اسلام آباد (انصار عباسی) معلوم ہوا ہے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر 20؍ نومبر کے قریب ہوجائے گا۔ فیصلہ ہوچکا ہے اور ایک قابل بھروسہ ذریعے کے مطابق اس مرتبہ سینیارٹی کو ترجیح دی جائے گی۔ ذریعے نے اُس لیفٹیننٹ جنرل کا نام بھی بتایا جسے فور اسٹار جرنیل بنایا جائے گا اور آرمی چیف لگایا جائے گا لیکن معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے یہ اخبار یہ نام سامنے نہیں لاسکتا۔
وزیراعظم آفس کی جانب سے باضابطہ طور پر دفاعی حکام سے ایک دو دن میں رابطہ کیا جائے گا تاکہ آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدوں پر تقرری کیلئے کارروائی کا آغاز کیا جاسکے۔
دفاعی حکام اس کے بعد سینئر ترین تھری اسٹار جرنیلوں کے ناموں کی فہرست (پینل) ایک سمری کے ذریعے مجاز اتھارٹی یعنی وزیراعظم شہباز شریف کو ارسال کریں گے تاکہ مذکورہ عہدوں پر تقرر کیا جا سکے۔
ذریعے نے کہا کہ وزیراعظم آفس کو 18؍ یا 19؍ تاریخ تک سمری موصول ہو جائے گی جس کے بعد چیف ایگزیکٹو دونوں عہدوں پر تقرری کر دیں گے۔ معلوم ہوا ہے کہ زبانی کلامی معاملات پر متعلقہ حکام کے ساتھ بات چیت ہوگئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حکومت ان تقرریوں کے حوالے سے نومبر کے آخری ہفتے تک کا انتظار نہیں کرے گی، یہ معاملہ سیاست اور میڈیا میں جس غیر معمولی انداز سے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی جس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کئی ہفتوں سے ان تقرریوں کو ہفتوں سے جاری مہم کے دوران ہدف بنائے ہوئے ہیں۔
عمران خان یہ باتیں پھیلا رہے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اختیار نہیں کہ وہ آرمی چیف کا تقرر کریں کیونکہ اگلے آرمی چیف کا اصل فیصلہ نواز شریف کریں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ایک مجرم اور مفرور ملزم کس طرح آرمی چیف کا تقرر کر سکتا ہے۔
عمران خان پہلے یہ کہتے تھے کہ موجودہ آرمی چیف کو عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کی جانب سے مقرر کرنا چاہئے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ موجودہ آرمی چیف کو اس وقت تک کیلئے توسیع دی جائے جب تک عام انتخابات ہونے کے بعد نئی منتخب حکومت نہیں آ جاتی۔
وزیراعظم شہباز شریف اور ساتھ ہی حکمران اتحاد کے دیگر رہنماؤں نے عمران خان کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا استحقاق ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک مشترکہ دوست کے توسط سے عمران خان نے رابطہ کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ آرمی چیف کے تقرر کیلئے باہمی مشاورت کی جائے۔
شہباز شریف نے کہا کہ انہوں نے عمران خان کی تجویز مسترد کر دی کیونکہ قانون اور آئین وزیراعظم کو ان عہدوں پر تقرر کا اختیار دیتا ہے۔ عمران خان کی مایوسی میں اس وقت اضافہ ہوا جب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے واضح اعلان کر دیا۔
اسلام آباد میں حالیہ دنوں میں ایک سیکورٹی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے اعلان کیا کہ وہ مزید توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے اور وہ نومبر کے آخر تک ریٹائر ہو جائیں گے۔