• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاتون اور اس ادارے کا نام اس وقت ٹھیک سے یاد نہیں لیکن یہ2007 کی بات ہے جب جامعہ میں ایک خاتون نے عالمگیریت اور غریب ممالک پر اس کے اثرات کے حوالے سے طلبا سے گفتگو کی۔ کئی سوالات زیرِ گفتگورہے اور اکثر سوالوں کا مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں جو علاقے جدیدیت اور عالمگیریت کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں انہیں کس طرح ساتھ شامل کیا جائے۔ مجھ سمیت اکثر طلبا اس بات پر بضد تھے کہ جو علاقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، انہیں کسی بھی طرح ان علاقوں میں شامل کرلیا جائے جو ترقی پا چکے ہیں۔

جب ہم اس معاملے میں اس الجھن سے نہیں نکلے تو خاتون نے اپنی بات سمجھانے کے لیے عالمگیریت کے اثرات کو معیشت سےہٹا کر ثقافت سے جوڑا اور پھر سمجھاتے ہوئے کہا آپ کسی دیہی علاقے میں جاتے ہیں تو وہاں کیا پسند کرتے ہیں؟ یہی کہ وہاں سکون محسوس ہوتا ہے ۔ وہاں آپ فطرت کو خود سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں ۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ وہاں کے رہنے والوں نے خود کو شہر کے شور اور بھاگ دوڑ سے الگ رکھا ہوتا ہے۔ وہاں کی رسمیں الگ ہوتی ہیں، روایات الگ ہوتی ہیں ، شادیاں الگ ہوتی ہیں اور پھر زندگی کے غم بھی۔ 

وہاں کی موسیقی، ساز ، دھنیں اور یہاں تک کہ وہاں کے مغنّیوں کی آوازیں بھی۔ یہ سب الگ ہیں اس لیے ہمیں پسند بھی ہیں۔ کیسا ہو اگر آپ اپنی تعطیلات گزارنے کسی دیہی علاقے کا رخ کریں اور وہاں پہنچنے پر سب ویسا ہی محسوس کریں جیسا اپنے شہر میں چھوڑ کر آئے تھے؟ نہ فصلیںنہ کھانے مختلف ، نہ رہن سہن اور نہ وہاں کا موسم کچھ بھی نیا نہ لگے تو آپ لازماخود سے یہ سوال کریں گے کہ میں یہاں کیوں آیا؟

اب پورے ہال پر سکوت طاری تھا۔خاتون نے گہرا سانس لیا اور پھر کہاترقی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ اس علاقے کی انفرادیت ہی مٹا دیں ۔ کسی بھی علاقے کا حسن اس کی انفرادیت ہی تو ہے۔ لباس ، رہن سہن ، رسم ورواج، زبان ،تہذیب و تمدن یہ سب مٹ جائیں یا کسی میں ضم ہو جائیں تو پھر تشخص ہی ختم ہو جائے۔ سوچیں دنیا ہی بے رنگ ہو، اگر اس کا رنگ ایک ہو جائے۔ یک رنگ دنیا تو یوں بے رنگی ہو گئی۔ اس منطقی وضاحت کے بعد پھرایک سوا ل آیا کہ انفرادیت رہنے دیں تو ساتھ کیسے شامل کریں گے ۔ اس بار بھی جواب مکمل تھا۔

ساتھ شامل کرنا یہ تو نہیں کہ اپنے جیسا کر لیں۔ کسی چھوٹے سے چھوٹے علاقے، قصبے گاوں اور شہر کا مختلف رنگ ہی اس کی پہچان ہے۔ ترقی میں شامل کرنا یہ نہیں ہے کہ آپ اس جگہ کے افراد کو ایک ہزار نوکریاں دینے کا اعلان کردیں اور ان سب کو ایک بڑے شہر منتقل کر کے روزگار کا مسئلہ حل کرنے کی منصوبہ بندی کر لیں ۔ ترقی کے سفر میں شامل کرنا تویہ ہے کہ وہاں کی کسی گھریلو صنعت یا قدرتی وسائل کو اتنا نمایاں اور سہولتوں سے آراستہ کردیں کہ وہاں کے لوگ غربت سے نکل کر بنیادی ضروریات زندگی حاصل کر لیں اور خود کفیل ہو جائیں۔ ایسا کرنے سے ترقی صرف اس علاقے تک محدود نہیں رہےگی بلکہ اس کا اثر پورے ملک کی ترقی پر پڑے گا۔ یہ وہ بنیادی نقطہ تھا جو اس دن اس خاتون نے ہم سب کو سمجھادیا کہ انفرادیت میں بھی حسن ہے، اگر اسے تلاش کیا جائے تو۔

دنیا کے تمام بڑے شہروں کا مشاہدہ کریں اسکندریہ ، قاہرہ ، استنبول ، ایتھنز ، بیجنگ ، برلن ،بوسٹن ، ویٹی کن ، روم ، دمشق اور ٹوکیو۔ سب کی قدیم تاریخ ہے لیکن ان شہروں کے رہنے والوں نے بڑھتی ہوئی آبادی کو مسائل کی وجہ سمجھ کر انہیں لاوارث نہیں چھوڑا بلکہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ شہریوں کی زندگی کو ترجیح بھی دی لیکن ساتھ ہی پانی، تاریخ ، روایات کو تھامے اپنا تشخص برقرار رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان شہروں کا شمار آج دنیا کے بڑے، تاریخی شہروں میں ہوتا ہے جن میں سیاحوں کی دلچسپی ہے اور علم وفنون کے مراکز ہیں۔ 

یہ تاریخ کے اوراق بھی ہیں اور جدیدیت کے علمبردار بھی ۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ ترقی یافتہ ممالک کے شہر ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک کی بات کریں تو وہاں تاریخ تو موجود ہے، لیکن حال ،بے حال ہے۔ دہلی، لاہور، کلکتہ اور کراچی، سارے شہر تاریخ تو سمیٹے ہوئے ہیں، لیکن نوحے کی صورت۔ بستیاں آباد دِکھتی تو ہیں، لیکن اجاڑ ہیں۔ ان شہروں میں بس سورج نکلنے پر صبح ہورہی ہے اور غروب ہونے پر شام۔ غریب روزگار کی چکی پیس رہا ہے کہ پیٹ کاایندھن میسر ہو، لیکن اس کی محنت پیٹ کا ایندھن نہیں سرمایہ دار کی تجوری بھر رہی ہے۔ لہذا ایسے شہروں کی ثقافت، عالمگیریت اور جدیدیت کے تیز گھومتے ہوئےپہیوں کے نیچے آہستہ آہستہ مسائل کی گرد میں گم ہوگئی ہے۔ جب سب غربت کی راہ میں گرد ہوا تو کیسی تہذیب، کہاں کا تمدن ، کہاں کی تاریخ اور کہاں کا تشخص؟

یہ سب بچ جائے اگر نظام مضبوط اور مواقع یکساں ہوں۔ کیوں کہ مضبوط نظام ہی وہ دفاع ہے جو آندھیوں میں بنیادوں کو قائم رکھ سکتا ہے ۔ بہ گرد راہ وہی ہوگا جس کے پاس بنیاد نہیں۔ بقول بیکل اتساہی

آندھیوں کی کچھ خطا نہیں

ہم ہی گرد ِراہ ہو گئے

مجھے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بیسویں قومی اجلاس کے موقع پر خبریں اور دیگر پروگرامز دیکھنے کا موقع ملا تو یہ احساس ہواکہ اصل ترقی تویہ ہے کہ ملک کی اجتماعی ترقی کو کسی ایک شہر یا صوبے میں نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتاہے کہ ملک کے طول وعرض میں ایک خاندان نے کیا حاصل کیا ہےـ یہ دیکھاجاتا ہے کہ دریائوں کے کنارے آباد تہذیبوں کے علاوہ پہاڑوں کے درمیان زندگی کا سفر پہاڑوں سے پار کے مقابلے میں کیسا ہے؟ صحرا ئوں میں ہونے والی بارشوں نے کیا صرف چند ماہ کی زندگی کو نخلستان بناناہے یااس کا اثر ملک کی معیشت کے پہیے کو چلاتے ہوئے اس صحرا میں رہنے والوں کی زندگی کے پہیے کو بھی رواں دواں رکھ رہا ہے؟

پچّیس فروری2021وہ تاریخ ساز دن تھا جب چینی صدرشی جن پنگ نے فخریہ یہ اعلان کیا کہ ہم نے غربت کے خلاف جنگ مکمل طور پر جیت لی ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں سےجو 98۔99 ملین غریب دیہی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی اسےغربت سے باہر نکال لیا ہے اور یوں 832غریب کائونٹیز اور ایک لاکھ اٹھائیس ہزار دیہات کو غربت کی فہرست سے باہر لے آئے ہیں۔

یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یہ ایسے نہیں ہوا کہ صدر شی جن پنگ نے خواہش کی اور سب ان کی خواہش کے مطابق ہوگیا؟ انہوں نے ایک ایک علاقے کا دورہ کیا اور وہاں کے عوام سے ان کے مسائل جانے۔ تخفیفِ غربت باقاعدہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت ہوئی ۔ کیا تھی وہ منصوبہ بندی؟

حکومت نے خود اپنے لیے سوالات مخصوص کیے ۔ یہ سوال بنیادی نوعیت کے تھے ۔

وہ کون لوگ ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہے؟

انہیں مدد کون فراہم کرے گا؟

انہیں مدد کیسے فراہم کی جائے گی ؟

مدد کے بعد کیسے جانچاجائے گا کہ غربت ختم ہوگئی ہے؟

اس کے لیے ضروری تھا کہ ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جو ان سوالات کا احاطہ کرسکے۔ اس سلسلے میں مقامی حکومتوں نے اپنی ذمے داری ادا کی اور ان گھرانوں کی نشاندہی کی، ان کے مسائل اوران کے حل کالائحہ عمل بھی دیاجنہیں غربت سے نکلنے کے لیے مدد درکار تھی ۔ مقامی حکومتوں کے نمائندوں نے رضاکاروں کے ایک بڑے نیٹ ورک کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ مسائل کے حل میں افراد یاقبائل کی نقل مکانی نہیں تھی بلکہ اس ضرورت کو سمجھا گیا کہ کیسے ان کی روز مرہ زندگی کو آسان بنایا جائے۔ پہاڑوں میں رہنے والوں کو راستے درکار تھے تاکہ وہ سفر کرسکیں۔ کاروبار کرنے والوں کو ذرائع درکار تھے تاکہ وہ اپنی مصنوعات شہروں اور آبادیوں میں صارفین تک پہنچا سکیں۔ 

کاشت کاروں کو جدید مشینری ،اچھے بیچ، مناسب رہنمائی سمیت ذرائع نقل و حمل درکار تھے کہ وہ اچھی پیداوار کو احسن انداز میں مناسب داموں فروخت کرسکیں۔ بچوں کو تعلیم درکار تھی تاکہ ملک کا مستقبل روشن ہوسکے۔ یہ سب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا کہ مسائل کو اسی مقام پر حل کرکے انفرادیت کو بچایا جائے۔ ترقی کے سفر میں پہاڑوں پر رہنے والوں کی زندگی کو پہاڑوں کے درمیان ہی بلندی کی منازل طے کروائی گئیں۔ سمندروں کے پاس رہنے والوں کی خوشیاں اسی سمندر کے ساتھ جڑی رہیں۔میدانوں اور صحرائوں کے وسائل ان ہی کی خوبصورتی کو بہتر بنانے کے لیےاستعمال کیےگئے۔ گھریلو صنعتوں کو ملکی کارخانوں سے اس طرح جوڑا گیا کہ کوئی بھی ترقی کے اس سفر میں پیچھے نہ رہا۔ انفرادیت بھی برقرار رہی ، روایت بھی ،تشخص بھی برقرار رہا اور مرکزیت بھی۔

سیکھنے کی کوشش کریں تو دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اسی فارمولے کو اپنا لیا جائے تو کیا پاکستان میں بھی فرد اور معاشرہ، معاشی پستی اور انفرادی مشکلات سے نہیں نکل سکتا ؟ شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادیوں کو روکنے کا اور کیا طریقہ ہے؟ یہی کہ دیہات میں بسنے والوں کو روزگار سمیت وہ سب سہولتیں مہیا کردی جائیں جس کی تلاش میں وہ شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔اندرونِ سندھ کاشت کے مواقع بڑھ جائیں ، تھر کے صحرائوں میں وہاں کے مقامی اپنےاپنے نخلستان آباد کرلیں۔ پنجاب کی زرعی زمینوں سے نکلتے موتی کوئی ٹوکیو، برلن اور ٹورنٹو میں وہاں کے باشندوں تک پہنچا دے تو ہیروں کی اصل قیمت ملنے پر محنت کرنے والے کسان کس قدر آسودہ ہوجائیں۔

بلوچستان کے معدنی وسائل سے پاکستان کے مسائل حل ہوجائیں تو چاغی کی پہچان صرف ایٹمی دھماکے ہی نہ رہیں اور خیبر پختونخواہ اور شمالی علاقہ جات کی سیاحت اگر عالمی سطح پر خبروں کی شہ سُرخیاں بن جائیں تو کسے پڑی ہے کہ پہاڑوں کے دامن سے نکلے اور شہروں کی سختیاں جھیلے ۔ کتنے ہی مسائل صرف اس سوچ سے حل ہوسکتے ہیں کہ فرد کی بنیادی ضرورتوں کو ان کا بنیادی حق سمجھ کر فرض ادا کرنے والے احسان نہیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر ادا کریں۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والا ملک، عوامی جمہوریہ چین، اگر یہ کرسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں۔ لیکن شرائط وہی ہوں گی جنہیں چین نے پورا کیا ۔ اخلاص، لائحہ عمل ، عمل درآمد اور بھرپور کوشش۔