حذیفہ احمد
انسان کے دماغ میں سوچ وبچار کا غلبہ رہتا ہے، یعنی انسان ہر وقت کسی نہ کسی سوچ کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ انسان کا کبھی کھیلنے کادل چاہتا ہے، کبھی اپنی پسند کی کہانیوں کی کتاب پڑھنے کا ،کبھی چٹ پٹے کھانے کھانےکا اور کبھی کچھ اور کھانے کا چاہتا ہے، لیکن آپ نے شاید کبھی غور نہیں کیا کہ یہ دل کا نہیں، بلکہ آپ کے دماغ کا کام ہے! آج انسان نے سائنس میں اس قدر ترقی کر لی ہے کہ انسان کے جسم میں موجود ہر حصے کا اپنا اپنا کام بہت ہی واضح ہو گیا ہے۔ آج سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کا دل نا تو کچھ چاہنے کی طاقت رکھتا ہے اور نا ہی کچھ نا چاہنے کی، بلکہ یہ چاہنے اور نا چاہنے کا سارا کام انسان کے جسم کا جو حصہ انجام دیتا ہے، وہ دماغ ہے۔
انسانی دماغ مختلف اقسام کے خلیات سے مل کر بنتا ہے، ان خلیات میں سے کچھ تو اصل کام کرنے والے خلیات ہوتے ہیں، جن کو عصبون کہا جاتا ہے، جبکہ کچھ خلیات عصبون کو سہارا اور امداد فراہم کرتے ہیں، ان امدادی خلیات کو سریشہ کہا جاتا ہے۔ دماغ کے اندر اصل کام کرنے والے خلیات اور امدادی خلیات کی مثال کو آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے کسی گھر میں بجلی کے تار بچھائے جاتے ہیں ، گھر میں پھیلائے جانے والے اس بجلی کے نظام میں کچھ حصے تو اصل کام کرنے والے ہوتے ہیں۔
دماغ کا تار نما ایک خلیہ جسے’’ عصبون‘‘ کہا جاتا ہے۔ دماغ کے عصبون خلیات ایسے ہی معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں کہ جیسے بجلی کے تار بجلی کو منتقل کرتے ہیں،جس طرح بجلی ایک تاروں میں کرنٹ کی صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرتی ہے، اسی طرح دماغ کی معلومات یعنی سوچ اور خیالات وغیرہ بھی کرنٹ کی صورت میں تار نما عصبون خلیات میں سفر کرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں۔
تار نما عصبون خلیات کا تانا بانا دماغ میں ایک نہایت ہی نازک طریقے سے بنا یاگیا ہے، جیسے کوئی قالین دھاگوں کے تانوں بانوں سے بن دیا جاتا ہے۔ یہ تار نما خلیات اپنے اپنے مخصوص راستے رکھتے ہیں اور اپنے اندر سفر کرنے والی معلومات و خیالات کو بالکل درست اور صحیح صحیح مقام تک پہنچا دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر وہ خلیات ،جو درد یا تکلیف کی معلومات کو پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، وہ اگر آپ کے ہاتھ پر کوئی سوئی چبھ جائے تو درد کی معلومات کو مخصوص راستے سے گذرتے ہوئے دماغ کے اس حصے میں لے کر جاتے ہیں، جو درد کو محسوس کرنے کا کام کرتا ہے، اسی طرح آنکھ اور دیکھنے کی قوت سے تعلق رکھنے والے عصبون خلیات نظر آنے والی چیزوں کی معلومات کو مخصوص راستوں سے گذارتے ہوئے دماغ کے اس حصے میں پہنچا دیتے ہیں، جو دیکھنے کا کام کرتا ہے۔
حال میں ہونے والی تحقیق کے مطابق مردوں اور خواتین کے دماغ میں فرق تلاش کیاگیا کہ مرد اور خواتین کا دماغ کس حد تک ان کے برتاؤ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پروفیسر ایلس رابرٹس کے مطابق انسانی جسم کی طرح انسانی ذہن کے برتاؤ کا زیادہ دار و مدار بھی ہارمونز پر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ کاموں میں مرد بہتر ہوتے ہیں تو کچھ میں خواتین۔
یہ صرف مفروضے ہی ہیں اورایسی باتیں خواتین کو کئی شعبوں میں جانے سے روکتی ہیں، مثال کے طور پر سائنس کے میدان میں۔ایلس کے مطابق ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں، جہاں لڑکیوں کی بہت کم تعداد اے لیول میں فزکس بطور مضمون پڑھتی ہیں اور انجینیئرنگ میں صرف سات فیصد خواتین ہیں۔
انسانی ذہن کی دو قسمیں ہیں، پہلی قسم کا ذہن رکھنے والے لوگ یہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ انسان کیا سوچ رہا ہے اور کیا محسوس کر رہا ہے جب کہ دوسری قسم کا ذہن رکھنے والے لوگ سسٹمز کو جاننے اور اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں کے دماغوں میں فرق یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق سے بھی واضح ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں آٹھ اور 22 سال کے درمیان 949 مرد و خواتین کے دماغ اسکین کیے گئے، جس سے کچھ حیرت انگیز فرق سامنے آئے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر روبن گر کے مطابق مردوں کے دماغ کے اگلے اور پچھلے حصوں میں مضبوط تعلق پایا گیا۔ ان کے خیال میں اس کے باعث مردوں میں جلد اور بر وقت ردعمل کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے، ایک اور ماہرین ڈاکٹر رگینی ورمن کے مطابق عورتوں کے دماغ کے دائیں اور بائیں حصوں میں زیادہ رابطہ پایا گیا ۔اس طرح کےدماغ کی خواتین ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کرتی ہیں اور جن کاموں میں جذبات شامل ہو وہ کام تو بہت اچھے سے انجام دیتی ہیں۔
آئن ا سٹائن کے بارے میں آپ نے بہت کچھ سنا ہوگا۔ آئن اسٹائن نے اپنے دماغ کا عام انسانوں کی نسبت زیادہ استعمال کیا ہے۔ دماغ کے اند ر ایک مخصوص حصہ ’’کارٹیکس‘‘ہوتا ہے۔ دماغ کے مختلف حصوں کو مختلف کام کرنے ہوتے ہیں اور دماغ کے مختلف حصے مل کرکام سر انجام دیتے ہیں۔ دماغ کا ایک حصہ جسم کے مختلف حصوں کو کنٹرول کرنے ساتھ ہمیں اردگرد کی چیزیں دیکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔
دماغ کا ایک حصہ صرف سوچنے کے لئے کام سرانجام دیتا ہے اور ہم جتنا زیادہ اس کا استعما ل کریں ،اُتنا ہی یہ مزید فعال ہو جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق آئن اسٹائن وائلن بجایا کرتے تھے۔ اسی طرح اگر مختلف گیندوں کو گھمائیں اور انہیں ہاتھوں میں اچھالیں تو یہ بھی آپ کے دماغ کو بہت تیز کرے گااور آپ کے دماغ کی کارکردگی بہتر ہوگی۔