پشت اُن کےاُردو اور فارسی شاعری کے متعدد مجموعے ہی ہیں کہ جن میں سےہر مجموعہ یا تخلیق اپنی جگہ اہمیت وانفرادیت اور کشش، جاذبیت رکھتی ہے۔
’’جاوید نامہ‘‘ اقبال کی دورِ آخر کی تخلیقات میں سے ایک ہے، جب کہ شاعری کے دیگر مجموعوں میں اُردو زبان میں بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم، ارمغانِ حجاز اور فارسی زبان میں اسرار و رموز،پیامِ مشرق، زبورِ عجم، پس چہ باید کرد جیسی تخلیقات نے اقبال کو واقعتاً ’’اقبال‘‘ بنایا۔ یہ سب ہی مجموعے ان کے فن و فکرکو متعارف کروانے اور ان کے اثرات کو ہر چہار جانب عام کرنے میں بنیادی اہمیت کے حامل ٹھہرے، لیکن اُن کی فکری جہات اور نظری و علمی پختگی و بالیدگی کو ظاہر کرنے میں جو کردار ’’جاوید نامہ‘‘ نے ادا کیا ، وہ مجموعی طور پر دیگر اگلے پچھلے سارے کام سے بڑھ کر ہے۔
اس لحاظ سے’’جاوید نامہ‘‘ اقبال کی ایسی تخلیق اور کاوش ہے، جو دیگر کاوشوں کے مقابلے میں اُنہیں سب سے منفرد و ممتاز کرتی ہے۔ اسی لیے ’’جاوید نامہ‘‘ کا انتخاب و تعارف اُردو کے علاوہ فارسی، عربی اور متعدد دیگر زبانوں میں تشریحات کے ساتھ شایع کیا گیا۔ نیز، اسی روایت کے عالمی تسلسل میں اس کا ترجمہ جاپانی زبان میں بھی ایک نہایت قابلِ تحسین اقدام، فیصلہ ، جوجاپان میں اُردو زبان کے اُستاد پروفیسر ہیروجی کتاؤکا کی توجہ اور محنت کے نتیجے میں عمل میں آیا۔
پروفیسر ہیروجی کتاؤکا نام جاپان میں اردو، فارسی ادب کے حوالے سے خاصا جانا پہچاناہے۔ وہ نصف صدی سے زاید عرصے سے جاپان میں اُردو زبان و ادب کے سیکھنے سکھانے اور تدریس کےساتھ تصنیف و تراجم کے کام سے منسلک ہیں ۔ اوساکا یونی وَرسٹی اور سائتاما میں واقع دائتو بنکا یونی وَرسٹی کے شعبۂ اردو کے بانی ہونے کا بھی اعزاز رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ جاپانی طلبہ کو پاکستانی تہذیب و معاشرت سےمتعارف کروانے اور پھر قریب تر کرنے میں گزرا۔
اس ضمن میں پروفیسر ہیروجی نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اُردو زبان و ادب کے مطالعے،تصنیف و تالیف اور ترجمے پر بھی خاصا وقت صرف کیا۔ وہ اردو زبان و ادب کے متعدّد شاہ کاروں کے ترجمے جاپانی زبان میں شایع کر چُکے ہیں اور’’جاوید نامہ ‘‘کا جاپانی زبان میں ترجمہ بھی اُن ہی کی کاوشوں کی ایک تازہ تر کڑی ہے، جب کہ قبل ازیںانھوں نے اقبالؒ کے اولین فارسی شعری مجموعے ’’اسرارِ خودی‘‘ کا ترجمہ و تشریح بھی تین اقساط میں اپنی یونی وَرسٹی کے تحقیقی مجلے :Journal of Daito Bunka (58), pp 9-29; (59) pp 1-20; (59) pp277-295.، میں شایع کروائے۔
نیز، اردو شعری مجموعوں میں سے: بانگ درا، بالِ جبریل اورضرب ِکلیم کے ترجمے بھی کتابی صورتوں میں شایع کرنے کا اعزاز حاصل کرچُکے ہیں۔ اس اعتبار سے پروفیسر ہیروجی کتاؤکا نے جاپان میں رہتے ہوئے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں، وہ اُن کی اقبال سے عقیدت کی بہترین دلیل ہیں۔ یوں بھی پروفیسر کتاؤکا نے اپنی ساری زندگی جس سنجیدگی و یک سوئی میں گزاری، ہمہ وقت تدریسی، علمی و تصنیفی کام کیے، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اپنے کام کے حوالے سے کس قدر دیانت دار اور محنتی ہیں۔
ہماری علمی، ادبی اور قومی تاریخ میں متعدّد اکابرِ قلم کے کارنامے اپنی مثال آپ ہیں، جنھوں نے اپنی قوم کی بیداری ، شعور و آگہی کے ضمن میں نہایت مؤثر کوششیں کیں۔ ان میں سرِفہرست بانی علی گڑھ تحریک، سر سیّد احمد خان ہیں، جن کی فکر و حکمت اور شاعری نے نہ صرف مسلمانوں کو بیدار کیا، بلکہ ان میں قومی و ملّی شعور بھی اُجاگر کیا۔
سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے باقاعدہ ایک منظّم تحریک شروع کی اوراُنہیںایک قوم بننے پر راغب کیا۔ اس حوالے سے متعدد کتب، مقالات اور مضامین بھی لکھے، جب کہ ان کی تمام ترعملی کوششوں میں اُن کی تصنیف’’ اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے، تو اسی اعتبار سے اقبال کی بھی متعدد تصانیف و تخلیقات جہاں نہایت اہم اور موثر ہیں، وہیں ’’جاویدنامہ‘‘ کاتو کوئی مول ہی نہیں کہ جس نے مسلمانوں کو عقل و شعور عطا کرنے اور حصولِ منزل کے مقام تک رسائی میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔