مولانا نے مسدس میں اس عہد کا ذکر کیا ہے جب کرئہ ارض پر تہذیب و تمدن کی قیادت و سیادت مسلم معاشرے کے پاس تھی، خصوصیت کے ساتھ یورپ کا ہزار سالہ عہد تاریک (پانچویں صدی عیسوی سے پندرھویں صدی تک) میں مسلم معاشرے کا منظر نامہ یورپ یے یکسر مختلف تھا اور بغداد کو نیا ایتھنز (New Athens) کہا گیا ہے۔ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ کرئہ ارض پر تہذیب و تمدن کا سفر ارتقا علم و شعور کی رہبری میں طے ہوتا آیا ہے، مذکورہ نیا ایتھنز بغداد 1258ء کے بعد ہلاکو خان کے ہاتھوں تباہی و بربادی کے نتیجے میں تاریخ کا حصہ بن گیا۔
مولانا حالی نے اپنے پورے طویل مسدس میں اس دور کا ذکر کیا ہے جب مسلم معاشرہ علم و حکمت کا گہوارہ تھا اور مفکرین اور اہل علم و دانش کی ایک کہکشاں مسلم حکومتوں کے مراکز کے گرد جگمگا رہی تھی، اور پھر اس عہد ظلمت کا بیان ہے جب یہ کہکشاں اندھیروں میں گم ہوگئی۔ حالی نے مرض کی تشخیص ٹھیک ٹھیک کی تھی اور سرسید کی زیر قیادت و سیادت برصغیر میں مسلم نشاۃ ثانیہ کی تحریک چل رہی تھی۔ حالی نے اس تحریک کی بھرپور اور پرجوش تائید و حمایت کی۔
مولانا حالی نے ’’عرض حال‘‘ میں امت کی زوال آمادگی کا سرچشمہ جہل و توہم پرستی کو قرار دیا تھا اور علم و شعور و ادراک سے محرومی کو اس انحطاط و زبوں حالی کا سبب قرار دیا تھا۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے
جو دین کہ گودوں میں پلا تھا حکما کی
وہ عرضہ تیغ جہلا و سفہا ہے
جو قوم کہ مالک تھی علوم اور حکم کی
اب علم کا واں نام نہ حکمت کا پتا ہے
مذکورہ صورت اور بیان کی تائید میں مولانا حالی نے متعدد مسلم مفکرین، فلسفیوں اور سائنس دانوں کے نام بھی مسدس میں شامل کیا ہے۔
اکیسویں صدی بیسویں صدی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور ابھی دو عشرے بھی نہیں گزرے ہیں، لہٰذا مسدس کے مطالعے میں دونوں صدیوں کے سماجی سفر ارتقا کو پیش نظر رکھے بغیر موضوع گفتگو کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ صدی کے عشرے میں اپنی کثیر الجہات تبدیلیوں اور ترقیوں کے لحاظ سے صدیوں پر بھاری ٹھہرتے ہیں۔ بیسویں صدی میں تاریخ کی سب سے بڑی دو بھیانک ترین عالمی جنگوں کے دوران کروڑوں انسان ہلاک ہوئے اور کرئہ ارض کا سیاسی نقشہ وسیع بنیادوں پر تبدیل ہوا۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ جس کے ’خلافت عثمانیہ‘ کے نام سے تھی تاریخ میں حوالے ملتے ہیں، شکست و ریخت سے دوچار ہوئی، اور 1924ء میں مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک نے خلافت کے ادارے کے خاتمے کا رسمی طور پر فرمان جاری کیا اور ترکی کو ایک سیکولر جمہوریہ قرار دیا جسے یورپ کا مرد بیمار بھی کہا جاتا تھا، وہ جلد ہی ایک ترقی یافتہ ملک بن گیا۔
مذکورہ خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت کے حوالے سے ہندوستانی مسلم معاشرے میں ایک بڑی تحریک جسے ’تحریک خلافت‘ کے نام سے تاریخ میں باضابطہ باب کا درجہ حاصل ہے، یہ تحریک صرف ہندوستانی مسلمانوں نے چلائی، جبکہ خود ترکی کے عوام نے اس نوعیت کوئی تحریک چلانے کے متعلق کسی مرحلے میں نہیں سوچا۔ یہ تحریک کبھی کسی معنویت کی حامل نہیں تھی اور ہندی مسلمانوں کی انھی جذباتیت کا مظہر تھی۔
واضح رہے کہ خلافت راشدہ کے بعد قائم ہونے والی مسلم حکومتیں اور سلطنتیں خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ 90 برس تک قائم رہنے والی بنی امیہ کی حکومت باضابطہ موروثی بادشاہت تھی، اسی طرح بنی امیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی پانچ صدیوں پر محیط حکومت اور سلطنت تھی جسے ’خلافت عباسیہ‘ کے نام سے موسوم کیا گیا جو اسی نام کے حوالے سے تاریخ کا حصہ ہے۔ ’خلافت‘ کی اصطلاح مذکورہ تینوں سلطنتوں یعنی بنی امیہ، بنی عباس اور سلطنت عثمانیہ نے اپنی اپنی موروثی بادشاہتوں کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات اور عقیدت کا استحصال کرنے کی غرض سے لفظ ’خلافت‘ کا لاحقہ لگایا اور اس لفظ کے تقدس کو پامال کرنے میں تینوں سلطنتوں اور حکومتوں کے عمائدین نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
ایک نام نہاد خلیفہ کے انتقال کے بعد اقتدار کی جنگ اسی طرح سے تاریخ کا حصہ بنی جس طرح ہندوستان میں ہزار سالہ مسلم دور حکومت میں دیکھنے میں آئی۔ مسدس میں ان ادوار کے حوالے بھی مختلف تناظر میں ملتے ہیں، اور خاص طور پر آخری وسیع تر مسلم سلطنت نام نہاد خلافت عثمانیہ جس کا دورانیہ پچھلی دونوں سلطنتوں سے زیادہ رہا ہے جو کم و بیش چھ صدیوں پر محیط تھا، اس کا حوالہ ’’مدوجزر اسلام‘‘ کے باب میں ہندوستانی مسلم معاشرے کے زوال اور زبوں حالی کے دوش بدوش نظر آتا ہے اور مولانا نے اس کے بیان میں الم ناکی کی وہی شدت قائم رکھی ہے جو مسدس کے مجموعی تاثر میں نظر آتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور صنعتی انقلاب کے بعد اکیسویں صدی کی دوسری نصف صدی میں ایک نئے انقلاب کا ظہور ہوا یعنی سائنسی، تکنیکی انقلاب جس کے بطن سے اطلاعات کا انقلاب پیدا ہوا۔ ان انقلابات سے جن دریافتوں اور ایجادات کا سلسلہ شروع، اس نے کرئہ ارض کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا، اور اب سوچ کے دائرے گلوبل ولیج کے تناظر میں پھیلتے ہیں۔ یہ گلوبل ولیج کا عہد سائنس اور تکنیکی ایجادات کی معجز نمائیوں کا عہد ہے۔
مذکورہ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر مسلم معاشرے اور مسلم دنیا پر نظر ڈالیے تو مسدس کے مطالعے کا بالکل نیا تناظر سامنے آئے گا۔ آج کی مسلم دنیا اور مسلم معاشرے کو بڑی سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔ مسلم دنیا جو 57 ممالک پر مشتمل ہے، کہیں بھی ہم عصر سماجی زندگی کے تقاضوں اور مسائل پر سنجیدگی سے کوئی تحقیقی ک کام نہیں ہورہا ہے کہیں بھی تحقیقی اور سائنسی جستجو کی روایات قائم نہیں ہوئی ہیں۔
اس کا بنیادی سبب وہ فکر و نظر ہے جس کے مطابق سائنسی اور تکنیکی ایجادات اور حاصلات اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور ترقیاں ان کے لیے بے معنی بلکہ خود اسلام کے مجموعی نظام عقائد سے متصادم ہیں، کیوں کہ وہ جدید علوم اور سائنسی فکر و نظر کو کفر و الحاد جانتے ہیں۔ بیسویں صدی میں اسلام کے حوالے سے نئے نئے نظریات اور تصورات سامنے لائے گئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی ضبط تحریر میں نہیں لائے گئے تھے۔
بیسویں صدی تک دین اسلام کے ساتھ جو روحانی اقدار، اوامرونواہی، فرائض و واجبات، اخلاقیات اور تزکیہ نفس کے نصب العین وابستہ رہے تھے، انہیں ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے اور اسلام کے ساتھ نئے نئے ساتھ اور لاحقے لگادیے گئے ہیں۔ اسلام ہمارے لیے دفن فطرت ہے۔ اس کو قانون فطرت سے متصادم قرار دینا میرے نزدیک روح اسلام کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ تبدیلی اور ترقی، یعنی قانون ارتقا کے حوالے سے علامہ اقبال کا تصور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال نے کائنات کے حرکی اور ارتقائی تصور پر زور دیا ہے۔ ان کے نزدیک تمام موجودات عالم جن میں ا نسان بھی شامل ہے قانون حرکت و تغیر کے تابع ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہور نظم ’ساقی نامہ‘ میں لکھا ہے:
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر زرئہ کائنات
تھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود
دما دم رواں ہے یم زندگی
ہے ہر اک سے پیدا رم زندگی
علامہ اقبال نے انہی خیالات کا اظہار اپنی متعدد نظموں، بشمول ’ارتقا‘ اور ’زمانہ‘ میں بھی لکھا ہے۔ دراصل تغیر اور ارتقا کا تصور علامہ اقبال کی فکر کا نہایت اہم جزو ہے۔ ان کے نزدیک تخلیق مسلسل کا تصور خالص اسلامی ہے۔ ان کا یہ شعر اسی زاویہ فکر کا ترجمان ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صداے کن فیکون
علامہ کا یہ شعر بھی اسی فکر کا ترجمان ہے:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
مذکورہ مکتبہ خیال کے مبلغین کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ وہ آج بھی ایک ایسے معاشرے کی تعمیر و تشکیل کا خواب دیکھ رہے ہیں جس میں معاشرے کی پوری نصف آبادی یعنی بنت حوا کو زیور تعلیم سے محروم رکھنا اور دور رکھنا روح شریعت اسلامی کے عین مطابق ہے۔ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ بقول پروفیسر فشر ’’تیرھویں صدی عیسوی میں روشنی کی جو کرنیں یورپ میں پہنچیں، وہ یونان سے نہیں بلکہ اسپین کے عربوں کے ذریعے آئیں‘‘۔ یورپ جب اپنے ہزار سالہ عہد تاریک میں تھا تو دنیا علم و شعور کی روشنی مسلم دنیا سے مل رہی تھی۔ اسے مسلم تاریخ کا المیہ کہیے کہ 1258ء میں بغداد کے زوال کے بعد علم و شعور کا رازی اور ابن رشد کے قبیلے کا کوئی مہروماہ دنیا کے افق پر نمودار نہیں ہوا اور جب سے کوئی دریافت اور ایجاد مسلم دنیا سے منسوخ و موسوم نہیں ہے۔
یہ صورت حال مسلم معاشرے کے اس Mind-Set کی پیداوار ہے جو علم کو حجاب اکبر گردانتے ہیں۔ جب علم و شعور کا یہ معاشرہ امین تھا تو ان کی سلطنتیں بھی تھیں اور 1258ء یعنی بغداد کی تباہی کے بعد ہماری ہر شعبہ حیات میں پسپائی کی بنیادی وجہ علم و شعور سے دوری ٹھہری ہے۔ واضح رہے کہ زوال بغداد کے بعد بھی سیاسی طور پر مسلم معاشرے کو پسپائی اور تنزل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، کیوں کہ خلافت عباسیہ کے بعد خلافت عثمانیہ کا دور اقتدار ایشیا اور شمالی افریقا میں بیسویں صدی کے پہلے دو عشروں تک رہا، مگر یہی وہ دور ہے جب ہندوستان میں ہزار سالہ مسلم دور حکومت رہا مگر علم و آگہی کی روشنی سے دوری اور بے گانگی اندرونی طور پر مسلم معاشرے کو کھوکھلا کرتی رہی اس ضمن میں چھاپہ خانہ کی ایجاد کا ذکر اور کردار کا بیان بے محل نہیں ہے۔
علم و آگہی کے جلو میں سفر ارتقا ایک انقلاب آفریں عہد میں داخل ہوا جب جرمنی میں جوہان گتن برگ (Johann Gutenberg) (1446ء- 1400ء) نے پندرھویں صدی عیسوی میں چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ چھاپہ خانے کی ایجاد سے دراصل عہد جدید کا آغاز ہوا۔ اس انقلاب آفریں ایجاد کے نتیجے میں علم کا سورج کرئہ ارض کو منور کرگیا۔
اس سورج کی روشنی سے مسلم معاشرہ ایک عرصہ دراز تک محروم رہا۔ سلطنت عثمانیہ میں چھاپہ خانہ لگانے کی اجازت تقریباً دو صدی قبل دی گئی اور یہی صورت حال سلطنت مغلیہ میں رہی، یعنی اکبر کے دربار میں حاضر ہوکر جب پرتگیزی پادریوں نے ہندوستان میں چھاپہ خانہ لگانے یک پیش کش کی تو اسے یہ کہہ کر ٹھکرادیا گیا کہ چھاپہ خانہ لگنے کے نتیجے میں ہزاروں کاتب بے روزگار ہوجائیں گے۔
غرض یہ کہ مسلم معاشرہ عہد جدید کی تبدیلیوں اور ترقیوں سے دور اور محروم رہا اور مسلم معاشرے میں کوئی نشاۃ ثانیہ، کوئی صنعتی انقلاب اور کوئی جمہوری انقلاب برپا نہیں ہوا۔ ہندوستان میں عہد جدید کا آغاز برطانوی نوآبادیاتی نظام کے سایہ عاطفت میں ہوا۔ تاریخی تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلم معاشرہ عہد غلامی سے نکل کر جاگیرداری عہد میں کئی صدیوں سے قید ہے۔ آج بھی مسلم معاشرہ سائنس اور ٹکنالوجی سے بے بہرہ اور بے گانہ ہے۔ وہ اشیا جو وہ استعمال کررہا ہے اور آسانیاں جو اسے حاصل ہیں، اس کے سرچشموں یعنی سائنسی نظریات سے نہ صرف وہ بے خبر بلکہ ان کا منکر بھی ہے اور انہیں اپنے عقائد سے متصادم سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ صدیوں سے جو دریافتیں اور ایجادات ہوئی ہیں، ان میں مسلم دنیا کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
مسدس میں مولانا حالی نے یہ مرثیہ یا طویل نوحہ انیسویں صدی تک کی عمومی طور پر مسلم دنیا اور خصوصی طور پر ہندی مسلم معاشرے کے حوالے سے لکھا اور اس کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوئے، مگر مجموعی طور پر معاشرہ اس دور انحطاط و تنزل سے تو باہر نکل چکا ہے اور آج مسلم دنیا 57 ممالک پر مشتمل ہے اور یہ سب کے سب آزاد ریاستیں ہیں اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، خصوصیت کے ساتھ مشرق وسطی یعنی عرب دنیا بشمول ایران و ترکی ترقی یافتہ دنیا کا حصہ دکھائی دیتے ہیں، مگر سماجی اور سیاسی طور پر یہ سب کے سب بحران در بحران میں مبتلا ہیں اور عسکریت پسندی، راسخ العقیدگی اور مذہبی انتہا پسندی یعنی فسطائیت سے دوچار ہیں کہنے کو آج بھی کچھ اصطلاحیں ہمارے Mind-Set کا حصہ ہیں یعنی ملت اسلامیہ امت واحدہ اور تمام مسلمان رشتہ اخوت میں بندھے ہوئے ہیں، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ 57 مسلم ممالک کے شہری کسی دوسرے مسلم ملک کی شہریت حاصل نہیں کرسکتے جبکہ مغربی دنیا میں تمام ایشیائی اور افریقی اقوام سے تعلق رکھنے والوں کے لیے جن میں مسلم آبادی بھی شامل ہے، کچھ شرائط و ضوابط کی روشنی میں معینہ عرصہ قیام کے بعد انہیں شہریت مل جاتی ہے اور بحیثیت شہری انہیں مساوی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں مغربی دنیا کے حوالے سے ہمارے مذہبی حقوق کی بدنمائیوں کے باب میں کیا عرض کیا جائے؟
اپنے گھر میں دہشت گردی کے واقعات و سانحات جو ان کی حامی مسلم تنظیمیں رونما کرتی رہتی ہیں، ان کے نتیجے میں ہمارا اپنا ملک زیادہ متاثر ہے، مگر یہ حلقے یورپ اور امریکا میں دہشت گردی کے کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں اور مسلم معاشرے کو وحشت و بربریت کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں، سب سے زیادہ انسانیت دوست مذہب کو سب سے زیادہ انسانیت دشمن لبادہ پہنا رے ہیں۔ مولانا حالی اس صورت حال یعنی اکیسویں صدی کے تناظر میں اگر ایک نیا مسدس تصنیف کرتے تو اس کا موضوع پہلے مسدس سے زیادہ الم ناک منظر نامہ ہوتا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی