• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان بن جانے کے بعد شروع ہی سے ہم کو یہ اصو ل ملحوظ رکھنے تھے۔

۱۔اللہ پاک کا حکم کہ اپنے غصے پر قابو رکھو اور احسان کروانسانوں پر )یہاں لفظ ’’انسان ‘‘ خاص اہمیت کاحامل ہے )

۲۔ہمارے پیغمبر ﷺ کا وہ سلوک جوانہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنے پرانے دشمنوں تک سے روا رکھا۔

۳۔ہمارے قائدا عظم کے ارشادات ،پاکستان دستور ساز اسمبلی کی اولین نشست کے سامنے، ان کے الفاظ یہ ہیں۔

’’ایک حکومت کی اولین ذمہ داری امن وامان کو برقرار رکھنا ہوتا ہے ،تا کہ مملکت کی طرف سے اپنے باشندوں کی جان ومال اور مذہبی عقائدکی پوری حفاظت کی جاسکے۔ اس تقسیم میں ایک یا دوسری ڈومینین میں اقلیتوں کا باقی رہنا ناگزیر تھا۔ ہمیں اپنی ساری توجہ لوگوں با لخصوص عوام اور غریبوں کی بہبود پر مرکوز کردینی چاہیے۔ 

آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ،ذات یا عقیدہ سے ہو۔اس کا کاروبار َمملکت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی شہری ہیں۔ میرے خیال میں اب ہمیں اس بات کو بطور نصب العین پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور وقت گزرنے پر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ،ہندو نہیں رہیں گے۔ مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی لحاظ سے نہیں، کیونکہ وہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ مملکت کے شہریوں کے طور پر سیاسی لحاظ سے‘‘

اس سے وسیع اور بہتر چارٹر کسی نئی ریاست کو پختہ بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے تصور میں آنا مشکل تھا۔مگر قائداعظم کا انتقال ہوتے ہی یہاں WITCH HUNTING کی ابتدا ہو گئی، غدار سازی کے کارخانے کھل گئے، جس اپنے پرائے کو سیاست سے بھگانا مقصود تھا، اس پر غدار اور ’’پاکستان دشمن‘‘ کا لیبل چسپاں ہونے لگا۔

جو الفاظ ہم یہاں کے رہنے والوں نے شاید ہی کبھی سنے تھے وہ یکایک مروج ہوگئے۔ ’’غدار‘‘، ’’ملک دشمن‘‘، ’’سبوئیٹر‘‘، ’’کٹرلنگ‘‘، ’’تخریب پسند‘‘ (بھارت کا جاسوس)، یعنی پچھلی عالمی لڑائی کے دوران اتحادیوں نے جو الفاظ اپنے دشمنوں کی تذلیل اور دل آزاری کیلئے گھڑ لئے تھے، وہ ہم نے بغیر سوچے سمجھے اپنی سیاسی لغت اور اخباری زبان میں شامل کرلئے اور ان کا استعمال اس سارے عرصے میں ہمارا روزمرہ کا مقبول ترین مشغلہ بنا رہا (اعتبار نہ آئے تو اس دور کے اخبارات کے فائل اور تقریروں کا ریکارڈ ملاحظہ کرلیجئے)

اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ رہی کہ جس شخص کو آج غدار قرار دیا کل اسی کو بشرط ضرورت گلے لگالیا، پھر الٹا کر دیا، پھر سیدھا کر دیا، پھر جیل میں ڈال دیا یا پڑودا کے تحت خارج کر دیا، پھر اس کو کسی نہ کسی بڑے عہدے پر بٹھا دیا!

غرض اکھاڑ پچھاڑ، الٹ پلٹ، باہمی آبروریزی اور دل آزاری کا یہ سلسلہ برابر 1970-71ء تک جاری رہا اور جو وقت اور قوت قوم کے مختلف ’’طفلان گریزپا‘‘ کو درس محبت دے کر، اپنے ساتھ ملاکر قومی تعمیر کے کام میں لگا دینے پر صرف ہوتی تو داخلی انتشار، باہمی تلخیوں اور جمہوریت کی پراگندگی کے وہ مناظر سامنے نہیں آتے جو پاکستان کے دشمنوں کیلئے باعث خوشنودی اور دوستوں کیلئے وجہ دل گرفتگی بنتے رہے۔

افسوس یہ ہے کہ کسی نے یہ نہں سوچا کہ اس کے نتائج آگے چل کر قومی اتحاد و تنظیم اور جمہوریت کے حق میں کیا ہونے والے ہیں۔

زبان سے تو سب پاکستان کا بھلا چاہتے تھے اور کہتے یہ تھے کہ وہ قوم کو ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ بنانا چاہتے ہیں، مگر عملاً اپنی غیر مال اندیشی سے، اس دیوار میں ایسے شگاف ڈالتے رہے جن کی نہ مرمت ہو سکتی تھی نہ ان کو چھپایا جا سکتا تھا۔

ہاتھ کے زخم مندمل ہو سکتے ہیں، زبان کے چرکے ناسور بن جاتے ہیں۔ آدمی جسمانی اذیت بھول سکتا ہے مگر بے آبروئی بھول نہیں سکتا۔ انسان آخر بشریت کے تقاضوں کے سامنے مجبور ہی رہتا ہے۔

یہ مشغلہ غدار سازی کا صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہی نہیں رہا، بلکہ بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ گئی۔ مثلاً منتخب عوامی نمائندوں کو بے آبرو اور مجبور کر کے نوکر شاہی کے قدموں میں ڈال دینے، اور اس طرح سے جمہوری سیاست کو ناکام بنانے کے مقصد سے، درون خانہ نوکر شاہی کے ہی ایما پر قائداعظم کے انتقال کے بعد (ان کی زندگی میں اس قسم کے ’’قانون‘‘ بنانے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی) ایک خاص قانون پروڈا بنایا گیا جس کا بظاہر مقصد تو انتظامی بدعنوانیوں کا احتساب تھا مگر نتیجہ کے اعتبار سے اس کا حقیقی مقصد یہ لگتا تھا کہ، منتخب قومی نمائندوں، وزیروں وغیرہ کی داڑھیاں مستقلاً نوکر شاہی کے ہاتھوں میں دے دی جائیں،تا کہ وہ وزیر، اپنی آبرو بچانے کی خاطر نوکر شاہی کے آدمیوں سے اختلاف نہ کر سکیں۔

یہ پہلا قدم تھا، اولاً جمہوریت کو نوکر شاہی کا تابع فرمان بنانے کیلئے اور ثانیاً دنیا کے سامنے پاکستانی عوام اور پبلک لائف کو ذلیل و خوار کرنے کیلئے۔ پروڈا کی کارگزاریوں کے ذریعے یہ دکھا کر کہ پاکستان کے عوام بالعموم ایسے آدمیوں کو منتخب کرتے ہیں جو بددیانت اور بدعنوان ہوتے ہیں اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان کو پکڑنے کیلئے ایک خاص قانون بنانے کی ضرورت پیش آ گی ہے۔

ایسا ’’قانون‘‘ دنیا میں کہیں نہیں بنا تھا،حالانکہ یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ دنیا کی جملہ جمہورتیں (بھارت سمیت) فرشتوں پر مشتمل تھیں اور ان کے خلاف کبھی بدعنوانی کی شکایتیں نہیں ہوئیں،اور یہ کیفیت محض پاکستان میں رونما ہوئی تھی کہ پاکستاان بنتے ہی ایک سال کے اندر اندر اکثر سیاست دان بدعنوان بن گئے تھے جن کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ایک خاص قانون کی ضرورت محسوس ہو گئی تھی۔ کون سی جمہوریت میں بدعنوانی کی شکایتیں نہیں ہوئیں؟ امریکہ کے کتنے صدور کے خلاف بدعنوانی کے الزامات اٹھے،(ایک پوری کتاب ہے اس مضمون پر)۔ برطانیہ کے وزیراعظم لائڈ جارج پر الزام آیا کہ اس نے القاب بیچے ہیں، وہیں مارکونی کمپنی کے شیئرز پر بڑے ہنگامے ہوتے رہے، کرچل ڈائون کے پلاٹوں میں ہیرا پھیری ہوئی اور ایک وزیر زیر عتاب آیا، جنوبی امریکہ تو سرتاپا مجسمہ اسکینڈل بنا رہا ہے،مگر کہیں ’’پروڈا‘‘ جیسا ’’قانون‘‘ نہیں بنا،کسی ملک نے اپنے جمہوری کارکنوں کو من حیث الجماعت، دنیا کے سامنے اس طرح سے رسوا کرنے کیلئے یہ اہتمام نہیں کیا۔

یہ صحیح اور مناسب چیز ہے کہ منتخب نمائندوں کا احتساب ہو،مگر جمہوری نظام کے تحت اس کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ مثلاً

(1) ہر تیسرے چوتھے سال بلاتکلف بلاناغہ نئے انتخابات ہوتے ہیں۔ اور عوام کو موقع ملتا ہے کہ وہ غلط آدمیوں کو نکال کر نئے آدمی منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجیں۔

(2) انتخابات کی کشمکش کے دوران مخالف و موافق پروپیگنڈہ ہوتا ہے،جس سے ہر امیدوار کی پچھلی کارکردگی کی تصویر کے دونوں رخ عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں اور وہ اپنے ووٹ کے ذریعے آخری فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کو منتخب کیا جائے اور کس کو رد کیا جائے۔

(3) اخبارات کو کامل و مکمل آزادی ہوتی ہے اور وہ سارا وقت غلط وزیروں اور بدعنوان منتخب نمائندوں کی پردہ دری کرتے رہتے ہیں اور عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے نمائندے کیا کچھ کر رہے ہیں۔

(4) اسمبلیوں اور کونسلوں میں اپوزیشن پارٹیاں ہوتی ہیں۔ جن کا کام بھی یہی ہے کہ وہ برسر منصب وزیروں کے عیوب کو اچھال کر عوام کو باخبر رکھیں۔

(5) سالانہ بجٹ پر بحث کے دوران وزیروں پر سخت سے سخت نکتہ چینی کی آزادی ہوتی ہے۔

(6) عدم اعتماد کی تحریک یا بجٹ میں ایک روپیہ کی تخفیف کے ذریعے وزیروں کو کسی وقت بھی برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(7) عوام ہر وقت جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں کے ذریعے وزیروں کی زندگی تلخ کرسکتے ہیں۔

غرض منتخب نمائندوں کے احتساب کے اس طریقہ کار کے تحت، اپنے نمائندوں سے باز پرس کا کام انہیں عوام کے اختیار میں ہی رہتا ہے،جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا ہے کہ نمائندہ میرا اور اس کی داڑھی دوسروں کے ہاتھ میں ہو۔ پروڈائی طریقے سے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری اپنے منتخب کرنے والے عوام سے ختم ہو جاتی تھی۔ جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے بنیادی مقاصد فوت ہو جاتے تھے۔

دوسری بات یہ ہے کہ احتساب کا عمل بدنیتی پر مبنی نہ ہو اگر احتساب کی بنیاد بدنیتی پر ہو تو اس کا اثر الٹا ہی نکلتا ہے اور اس سے احتساب کرنے والوں کی اپنی ساکھ مجروح ہو جاتی ہے۔

اب پروڈا کے فضائل اور اس کی ابتدا اور پھر انتہا پر نظر ڈالئے۔ پروڈا کی مشینری کو حرکت میں لانے کیلئے طریقہ یہ رکھا گیا کہ کسی جھوٹی سچی شکایت پر مرکزی حکومت کا مقرر کردہ گورنر، اپنے کسی وزیر کو ڈسمس کر کے اپنی مرضی کا ٹریبونل بٹھا کر اور اس سے رائے لے کر مرکزی حکومت سے اس وزیر کو کئی سال کیلئے نااہل قرار دلوانے کا مجاز تھا۔

پروڈا کے مقدموں میں وزیروں کے خلاف ان کے سیکرٹری اور دوسرے زیردست گواہ بن کر آتے تھےاور اکثر یہ دکھاتے تھے کہ متعلقہ فائل پر ہم نے یہ رائے دی تھی اور اس سے اختلاف کر کے وزیر نے یہ فیصلہ دیا،جس سے بدعنوانی واقع ہوگئی۔

یاد رہے کہ پروڈا کی کارروائیاں سارے پاکستان میں ہوتی رہیں، مگر پاکستان بھر میں کسی سیاست دان کے خلاف، ہزار کوششوں کے باوجود، رشوت خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

رہا بدعنوانی کا الزام تو یہ ایک مبہم چیز تھی۔ مثلاً بدعنوانی کیا چیز ہے؟ بدعنوانی کا معیار کیا ہو؟ انتظامی امور میں کس فعل کو بدعنوانی قرار دیا جائے اور کس ’’خوش عنوانی‘‘ سے تعبیر کیا جائے؟ یہ ان افسروں اور ٹریبونلوں کی صوابدید پر منحصر رہا،وہ رات کو دن، دن کو رات قرار دے سکتے تھے۔ یعنی رسی جس کی گردن میں فٹ آجائے اس کو پھانسی پر چڑھادیا جائے۔!

میں نہیں کہتا کہ مرکز کے جن سیاست دانوں نے پروڈا بنایا ان کی نیت خراب تھی، مگر پروڈا کا جو نتیجہ نکلا وہ کئی لحاظ سے افسوس ناک ثابت ہوا مثلاً

(1) عوام کے منتخب وزیر محض پروڈا کی بے آبروئی سے بچنے کی خاطر نوکر شاہی کی کاغذی کارروائی کو عوامی مفاد کے تقاضوں پر ترجیح دینے لگے،اور اس طرح سے عوامی نمائندگی عملاً بے اثر اور نوکر شاہی عملاً مختار کل بن گئی۔ جمہوریت کو نوکر شاہی کے قدموں میں لٹا دینے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا تھا۔

(2) منتخب اسمبلیوں کو بیکار بنا دیا، کیونکہ جب اپنے وزیروں پر احتساب کا اختیار اس کے پاس نہیں رہا (جو جمہوری اصولوں کے تحت اسمبلیوں کا بنیادی حق تھا) اور یہ کام اوپر ہی اوپر ہونے لگا، تو اسمبلیاں محض نام کی رہ گئیں۔

(3) صوبوں میں لوگوں کے مابین اختلافات کو شہ مل گئی۔ جب احتساب کا اختیار عوام کے پاس نہیں رہا اور وزیروں کی تقرری و موقوفی، عوام کے ووٹوں پر منحصر نہیں رہی بلکہ اوپر والوں کے ہاتھوں میں آگئی تو وزیروں کے مخالفوں کے پاس یہی ایک حربہ رہ گیا کہ وہ جابےجا شکایتوں کا طوفان کھڑا کر کے، پروڈا کے تحت ان کو پکڑوا کر سیاسی میدان سے نکلوا دیں،یہی ہونے لگا اور بڑے پیمانے پر ہوتا رہا۔ مثلاً ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کا کوئی چلتا پھرتا سیاست دان(میرے بغیر) ایسا نہیں رہا جو پروڈا کے تحت نااہل نہیں قرار دیا گیا۔ غرض ایک ایسی افراتفری پھیل گئی کہ صوبوں میں جمہوریت کی چولیں ہل گئیں اور صوبوں میں مرکز کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں، یہی نوکر شاہی کا حقیقی مقصد تھا،جس کیلئے انہوں نے پروڈا کا نسخہ بنوایا تھا۔

(4) جس طرح اوپر عرض کیا جا چکا ہے، پروڈا کی جملہ ہنگامہ آرائیوں کے باوجود کسی ایک سیاست دان کے خلاف بھی رشوت خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا،یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے۔

(5) پورے پانچ چھ سال یہ ڈرامہ ہوتا رہا اور سارا عرصہ دنیا کے سامنے پاکستان کی تذلیل اور پاکستانی جمہوریت کی تحقیر ہرتی رہی،باہر کے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ یہ عجیب اسلامی ملک بنا ہے،جس کو چلانے والے سیاست دانوں کی اکثریت صرف ایک سال کے اندر ہی اس قدر بددیانت ثابت ہو رہی ہے۔

(6) چھ سال بعد دیکھا گیا کہ یہ ’’قانون‘‘ خود ہی خلاف قانون پاس ہوا تھا،لہٰذا اس کو منسوخ اور اس کے مجرومین کو اس کی پابندیوں سے آزاد سمجھا گیا۔

بلاوجہ سیاست دان چھ سال بے آبرو ہوتے رہے۔ لاکھوں روپیہ طرفین کا وکیلوں اور کاغذوں پر ضائع ہوتا رہا۔ مثلاً کھوڑو مرحوم کو اپنی طرف سے وکالت کیلئے الہ آباد ہائیکورٹ کے، سابق چیف جسٹس سر اقبال احمد کو بلانا پڑا،جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان بھر میں مجموعی طور پر کتنی دولت اس ڈرامہ پر خرچ ہوئی ہوگی۔

(7) البتہ پروڈا کی افادیت، نوکر شاہی اور شخصی حکمرانوں کے نقطہ نظر سے، ایک بار ثابت ہو چکی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کا دور آیا اور سیاست کے میدان کو سیاست دانوں سے خالی کرنے کی پھر ضرورت محسوس ہوئی تو اسی پروڈا کی طرز پر ’’پوڈو اور ایبڈو‘‘ بنائے گئے جن کے تحت سہروردی مرحوم قیوم خان مرحوم، دولتانہ صاب اور دوسرے چوٹی کے رہنمائوں کا کام تمام کر دیا گیا۔ اور اس ایبڈو کی برکت سے سیاست کا میدان فیلڈ مارشل مرحوم اور ان کے چمچوں کیلئے کھلا رہ گیا جو پورے دس سال ملک پر مسلط رہے۔ تاوقتیکہ ’’چینی چور ی‘‘ کی منزل نہیں آئی۔

(8) جن معتوب یا ’’بدعنوان‘‘ قومی نمائندوں کو پروڈا کے تحت نااہل ثابت کر دیا گیا تھا وہ پروڈا منسوخ ہوتے ہی، اپنے عوام کی مدد سے دوبارہ وزارتوں پر بیٹھ گئےاور ان کے بیٹھنے سے نہ تو کوئی زلزلہ آیا نہ پاکستان کے سر پر خدانخواستہ کوئی بم پھٹا۔

بہرحال یہ تھا سلوک جو پاکستان بنتے ہی سیاست دانوں سے ہونے لگا۔

(پیر علی راشدی کی کتاب، ’’رودادِ چمن‘‘ سے ایک باب جو 1982ء میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شایع ہوا تھا)