• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلاک رائل ٹاورمکّہ: مکّہ مکرّمہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی بابِ عبدالعزیز یا بابِ فہد کے سامنے مکّہ ٹاور سے متصل جدید فنِ تعمیر کا ایک نہایت دل کش، اچھوتا شاہ کار، بلند و بالا ’’کلاک رائل ٹاور‘‘ دُور ہی سے نظر آجاتا ہے۔ سات کلو میٹر کے فاصلے سے نظرآنے والے اس ٹاور کی بدولت زائرین کو بیت اللہ شریف پہنچنے میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔ 

کلاک رائل ٹاور، مکّہ کی تعمیر خادم الحرمین، الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے حکم پر عمل میں آئی اور جرمنی کی ایک مشہور کمپنی نے اس کا ڈیزائن تیار کیا، جب کہ اس کی مکمل تعمیر بن لادن کمپنی کے انجینئرز اور ماہر کاری گروں کے ہاتھوں انجام پائی۔ 577 میٹر بلند ٹاور 76 منازل پر مشتمل ہے، جب کہ چوٹی پر نصب 40 میٹر چوڑی گھڑی حجم کے اعتبار سے لندن کے بگ بین (Big Ben) سے چھے گنا بڑی ہے۔ اس گھڑی سے پانچوں وقت نماز کا اعلان ہوتا ہے۔

کارخانہ برائے غلافِ کعبہ1392: ہجری 1972ء میں سعودی حکومت کے اُس وقت کے وزیرِ داخلہ، فہد بن عبدالعزیز نے غلافِ کعبہ کی تیاری کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ ایک کارخانہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل غلافِ کعبہ مصر سے تیار ہوکر آتا تھا۔ 1397ہجری 1977ء میں یہ کارخانہ تیار ہوا، جس کا افتتاح ولی عہد، شہزادہ فہد بن عبدالعزیز نے کیا۔ اُم الجود، جدہ روڈ پر رابطہ عالم اسلامی کے صدر دفتر سے متصل اس کارخانے میں جدید ترین آلات اور مشینیں نصب ہیں، جہاں تین سو سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔

کارخانے میں خارجی و داخلی غلاف، باب توبہ اور بابِ کعبہ کے پردوں کے علاوہ مسجدِ نبویؐ کے پردے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ ایک غلافِ کعبہ 8ماہ کی مسلسل محنت کے بعد مختلف مراحل سے گزر کر تیار ہوتا ہے۔ اس کی تیاری میں 670 کلو گرام ریشم، 120کلو گرام سونا اور 100کلو گرام چاندی استعمال ہوتی ہے، جس کی لاگت 25 سے 30ملین ریال ہے۔ غلافِ کعبہ 5حصّوں میں تیار ہوتا ہے۔ چار ٹکڑے دیواروں کے، جب کہ پانچواں حصّہ کعبے کے دروازے کے لیے ہوتا ہے۔

نمائش گاہ، حرمین شریفین: غلافِ کعبہ کے کارخانے کے قریب ہی پرانے مکّہ جدہ روڈ پر واقع1200میٹر رقبے پر مشتمل ’’نمائش گاہ، حرمین شریفین‘‘ کا قیام 1420ہجری بمطابق 1998ء میں عمل میں آیا۔ نمائش گاہ میں سات بڑے ہال ہیں، جن میں نادرو نایاب، قدیم اور قیمتی تبرکات، تصاویر، لکڑی کی تختیوں اور پلیٹوں پر کندہ تحریریں، قرآنِ کریم کے بعض نہایت نادر اور قدیم نسخے، کعبہ شریف کی لکڑی کا وہ ستون، جسے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کے وقت استعمال کیا تھا۔ 

کعبہ شریف کے دروازے کا زینہ اور قدیم دروازہ، مسجدِ نبویؐ کا قدیم دروازہ، مقامِ ابراہیم ؑ کے مقصورہ سمیت دیگر بہت سی نادر و نایاب اشیاء موجود ہیں، جنھیں دیکھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ نمائش گاہ صبح و شام زائرین کے لیے کُھلی رہتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ زائرین اِن متبرّک اشیاء کی زیارت سے مستفید ہوسکیں۔ یاد رہے، غلافِ کعبہ کے کارخانے اور نمائش گاہ کی زیارت ایک ہی وقت میں بھی کی جاسکتی ہے۔

مکّہ مکرّمہ کے مشہور پہاڑ

تاریخی پہاڑوں کی سرزمین، شہرِمکّہ کا ہرپہاڑ اپنی جداگانہ خصوصیت اور تاریخ رکھتا ہے،جب کہ ان بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان مکّہ مکرّمہ ایک انگوٹھی کے خُوب صُورت نگینے کی مانند نظر آتا ہے۔

جبلِ ابی قبیس: یہ مشہور و معروف پہاڑ، مسجدِ حرام سے متصل جانبِ مشرق صفا پہاڑی سے ملا ہوا ہے۔ یہ سطحِ سمندر سےتقریباً ساڑھے چار سو میٹر اور سطحِ زمین سے 120 میٹر بلند ہے۔ سیّدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ زمین میں سب سے پہلے اسی پہاڑ کو تخلیق کیا گیا۔ (شعب الایمان، 432/3)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ابوقبیس نامی ایک شخص نے سب سے پہلے اس پہاڑ پر اپنا گھر بنایا تھا۔ اسی نسبت سے اس پہاڑ کو جبلِ ابوقبیس کہا جانے لگا۔ حافظ الہیثمی بیان کرتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں اس پہاڑ کو ’’امین‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ طوفانِ نوح ؑ میں حجرِ اسود اسی پہاڑ میں محفوظ رہا تھا۔ (مجمع الزوائد، 243/3)۔

جبلِ قعیقعان:یہ بلند و بالا پہاڑ مسجدِ حرام کے شمال مغرب میں حرم شریف سے متصل ہے۔ اس کی بلندی سطحِ سمندر سے 410 میٹر اورسطحِ زمین سے 110 میٹر ہے۔ بیت اللہ شریف، جبلِ ابی قبیس اور جبل قعیقعان کے درمیان میں ہے۔ آنحضرتﷺ جس وقت طائف سے واپس تشریف لارہے تھے، تو راستے میں پہاڑوں کے فرشتے نے حضورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا تھا کہ ’’اگر آپﷺ حکم دیں، تو اُن پر اخشبین پہاڑ گرادوں۔‘‘ اخشبین ان دو پہاڑوں، یعنی جبلِ ابوقبیس اور جبل قعیقعان کو کہتے ہیں۔ (صحیح بخاری، 3059)۔ 

حرم شریف کی حالیہ توسیع کے دوران اس دیوہیکل پہاڑ کو مسمار کرکے اس کی جگہ بابِ عبداللہ کی نہایت وسیع، خُوب صُورت اور دیدہ زیب عمارت تعمیر کردی گئی ہے، جو اب حرم شریف کا حصّہ ہے۔ ’’بابِ عبداللہ‘‘ کی عالی شان عمارت میں ایک وقت میں 18لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے، جس کے بعد اب مسجدِ حرام میں بیک وقت 30 لاکھ نمازی، نماز ادا کرسکتے ہیں۔ مزید برآں، بیت اللہ شریف کے شمال میں جبلِ قعیقعان کی جگہ 4لاکھ مربع میٹر اراضی پر مسجدِ حرام کی توسیع کا پروگرام تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کررہا ہے۔

جبلِ عمرؓ: شاہ راہ ابراہیم خلیل اللہ سے حرم شریف کے بائیں جانب مغرب میں ایک خُوب صُورت پہاڑ جبلِ عُمرؓ تھا۔ اس پہاڑ پر عربوں کے مکانات تھے، جن کی روشنیاں پورے پہاڑ کو اس طرح جگمگاتی تھیں، جیسے آسمان پر چمکتے بے شمار ستارے۔ یہ پہاڑ محلّہ شبیکہ سے محلّہ مسفلہ تک پھیلا ہوا تھا، اس کے قریب ہی سیّدنا عُمر فاروقؓ کا آبائی مکان تھا، لیکن یہ پہاڑ بھی اپنی شناخت کھو چکا ہے۔ اب یہاں جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کثیر المنزلہ ہوٹلز اور شاپنگ سینٹرز قائم ہیں، جنہوں نے شاہ راہ ابراہیم خلیل اللہ کی خُوب صُورتی میں تو اضافہ کیا ہے، لیکن جبل عُمرؓ پر رات کی سیاہ چادر میں جِھلملاتے لاتعداد جگنوئوں کا حسین و دل فریب منظر غائب ہوچکا ہے۔

جبلِ حراء: حرم شریف سے شمال مشرقی سمت منیٰ کے راستے پر بائیں جانب مسجدِ حرام سے 4کلو میٹر دُور اس پہاڑ کو جبلِ نور بھی کہتے ہیں۔281میٹر بلند اس کی چوٹی اونٹ کی کوہان سے مشابہ ہے۔ یہ وہی مقدّس غار ہے، جہاں آنحضرتﷺ مدّتوں عبادت فرماتے رہے۔ تین میٹر لمبے اور ڈیڑھ میٹر چوڑے اس غار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نزولِ وحی کا آغاز اسی جگہ سے ہوا، اور اسی تنگ و تاریک غار سے آفتابِ رسالتؐ کی پہلی کرن نے چہاردانگِ عالم کو حق و صداقت کی نوید سُنائی۔

جبلِ شبّیر: جبلِ حرا کے مقابل یہ پہاڑ منیٰ جاتے ہوئے دائیں جانب واقع ہے۔ امام سُہیلی لکھتے ہیں کہ ’’جب قریش آنحضرتﷺ کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنارہے تھے، تو اُس وقت آپؐ جبلِ شبیر پر تھے۔ پہاڑ نے آپؐ سے استدعا کی کہ ’’اے اللہ کے رسولﷺ! آپؐ میرے اندر چُھپ جائیں تاکہ قریش اپنے مذموم ارادے میں ناکام ہوجائیں۔‘‘ اس پہاڑ کا ایک حصّہ ایسا ہے کہ جس کے متعلق حضورؐ نے فرمایا تھا کہ ’’جب سورج کی کِرنیں اس پر پڑیں، تو حجاج منیٰ سے عرفات روانہ ہوجائیں۔‘‘

جبلِ ثور: مسجدِ حرام سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع اس پہاڑ کی بلندی، سطحِ سمندر سے 748 اور سطحِ زمین سے 458 میٹر ہے۔ اسی پہاڑ کی چوٹی پر وہ غار ہے، جس میں نبی کریمﷺ، حضرت ابوبکر صدیق ؓکے ساتھ ہجرتِ مدینہ سے قبل تین دن تک رہے۔ تقریباً دو میٹر پر محیط اس تاریخی غار کے اندر جانے کے دو راستے ہیں، ایک سامنے اور دوسرا پشت کی جانب سے۔ آنحضرتؐ سامنے کی سمت یعنی مغربی راستے سے غار میں تشریف لے گئے تھے۔

جبلِ خندمہ: یہ پہاڑ جبلِ ابوقبیس سے جنّت المعلیٰ تک دراز ہے۔ اس کے جنوب مشرق میں جبلِ ثور اور جنوب میں جبلِ کُدَیّ واقع ہیں، جب کہ جنوب مغرب میں جبلِ قعیقعان تھا۔ اس کے دامن میں شعب علی (شعب بنی ہاشم) واقع ہے۔ علامہ قطب الدینؒ نے لکھا ہے کہ ’’اس پہاڑ پر نبی کریمﷺ نے بھی آرام فرمایا تھا۔‘‘ یہ پہاڑ بھی حرم شریف کے توسیعی پروگرام میں شامل ہے۔

جبلِ کدا: یہ محلّہ حجون میں واقع ہے۔ فتح مکّہ کے روز سرورِ کائنات، حضرت محمدﷺ اسی راستے سے شہرِ مکّہ میں داخل ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں جبلِ کدا کا پہاڑی راستہ تنگ اور دشوار گزار تھا، لیکن 1328ہجری میں گورنر مکّہ، شریف حسین بن علی نے اس راستے کو کشادہ کروا کر یہاں ایک سڑک تعمیر کروادی، جس سے مکّہ میں داخل ہونے والوں کے لیے آسانی ہوگئی۔

مکّہ مکرّمہ کی سُرنگیں

آلِ سعود نے سعودی عرب کے ہر شہر میں جس قدر ترقیاتی کام کیے، وہ قابلِ تحسین ہیں۔ انھوں نے مکّہ مکرّمہ کےسنگلاخ پہاڑوں سے کشادہ اور خُوب صورت سُرنگیں نکال کر گویا مکّہ مکرّمہ کے طویل فاصلوں کو ایک مٹھی میں بند کردیا ہے۔ مکّہ مکرّمہ کی ان جدید ترین سُرنگوں کی تعداد تقریباً 60ہے۔ جن میں سے دس صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص ہیں اور ان کی کُل لمبائی 32 کلو میٹر بنتی ہے۔ ان سُرنگوں نے نہ صرف مکّہ کے محلّوں کو ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے، بلکہ حج کے ایّام میں مکّہ اور منیٰ کے فاصلوں کو کم کرکے آمدورفت کو بھی آسان کردیا ہے۔ 

ایسی ہی ایک سُرنگ منیٰ اور مسجدِ حرام کے درمیان بنائی گئی ہے، جو جبلِ قبیس میں مروہ کے سامنے سے شروع ہوکر منیٰ میں جمرات کے مقام پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ حج کے ایّام میں یہ سُرنگ صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص کردی جاتی ہے۔ حرم شریف اور منیٰ آنے جانے کے لیے سُرنگ سب سے زیادہ آسان اور آرام دہ راستہ ہے، جس کے ذریعے منیٰ سے حرم شریف صرف 40 سے 50 منٹ میں پہنچا جاسکتا ہے۔ واضح رہے،ان سُرنگوں کی تعمیر میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے ہوا اور روشنی کا خاص انتظام کیا گیا ہے۔

مکّہ مکرّمہ کے کنویں

مکّہ کے باسیوں کے پانی کا دارومدار کنوئوں اور چشموں پر تھا۔ مختلف ادَوار میں ضرورت کے مطابق کنویں کھودے جاتے رہے، حتیٰ کہ ایک دَور میں اُن کی تعداد 58 تک جا پہنچی، لیکن آبادی اور زائرین کی تعداد میں اضافے، خصوصاً حج کے ایّام میں پانی کی طلب پوری کرنے کے ضمن میں یہ کنویں ناکافی ثابت ہوئے، تو نہریں نکالی گئیں اور برساتی تالاب بنائے گئے۔ 

مکّہ مکرّمہ کی سرزمین پر سب سے پہلا کنواں حضرت آدم نے کھودا تھا،جو دنیا کا پہلا کنواں تھا۔ اس کے بعد ہر دَور میں کنویں کھودے جاتے رہے۔ ہاشم بن عبدِمناف نے صفا اور مروہ کے درمیان کنواں کھودا، بعد میں یہ جبیر بن مطعم کے نام سے مشہور ہوا۔ امیّہ بن عبدالشمس نے جیاد کے مقام پر اور قصی بن کلاب نے امّ ِہانیؓ کے مکان پر کنواں کھودا۔

اسلامی دور ِحکومت میں حجاج کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر منیٰ میں کنویں کھدوائے گئے۔ امام المؤرخین امام تقی الدین محمد ابنِ احمد الفاسی ؒنے بھی کنوئوں کی تعداد بیان کی ہے، جن میں جنّت المعلیٰ سے منیٰ تک 17، منیٰ میں 15، مزدلفہ میں3، عرفات میں 3 اور باب الشبیکہ سے تنعیم تک 23 کنویں کھودنے کا ذکر کیا ہے۔ (تاریخ مکّۃ المکرّمہ، محمد عبدالعبود، ص 368)۔

مکّہ مکرّمہ کے پارکس

مکّہ مکرّمہ کی بلدیہ نے شہرِ مقدّسہ میں متعدّد پارکس اور تفریحی مقامات بنائے ہیں، جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام روڈ پر واقع مسفلہ کا حدیقہ پارک۔ رِنگ روڈ سے متصل، ایک لاکھ 70ہزار میٹر رقبے پر قائم ’’جزیرہ نمائے عرب پارک‘‘ کے علاوہ رصیفہ محلّے میں ’’رصیفہ پارک‘‘ اور مدینہ منوّرہ روڈ پر واقع ’’بدر پارک‘‘ میں بچّوں کے کھیل کود اور تفریحات کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ ان بڑے پارکس کے علاوہ بھی مکّہ مکرّمہ کے ہر محلّے میں چھوٹے بڑے 84 پارک بنائے گئے ہیں۔ (مکّہ مکرّمہ۔ محمود محمد قہو، ص 143)۔

مکّہ مکرّمہ کے کبوتر

حرم شریف کے صحن سے متصل کلاک رائل ٹاور اور مکّہ ٹاور کے عقب میں شاہ راہ ابراہیم خلیل کے دائیں طرف لبِ سڑک ’’کبوتر چوک ‘‘ہے۔ جہاں زائرین کبوتروں کو دانہ ڈالتے اور ان کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔ کبوتر بھی زائرین کے سَروں پر منڈلاتے اور اُن سے اپنی انسیت کا اظہار کرتے ہیں۔ حرم شریف کے ان کبوتروں کے بارے میں بڑی روایات ہیں، جن میں سے ایک روایت کے مطابق، یہ کبوتر ان دو کبوتروں کی نسل میں سے ہیں، جنہوں نے غارِ ثور پر نبی کریمﷺ کی حفاظت کے لیے بنائے ہوئے مکڑی کے جالے پر انڈے دیے تھے۔(واللہ اعلم)۔ حرمِ مکّی کے یہ معصوم پرندے اپنا منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ ان کے پَر سرمئی مائل نیلے رنگ کے ہیں، جب کہ گردن پر سبز رنگ کا حلقہ اُن کی خُوب صُورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ الشرق الاوسط کے مطابق، ان کبوتروں کی تعداد تقریباً چالیس لاکھ کے قریب ہے۔

علامہ فخرالدین رازیؒ اور امام ابنِ جوزیؒ بیان کرتے ہیں کہ حرم شریف میں کبوتروں کے غول کے غول اِدھر اُدھر اُڑتے رہتے ہیں، مگر وہ کعبہ شریف کی تعظیم کے پیشِ نظر اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے، بلکہ دائیں بائیں سے گزر جاتے ہیں۔ (تفسیر ِکبیر، 8/3)۔ علامہ ابنِ جبیر اندلسیؒ لکھتے ہیں کہ ’’یہ کبوتر کعبہ شریف کے قریب پہنچ کر اپنی سمت تبدیل کرلیتے ہیں۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی کبوتر یا پرندہ بیمار ہوجائے، تو وہ شفا حاصل کرنے کی غرض سے کعبہ شریف پر بیٹھتا ہے۔ اگر اس کے مقدر میں شفا ہو، تو وہ صحت یاب ہوجاتا ہے، ورنہ لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔‘‘ (سفرنامہ ابنِ جبیر،83)۔

حرمِ مکّی کی ابابیلیں

اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کی پوری فوج کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے کھائے ہوئے بُھوسے کی طرح پامال کردیا، جس کا ذکر سورئہ فیل میں ہے۔ ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ:’’اور ان پر جُھنڈ کے جُھنڈ پرندوں کے بھیجے۔‘‘ ان ہی پرندوں کو ابابیل کہا گیا ہے۔ آج بھی سیکڑوں کی تعداد میں خانۂ کعبہ کے اوپر سیاہی مائل ننّھی ننّھی چڑیوں جیسے سیکڑوں پرندے دائرے اور قوس کی شکل میں ادب اور قرینے کے ساتھ چہچہاتے کبھی اوپر کبھی نیچے، کبھی دائیں کبھی بائیں رب العالمین کی کبریائی بیان کرتے محوِ طواف نظر آتے ہیں۔ 

یہ ابابیلیں صبحِ صادق سے سورج طلوع ہونے اور شام سے رات کے پہلے پہر تک یوں ہی وارفتگی کے ساتھ اپنے ربّ کی محبّت و عقیدت اور تشکّر کے جذبات سے سرشار ڈبکیاں لگاتی، جُھومتی اور اِک وجد کے عالم میں حمد و ثناء کی صُورت مصروفِ عبادت رہتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’پرندے بھی تسبیح کرتے اور نماز ادا کرتے ہیں۔‘‘ (سورئہ نور، آیت41)