لندن (پی اے) ٹریژری نے ٹیکس میں ناگزیر اضافے کے بارے میں متنبہ کیا ہے کیونکہ نومنتخب وزیراعظم رشی سوناک پبلک فنانسز میں ہول کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ وزیراعظم رشی سوناک اور نئے چانسلر جیریمی ہنٹ پیر کو ملاقات کی اور 17نومبر کو فنانشل سٹبٹمنٹ کیلئے آپشنز کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ۔ ملاقات کے دوران دونوں نے ٹیکس میں اضافہ کرنے اور اخراجات کے بارے میں سخت فیصلے کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔ ٹریژرزی نے اس ملاقات میں کیے جانےوالے فیصلوں کی کوئی تفصیلات نہیں دی ہیں لیکن کہا کہ ہر شخص کو آنے والے برسوں میں ٹیکسوں میں زیادہ کنٹری بیوشن کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریژری کے ذرائع نے پبلک فنانسز میں بلیک ہول کے حوالے سے کوئی فکس اعداد و شمارکی نشاندہی نہیں کی ہے لیکن بی بی سی کو پہلے بتایا گیا تھا کہ یہ کم از کم 50بلین پونڈ ہو سکتا ہے۔ ٹرفژزی ذرائع نے کہا کہ آنے والا وقت خاصا مشکل ہے سچ یہ ہے کہ اگر ہم پبلک سروسز کو جاری اور برقرار رکھا چاہتے ہیں تو بھر ہر شخص کو ٹیکسز میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنے کی ضرورت ہو گی۔ ذرائع نے کہا کہ انرجی بلز سپورٹ اور کورونا وائرس کوویڈ 19پینڈامک سپورٹ کی مد میں بڑنے پیمانے پر قرض لیے گئے تھے۔ اور صرف سپینڈنگز کٹوتیوں کے ذریعے ہم پبلک فنانسز میں اس بڑے بلیک ہول کو پر کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ ٹریژری کا کہنا ہے کہ فنانشل بلیک ہول کے چشم کشا سائز کو دیکھتے ہوئے اس ملاقات کے دوران وزیراعظم رشی سوناک اور چانسلر جیریمی ہنٹ نے ٹیکسوں میں اضافہ کرنےکے ساتھ ساتھ اس بات پر اصولی اتفاق کیا ہے کہ سپینڈنگز کے حوالے سے بھی سخت فیصلے کیے جائیں گے۔ حکومت کے ٹھوس پلانز کی کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں لیکن ٹریژری کے ایک ذریعے نے ڈیلی ٹیلی گراف کو بتایا کہ چانسلر مسٹر ہنٹ بجٹ میں کمی کو ٹیکس میں 50 فیصد اضافے اور پبلک سپینڈنگز میں 50 فیصد کٹوتیوں کے ذریعے پورا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ جبکہ ٹریژری کا کہنا ہے کہ مسٹر رشی سوناک اور چانسلر ہنٹ نے اس اصول پر اتفاق کیا ہے کہ جو کندھے مالی طور پر زیادہ مضبوط ہیں ان کو سب سے زیادہ مالی بو جھ اٹھانے کیلئے کہا جانا چاہیے ۔ تاہم ٹریژری نے متنبہ کیا کہ اس نے متنبہ کیا کہ ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کی وسعت کو دیکھتے ہوئے یہ ناگزیر ہے کہ آئندہ برسوں میں ہر ایک کو ٹیکس میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنے کی ضرورت ہو گی ۔ ملک میں افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور عوام کو زور مرہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور انرجی بلز میں اضافے کی وجہ سے مصارف زندگی بحران کا سامنا ہے۔ لوگوں نے افراط زر میں اضافے کی وجہ سے اپنی تفریحات اور اپنے اخراجات کو کم کر دیا ہے۔ لوگوں نے انرجی کا استعمال بھی کم کر دیا ہے۔ چیرٹیز نے متنبہ کیا ہے کہ بڑھتے ہوئے انرجی بلز کی وجہ سے اس موسم سرما میں لوگوں کو اپنے گھروں کو گرم رکھنے میں شدید مشکلات پیش پئیں گی اور اس کے قوی خدشات ہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعاد اپنے گھروں کو گرم رکھنے سے محروم رہے ۔ حکومت سمت میں آنےوالی اس تبدیلی کی لہر پر عوام کو تیار رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ رشی سوناک نے گزشتہ ہفتے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھلا تھا اور 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں داخل ہوتے ہی سوناک نے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ آئندہ مہینوں میں انہیں پبلک فنانسز انتظامات کے حوالے سے ایک وسیع معاشی چیلنج کا سامنا کرنا ہو گا ۔گزشتہ ماہ جیریمی ہنٹ نے نے کہا تھا کہ حکومت کو پبلک فنانسز پر اعتماد بحمال کرنے کیلئے آنکھوں میں پانی لانے والے کچھ سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ چانسلر جیریمی ہنٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم لز ٹرس کی جانب سے ستمبر کے منی بجٹ میں متعارف کروائے گئے بیشتر اقدامات کو واپس اور تبدیل کیے جانے کے بعد فسکل شارٹ فال کچھ سکڑ گیا ہے ۔ اس وقت انسٹی ٹیوٹ آف فسکل سٹڈیز ( آئی ایف ایس ) نے اندازہ لگایا تھا کہ فنانشل شرٹ فال 62 بلین پونڈ تک ہو سکتا ہے۔ حکومت نے چانسلر جیریمی ہنٹ کے فسکل سٹیٹمنٹ کو 17 نومبر تک موخر کر دیا ہے کیونکہ اسے امید ہے اس وقت تک اکنامک آؤٹ لک قدرے بہتر ہو جائے گا ۔ اس کے باوجود آفس فار بجٹ رسپانسیبیلٹی ( او بی آر ) اگلے سال کساد بازاری کی ٹیش گوئی کر سکتا ہے۔ کہ جی ڈی پی فورکاسٹ 2024 کے آخر تک کم ہو کر 4 فیصد پر آ جائے گی ۔ رشی سوناک کی زیرقیادت ٹوری حکومت کے زیر غور دیگر اقدامات میں پنشن کے ٹرپل لاک کو ختم کرنا اور مہنگائی کے ساتھ بڑھتے ہوئے بینیفٹس کو روکنا شامل ہیں جن سے پبلک سپینڈنگز میں حکومت کو 9 بلین پونں تک بچت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ سمجھا جاتا ہے کہ انکم ٹیکس ‘ نیشنل انشورنس اور وی اے ٹی کے ریٹس میں اضافہ کو اس جوڑے نے مسترد کر دیا ہے۔ تھنک ٹینک ریزولوش فاؤنڈیشن کی ایک نئی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ حکومت کو درپیش بہت سے مالیاتی آپشنز خاصے مشکل اورنافقابل تسخیر ہیں جن کے نتیجے میں فنانشل شرٹ فال کو پورا کرنے کی کوشش میں مزید لوگ بلند تر 40 فیصد ریٹ آف ٹیکس میں دھکیلے جا سکتے ہیں ۔ وزیراعظم رشی سوناک نے یہ بھی کہا ہے کہ دو سال کے انٹرنیشنلایڈ کو منجمد کرنے اور انویسٹمنٹ سپینڈنگز کو کم کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں نے پہلے ہی متنبہ کیا ہے کہ کنزرویٹو حکومتوں کے تحت برسوں کی کفایت شعاری کے بعد پبلک سپینڈنگز میں مزید کٹوتی کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ اس طرح کے اقدامات مسٹر سوناک کیلئے خاصے سیاسی سر درد کا باعث بھی بن سکتے ہیں ۔ وزیراعظم رشی سوناک کے ڈیفنس سیکرٹری بین ویلس جو کنزرویٹو پارٹی ایکٹیوسٹس میں بڑے پیمانے پر مقبول ہیں پہلے ہی دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر ڈیفنس اخراجات جی ڈی پی کے 3 فیصد تک نہ بڑھے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے ۔