سرزمین سندھ منسجود دل غمدیدہ ہے
ذرہ ذرہ میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے
(اقبال)
عظیم فلسفی، دانائے راز ، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے فلسفیانہ اعجاز اور فکری ہمہ گیری کے باعث عالمی سطح پر ان کی عظمت کا اعتراف جس سرعت سے ہوا وہ اپنی وسعت کے اعتبار سے ایک بحر بیکراں ہے۔ فکر اقبال کے پوشیدہ گوشوں اور نئی نئی جہتوں کی دریافت کے اس مسلسل عمل میں بیشتر عالمی زبانوں کی طرح پاکستان کی قدیم ترین سندھی زبان کا دامن بھی اقبالیاتی اثرات سے وسعت پذیر ہوا ہے۔
سندھی شعر و ادب میں تقریباً ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط اقبال شناسی کی ادبی روایت کا اساسی پہلو خود علامہ اقبال کے ہمہ گیر اثرات اور لازوال شہرت ہے، جس نے سندھ کے ہر طبقہ فکر کو اپنے کلام کی معجزہ نمائی سے متاثر کیا ہے، تاہم اس روایت کو مزید تقویت دینے میں بالواسطہ اور بلا واسطہ کئی دوسرے عوامل بھی کارفرما ہیں، جن میں سندھ کی متعدد شخصیات سے علامہ اقبال کے روابط اور سندھی شعرا، ادبا اور علامہ اقبال کی ذہنی و فکری ہم آہنگی کے علاوہ ادبی تنظیموں نشریاتی اداروں جامعات و اساتذہ طلبا اور شعرا و ادبا کا فروغ اقبالیات میں اہم محرکات ہیں۔
علامہ اقبال اپنی سیاسی سرگرمیوں اور روح پرور کلام کی وجہ سے اپنی زندگی میں ہی سندھ میں مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ بیسویں صدی کے دوسر ے عشرے میں ان کے کلام کے سندھی منظوم تراجم عام ہوچکے تھے۔
برصغیر پاک و ہند میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو سندھ میں بھی قلم کاروں کی ایک کثیر تعداد اس تحریک کا حصہ بن گئی۔ سندھی شعرا نے علامہ اقبال کے کلام کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا۔
اس ضمن میں شمس العلما مرزا قلیچ بیگ کا نام سرفہرست ہے ، جنہوں نے 1915میں ڈاکٹرعلامہ اقبال کے کلام کو سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔1915میں لاڑکانہ میں ’’بزم مشاعرہ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جس کے تحت ماہانہ مشاعرے اور ادبی تقاریب ہوتی تتھیں، جن میں پورے سندھ سے شعرا اور ادبا شرکت کرتے تھے اور موضوع سخن ہوتا تھا فکر اقبال، سندھ میں بزم کی مقبولیت کا سہرا مولانا اللہ بخش بوجھو کے سر جاتا ہے ۔
مخدوم غلام احمد نظامی سندھ کے نامور مسلمان ادیب شاعر تھے جن کی علامہ اقبال سے بیحد قربت تھی ان پر علامہ کی شاعری ور فلسفے کا گہرا اثر تھا، انہوں نے افکار اقبال کو سندھ بھر میں عام کرنا اپنی زندگی کا مقصد اول بنالیا تھا، انہوں نے نظریہ پاکستان مسلم لیگ کی حکمت عملی اور مسلم وحدت فکر کی مکمل تائید کرتے ہوئے قومی شاعری کی ابتدا کی تو علامہ اقبال نے مرحوم نظامی کو سندھ کا اقبال کے خطاب سے نوازا ۔ اقبال سے متاثر ہوکر نظامی نے ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ کی طرزپر ایک طویل نظم ’’فریاد جوا ب فریاد‘‘ تحریر کی تھی۔
سندھی زبان میں کلام اقبال کے تراجم کے حوالے سے نمایاں کام پروفیسر لطف اللہ بدوی نے کیا انہوں نے اقبال کے تقریباً تمام کلام کو سندھی زبان میں ڈھالا، ان تراجم کی بدولت وادی مہران کے فکری منظر نامے میں ایک انقلاب آیا۔ کلام اقبال کے مطالعے کے بعد کئی سندھی شعرا نے روایتی رجحانات سے بغاوت کی اور اس طرح سندھی شاعری میں اقبال کے فلسفہ خودی کی بیحد پذیرائی کی گئی۔
اس کے علاوہ مزدور اور سرمایہ کار مغربی تہذیب اسلام کی شوکت و عظمت، تاریخ ملی کے واقعات اور ترانے سندھی شاعری کی زینت بنے ۔ علامہ اقبال کی زندگی میں جن شعرا نے ان کے کلام کو سندھی میں ترجمہ کیا ان میں، محمد صالح بھٹہ، شیخ عبدالرزاق راز، کشن چند بیوس، احسان احمد بدوی، محمد بخش بدوی، محمد بخش واصف، حافظ احسان چنہ ، نثار بزمی ا ور حکیم فتح محمد کے نام نمایاں ہیں۔
شعرا کے اس گروہ نے سندھی عوام میں خودداری ، خود شناسی اور بامقصد زندگی بسر کرنے کا جذبہ پیدا کیا ،اس کے علاوہ اقبال کی قومی نظموں کا بھی سندھ میں کافی پرچار ہوا۔ اس دور میں فکر اقبال کے حوالے سے سندھ کے نامور شاعر اور دانشور شیخ ایاز کی تخلیقات اہم ہیں۔
1931ء میں جب مولانا دین محمد وفائی نے ماہنامہ ’’توحید‘‘ جاری کیا تو اس کے سرورق پر علامہ اقبال کے مشہور قومی ترانہ کا ایک شعر لکھا ہوتا تھا۔
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
ممکن نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
شمالی سندھ کے قدیم اور تاریخی شہر شکارپور کی مشہور درس گاہ ’’سی اینڈ ایس ڈگری کالج‘‘ فکر اقبال کو سندھ میں عام کرنے کا ایک موثر ذر؎یعہ بنی۔ علامہ اقبال کے فلسفہ خودی اور کلام اقبال کے مختلف پہلوؤں پر شائع شدہ مضامین اور مقالات سندھی زبان کا ایک قابل قدر علمی سرمایہ ہیں۔ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کے ’’مخزن‘‘ میں بھی علامہ اقبال کے حوالے سے اُن کی یاد گار تقاریر شائع ہوئی ہیں۔
مخزن کے ایڈیٹر مرحوم اے کے بروہی تھے اس ہی دور میں روزنامہ ’’الوحید‘‘ کراچی کے ہفت روزہ اشاعتوں میں باقاعدگی سے کلام اقبال کا سندھی ترجمہ اور جمیعت الشعراء سندھ کے ماہنامہ ’’ادیب سندھ‘‘ میں اقبال پر مضامین اور تحقیقی مقالے شائع ہوتے رہے ۔
علامہ اقبال کے میران خیر پور ریاست سے گہرے مراسم رہے وہ سال میں ایک مرتبہ ضرور خیر پور تشریف لاتے اور شاہی مہمان کی حیثیت سے فیض محل میں قیام کرتے تھے۔ وہ خیرپور ریاست کے حکمران میر علی نواز نازکےبہت قریب رہے میر علی نواز ناز خود بھی سندھی، اردو اور فارسی کے باکمال شاعر تھے۔ اقبال کے مداح تھے۔ فیض محل خیرپور میں شعر و شاعری کی محافل جمتیں توان میں اقبال ہی نمایاں رہتے۔
سندھ کے فکری محاذ پر اثر تو اپنی جگہ لیکن ہندوستان کےسیاسی حالات میں مسلمانوں کے ایک زیرک رہنما کی حیثیت سے علامہ اقبال نے جو بلند کردار ادا کیا، اس نے ان کو سندھ میں بیحد مقبول بنایا۔ بمبئی سے علیحدہ ایک صوبےکی حیثیت حاصل کرنےکے لئے سندھ میں وسیع پیمانے پر تحریک چلی، اس جدوجہد میں جن مسلمان اکابرین نے حصہ لیا ان میں سر آغا خان اور قائد اعظم کے ساتھ علامہ اقبال بھی شامل تھے۔
علامہ اقبال نے الہ آباد میں دسمبر 1930ءمیں کل ہند مسلم لیگ کےاجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو تقریر کی، اس میں انہوں نے سندھ کو علیحدہ صوبہ بنانے کی پرزور حمایت کی تھی۔ اس اجلاس میں علامہ اقبال نے اعلان کیا تھا کہ ’’ہندوستان کے مسلمان ایسی تجاویز سے ہرگز اتفاق نہیں کریں گے جن کے مطابق کم از سندھ کو علیحدہ صوبہ بنانے کی گنجائش نہیں ہوگی بمبئی پریذیڈینسی سے سندھ کی کوئی بھی بات مشترکہ نہیں ہے ‘‘۔
تحریک پاکستان کے نامور رہنما شیخ عبدالمجید سندھی کی علامہ اقبال سے گہری دوستی تھی، انہوں نے سندھ کو بمبئی سے ملحق رکھنے کا مسئلہ لاہور میں 1931 میں منعقدہ کل ہندمسلم کانفرنس کے اجلاس میں پیش کیا تھا، جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔ اس کے بعد گول میز کانفرنس میں بھی علامہ اقبال نے اس مسئلہ کو آگے بڑھایا ۔
1935کی حکومت ہند کے ایکٹ کے مطابق سندھ کا الگ صوبہ وجود میں آیا۔علامہ اقبال نے تیرہ خطوط قائد اعظم کو لکھے ان میں دوسرے صوبوں اور کل ہند سطح کے سیاسی معاملات کے ساتھ سندھ صوبے کا بھی ذکر ہے کہ کیسے صوبائی اسمبلی میں مسلمان اراکین کی اکثریت کو منظم اور فعال بنایا جائے تاکہ مسلمانوں کے مفاد کی پوری طرح حفاظت کی جاسکے۔
1935ء میں کراچی میں کوچوان غازی عبدالقیوم علم دین نے ناموس رسالت ﷺ کے عشق میں نتھو رام کو قتل کیا تو علامہ اقبال اس واقعہ سے بیحد متاثر ہوئے آپ کے تاثرات ضرب کلیم میں شامل ایک نظم سے ظاہر ہوتے ہیں۔
نظر اللہ پر رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے فقط عالم معنی کا سفر
آہ اے مرد مسلمان تجھے کیا یاد نہیں
حرف لاتدع مع اللہ الاہاً آخر
سندھ کے نامور فلسفی اور جامعہ سندھ جامشورو کے بانی علامہ آئی آئی قاضی علامہ اقبال کے بڑے شیدائی تھے وہ سندھ یونی ورسٹی اولڈ کیمپس میں ہفتہ وار لیکچر دیتے تھے ، موضوع فسلفہ خودی ہوتا تھا۔ یہ سارے لیکچر کتاب ’’ صوفی لاکوفی‘‘ میں موجود ہیں۔ 17؍اگست 1955ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا قیام عمل میں آیا تو وہاں کئی سندھی گلوکاروں نے اقبال کے سندھی کلام کو گاکر حق اقبال ادا کیا۔
ان گلوکاروں میں ماسٹر محمد جمن، زرینہ بلوچ ، ممتاز لاشاری، صادق علی، ثریا حیدرآبادی ، اقرار وحید علی، غٖفور گل وغیرہ شامل ہیں۔ اقبال اکادمی کی طرف سے دوسری علاقائی زبانوں کے ساتھ سندھی زبان میں بھی علامہ اقبال کی زندگی اور کلام کوشائع کیا گیا ہے اس کے علاوہ حکومت پاکستان کے ذیلی ادارے پاکستان پبلی کیشنز نے ’’اسرار و رموز‘‘ کا علیحدہ منظوم سندھی ترجمہ بھی شائع کروایا ، جو مرحوم محمد بخش واصف کی محنت کا ثمر ہے۔
اقبال کی مایہ ناز تصنیف "Reconstruction of Relegious thought in Islam" سندھی زبان میں ترجمہ ہوئی تو یہاں کے علمی وادبی حلقوں کو ایک روشنی مل گئی۔ یہ ترجمہ سندھ کے نامور ادیب ڈاکٹر عبدالغفار سومرو نے کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں اقبال کے فلسفے اور کلام کو عام کرنے میں درس گاہوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔