دو دن قبل مجھے ذرائع نے اطلاع دی کہ کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے۔ میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ ایک دو دن میں تفصیل معلوم ہوجائے گی۔ ملکی حالات کو دیکھ کر سوچا کہ کیا گڑ بڑ ہو سکتی ہے؟ سوچا کہیں مارشل لاء یا ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ تو نہیں کرلیا گیا ؟۔
اسی فکر میں عسکری ذرائع سے رابطہ کیا، اپنے خدشات کا اظہار کیا تو بتایا گیا ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو، تاہم جو سیاسی صورتحال اس وقت ملک میں ہے اُس کے تناظر میں بدقسمتی سے بے شمار لوگ یہ کہنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں کہ اس سے بہتر تو مارشل لاء ہے۔
اس بارے میں ہمارے سیاستدانوں کو غور کرنا چاہئے کہ کیوں اُن کا ایسا رویہ ہوتا ہے کہ لوگ جمہوریت سے ہی متنفر ہوجاتے ہیں۔ اس ملک میں بار بار مارشل لاء بھی لگتے رہے اور اُن کے نتیجے میں ملک کا جو حال ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ہمارے سیاست دان بھی جمہوریت کے نام پر ووٹ تو لیتے ہیں لیکن عموعی طور پر اُن کے رویے اور طرز حکمرانی انتہائی مایوس کن ہوتا ہے چنانچہ لوگ اُن سے بھی خوش نہیں ہوتے۔
حل تو صرف یہی ہے کہ آئین کی پاسداری کی جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف سب ادارے اپنا اپنا کام کریں تو دوسری طرف حکومتیں اور اسمبلیاں آئین کی منشاء کے مطابق پرفارم کریں، لوگوں کے مسائل حل کریں، انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں، حکومتی اداروں میں عوام کے لئے ڈلیوری سسٹم کو فعال بنائیں۔
جمہوریت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بس نواز شریف، زرداری اور عمران خان وغیرہ کو ووٹ دے کر ایوان اقتدار میں بٹھا دیا جائے، جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت عوام کی زندگیوں کو بہتر بنائے اور ملک و قوم کی ترقی کیلئے دن رات ایک کر دے، وہ قانون کی حکمرانی، خود احتسابی، میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنائے۔
جمہوریت کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ الیکشن جیتنے والوں کو ملک پانچ سال کیلئے ٹھیکے پر دے دیا جائے کہ جو جی میں آئے کرتے پھریں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہی ہوتا رہا ہے۔
میں بات کچھ اور کرنا چاہتا تھا لیکن مارشل لاء کے ذکر کی وجہ سے کہیں اور نکل گیا۔ گزشتہ روز مجھے اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ن لیگ کے رہنما نواز شریف کو کچھ لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو چھ ماہ کیلئے ایکسٹینشن دے دی جائے جبکہ جنرل باجوہ پہلے ہی صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ مزید ایکسٹینشن نہیں لیں گے اور اس ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔
مجھے ذاتی طور پر بھی اہم عسکری ذرائع نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جنرل باجوہ مزید ایکسٹینشن کسی صورت میں نہیں لیں گے۔ اب کچھ افراد اس کوشش میں ہیں کہ وزیراعظم جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کیلئے راضی کریں۔ ایسا مشورہ دینے والے نہ حکومت کے خیر خواہ ہیں نہ جنرل باجوہ کے۔ مجھے امید ہے کہ وزیراعظم اور ن لیگ کی قیادت کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ بھی ایسے مشورے کو سختی سے رد کریں گے۔
میری تو ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ ایکسٹینشن تو ہونی ہی نہیں چاہئے، کیوں کہ اس سے فوج کے ادارے کو نقصان ہوتا ہے۔ میں تو شروع سے 2019 میں بنائے گئے اُس قانون کے بھی خلاف ہوں جس کے ذریعے افواج پاکستان کے سربراہان کو ایکسٹینشن دینے کیلئے ایک قانونی جواز پیدا کیا گیا، جس میں سپریم کورٹ اور پارلیمینٹ دونوں نے بہت متنازعہ کردار ادا کیا۔
پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت سب کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے اور ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ آئندہ ایکسٹینشن کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ افواج پاکستان کے سربراہان کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کی طرح سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا جائے۔ یعنی جو سب سے سینئر ہو اُسے آرمی چیف تعینات کر دیا جائے۔
اس سے ہر تین سال بعد اس تعیناتی کے گرد گھومتی سیاست، افواہوں اور رسہ کشی سے جان چھوٹ جائے گی جو نہ صرف اداروں کیلئے بہتر ہوگا بلکہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کیلئے بھی مفید ہوگا اور بے جا کے سیاسی عدم استحکام سے حکومتوں کی جان چھوٹ جائے گی۔