پاکستانی کپتان بابر اعظم واقعی قسمت کے دھنی ہیں جب سے وہ کپتان بنے ہیں ان کی قیادت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے وہ فتوحات سمیٹی ہیں جو شائد کسی اور کی قسمت میں نہ تھیں۔ نوجوان کھلاڑیوں کو اعتماد دے کر بابر اعظم نے دنیا بھر میں پاکستان کرکٹ کی دھاک بٹھا ئی ہوئی ہے۔ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں اتوار کی صبح تک کسی کو توقع نہ تھی کہ نیدر لینڈ، جنوبی افریقا کو اپ سیٹ کرے گا اور پاکستان بنگلہ دیش کو شکست دے کر چھٹی بار میگا ایونٹ کے سیمی فائنل میں کھیلے گا۔ لیکن قسمت نے پاکستان ٹیم کو بھرپور ساتھ دیا۔ زمبابوے کے ہاتھوں شکست کے بعد بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی واپسی کا ٹکٹ پکا ہے۔
لیکن قدرت کے نظام میں قسمت نے ایک بار پھر بابر اعظم اور پاکستانی ٹیم کا ساتھ دیا اور پاکستان نے سیمی فائنل میں جگہ بنالی۔ بدھ کو پاکستان کا سیمی فائنل سڈنی میں نیوزی لینڈ کے ساتھ ہے جبکہ جمعرات کو ایڈیلیڈ میں بھارت اور انگلینڈ دوسرے سیمی فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے۔ نیدر لینڈ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپ سیٹ کرنے کا فن خوب آتا ہے۔ اس سے قبل اس نے دو مرتبہ انگلینڈ کو شکست دے رکھی تھی۔ جنوبی افریقی ٹیم نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ آئی سی سی ایونٹنس میں وہ راہ سے بھٹک جاتی ہے، اسی لیے چوکر کہلاتی ہے۔
ہالینڈ کی اس یادگار جیت کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے سیمی فائنل میں قدم رکھنے کے لیے بنگلہ دیش کو ہرانا لازمی ہوگیا تھا اور اس نے اس بار کوئی غلطی کیے بغیر 5 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرکے آخری چار ٹیموں میں جگہ بنالی۔چوکرز ایک بار پھر بڑے میچ میں چوک کر گئے لیکن پاکستان اب ٹرافی سے دو قدم دور ہے۔
شاہین شاہ آفریدی جو طویل انجری کے بعد ورلڈ کپ میں واپس آئے تھے انہوں نے چار وکٹ لے کر پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔شاہین شاہ آفریدی نے 22 رنز دے کرچار وکٹیں حاصل کی ہیں جو ان کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بہترین بولنگ ہے۔ اس سے قبل ان کی بہترین بولنگ تین روز پہلے ہی جنوبی افریقاکے خلاف رہی تھی جس میں انہوں نے 14رنز دے کر3 کھلاڑی آؤٹ کیے تھے۔ شاہین نے میچ کے بعد اعتراف کیا کہ انجری سے واپسی میں وقت لگتا ہے، پاکستان ٹیم کو ضرورت تھی اس لیے جلدی کم بیک کیا۔
ایڈیلیڈ کی پچ پر لمبےاسٹروکس کھیلنا اتنا آسان نہیں تھا۔ سابق کرکٹرز کو چاہیے کہ جب ٹیم مشکل میں ہو تو سپورٹ کریں، ایسے وقت میں سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایڈیلیڈ کے گراونڈ سے پاکستانی شائقین کی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔یہ وہی میدان ہے جہاں 1992 کے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی قسمت بدلی تھی۔
انگلینڈ کے خلاف وہ صرف 74 رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی لیکن بارش کی وجہ سے دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا تھا اور یہی ایک پوائنٹ اسے آگے لے گیا اور اب تیس سال بعد پاکستانی ٹیم نے اس گراؤنڈ سے اہم موڑ لیا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم جس طرح گرتے گرتے اٹھی اور توقعات کے برعکس سیمی فائنل میں پہنچی ہے اسے اب شائد روکنا آسان نہیں ہوگا۔
بھارت سے آخری اوور میں شکست اور زمبابوے سے آخری گیند پر ہار کے بعد پاکستان ٹورنامنٹ سے باہر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔اس ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں نوجوان محمد حارث کی کارکردگی نے بھی حیران کردیا ہے۔بنگلہ دیش کے خلاف18گیندوں پر31رنز نے پاکستان کے سفر کو آسان کردیا تھا اس سے قبل پاکستان کی جنوبی افریقاکے خلاف جیت میں اگرچہ نمایاں کردار افتخار احمد اور شاداب خان کی شاندار بیٹنگ کا نظر آتا ہے جن کی نصف سنچریوں کی بدولت پاکستانی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں اپنا سب سے بڑاا سکور کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن اگر دیکھا جائے تو دلیری سے بیٹنگ کرنے کا سبق محمد حارث دے گئے۔ محمد حارث ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ٹریولنگ ریزرو میں شامل تھے کہ فخر زمان کے ان فٹ ہوجانے کے سبب انھیں پلیئنگ اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔
محمد حارث کا کہنا ہے کہ میں یہی سوچ کر بیٹنگ کرنے گیا تھا کہ بہادری سے کھیلنا ہے اور ان کے کسی بھی بولر کے بارے میں یہ نہیں سوچنا کہ وہ کتنے تجربہ کار ہیں یا کتنے مشہور ہیں۔ میں نے ذہن میں یہی ایک بات رکھی ہوئی تھی کہ صرف گیند کو دیکھنا ہے، فاسٹ بولرز کو نہیں چونکہ مجھے سب گوگل کہہ کر پکارتے ہیں لہذا مجھے ان تمام فاسٹ بولرز کا اچھی طرح پتہ تھا میں ان کی ویڈیوز دیکھتا رہا ہوں۔ میچ سے قبل بھی ان بولرز کی ویڈیوز دیکھی تھیں۔ حارث کچھ عرصے سے ٹیم کا حصہ ہیں لیکن آصف علی اور خوش دل کی مسلسل ناکامی کے بعد انہیں موقع ملا اور انہوں نے اپنی دھواں دار بیٹنگ سے ماہرین کو حیران کردیا۔
حارث کہتے ہیں کہ آسٹریلوی وکٹیں میری بیٹنگ کے اسٹائل کے مطابق ہیں اور میں اسی اعتماد کے ساتھ بیٹنگ کرنے گیا تھا۔ یہ اعتماد مجھے کپتان بابراعظم اور ٹیم منیجمنٹ نے دیا تھا۔ ٹیم میٹنگ میں بابر اعظم بھی کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی بات کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ میچ فنش کرو آپ کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ محمد حارث نے اس سال پاکستان سپر لیگ میں پشاور زلمی کی نمائندگی کرتے ہوئے کراچی کنگز کے خلاف میچ میں صرف 27 گیندوں پر 49 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی تھی جس میں چار چھکے اور تین چوکے شامل تھے۔
یہ کارکردگی انھیں مین آف دی میچ ایوارڈ دلانے کا سبب بنی۔ محمد حارث نے ایک اور قابل ذکر اننگز اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کھیلی جس میں انھوں نے پانچ چھکوں اور سات چوکوں کی مدد 70 رنزا سکور کیے اور دوسری مرتبہ مین آف دی میچ بنے تھے۔ وہ پاکستان کی طرف سے چار ون ڈے انٹرنیشنل میں صرف 10 رنز بنا پائے ہیں جبکہ جنوبی افریقاکے خلاف میچ سے قبل انھوں نے جو ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلا تھا اس میں وہ صرف سات رنز بنا سکے تھےمحمد حارث نے جنوبی افریقا کے خلاف جس طرح اپنی آمد کا نقارہ بجایا تھا، اس نے ایک افسردہ بیٹنگ لائن میں نئی روح پھونک دی تھی اور پاکستان نے ٹورنامنٹ میں درست وقت پر مومینٹم حاصل کیا جو نیدرلینڈز کی مدد شا مل حال ہونے سے آسان ہو گیا۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کے لئے آسٹریلیا پہنچی تو وہ ایک دن پہلے نیوزی لینڈ میں تین قومی ٹورنامنٹ جیت چکی تھی فائنل میں اس نے نیوزی لینڈ کو شکست دی۔ اس لئے پاکستان ٹورنامنٹ جیتنے کے لئے فیورٹ تھا لیکن زمبابوے کے ہاتھوں غیر متوقع شکست نے کئی کرکٹرز کی رائے بدل دی۔زمبابوے کے ہاتھوں شکست کے بعد شعیب اختر نے سخت ردعمل دکھایا انہوں نے کہا کہ اگر زمبابوے ہے تو خود ہی ہو جائے سب کچھ؟ نہیں، خود نہیں ہوتا، کرنا پڑتا ہے۔اوسط ذہنیت، اوسط نتائج۔ یہ حقیقت ہے، اس کا سامنا کریں۔ابتدائی دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان نے اگلے تینوں میچ جیت لئے اب اس کا مقابلہ نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوگا۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم خطرنا ک ہے اس کے پاس اس فارمیٹ کے بہترین کھلاڑی ہیں لیکن سڈنی کی پچ اسپنرز کے لئے سازگار ہے اس لئے شاداب خان،افتخار احمد اور محمد نواز نیوزی لینڈ کے جارح مزاج بیٹرز کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ ورلڈ کپ میں پاکستانی اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان کا بیٹ خاموش ہے لیکن دونوں بڑے کھلاڑی ہیں اگر بابر اور رضوان اپنے مرتبے کے مطابق سیمی فائنل اور فائنل میں کارکردگی دکھائیں تو شائد پاکستان کو ٹرافی جیتنے سے روکنا مشکل ہوگا۔ بابر اعظم کی بیٹنگ سے دنیا بھر کے بولر خائف رہتے ہیں بابر اعظم بلاشبہ قسمت کے دھنی ہیں اور اپنی بیٹنگ سے پاکستان کو یادگار فتوحات اور ورلڈ کپ ٹائٹل جتواسکتے ہیں۔