برصغیر میں اب یہ احساس جاگ رہا ہے کہ تاریخ کے ورثے کو بچایا جائے آنے والی نسلوں کے لیے وہ تمام نشانیاں چھوڑ دی جائیں جو بعد میں مشعل بن کر ان کی راہوں میں نور پھیلائیں، مگر یہ احساس کی تہہ میں کتنے ہی درد اور کتنے ہی کرب چھپے ہوئے ہیں۔ یہ گزری صدیوں کی نہیں حالیہ برسوں کی بات کی ہے جب اعلیٰ روایات اور تہذیب کے اسی گہوارے میں اور اسی سر زمین میں نہ معلوم کتنی دستاویزیں مٹی میں اور نہ جانے کتنے کتب خانے خاک میں ملے ہیں۔
یہاں ہم علم کے ان سفینوں کی باتیں کریں گے جوبے خبری کے ساحلوں سے چلے اور قدر شناسی کے محفوظ کناروں پر جا لگے اور علم کے ان قافلوں کا ذکر بھی ہو گا جو راہ میں دن دہاڑے لٹ گئے۔
ہم بات کریں گے اس موضوع پر کہ کہاں کہاں کیسی کیسی کتابیں محفوظ ہیں اور وہ کس حال میں ہیں اور کہاں کہاں علم و حکمت کے خزانے یوں گاڑے گئے کہ پھر کبھی انہیں دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔
ہم گفتگو کریں گے برصغیر کے اہل علم حضرات سے، علم دوست حضرات سے ان سے جو ساری زندگی کتابوں کے درمیان گزارتے ہیں اوران سے جن کے دل اور دماغ کے درمیان اب کتابوں کا بسیرا ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی دفن کیے جانے والےخزینوں کی۔
مشفق خواجہ ادب کے شیدائی ہیں جس مکان میں رہتے ہیں اس کے کمروں اور برآمدوں کی دیواریں نظر نہیں آتیں کیونکہ ان کے آگے کتابیں چنی ہیں۔ بتا رہے تھے کہ کتابوں کے ذخیرے کہاں کہاں ہیں۔ ’’بعض ذخیرے ایسے بھی ہیں جو بزرگوں کےمزاروں پر موجود ہیں۔ میرے سننے میں یہ آیا کہ جب کچھ عرصہ قبل حکومت نے مزاروں کو محکمہ اوقاف کے تحویل میں دے دیا تو وہاں جولوگ تھے انہوں نے مخطوطات کو زمین میں گاڑ دیا کہ حکومت ان پر قبضہ نہ کر لے۔ اب زمین میں گاڑےہوئے مخطوطات کا حشر کیا ہو گا؟ میرا خیال ہے وہی ہونا چاہیے جو آدمی کا ہوتا ہے‘‘۔
کتابوں کے دشمن صرف کیڑے مکوڑے ہی نہیں، کچھ اور بھی ہیں۔ جو پرانے گھرانے باپ دادا کے ورثے کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، ان پر خوف کا عالم طاری ہے کیونکہ انہیں ستانے والوں کی کمی نہیں۔ مثلاً انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی جام شورو کے نگراں ڈاکٹر غلام علی الانا بتا رہے تھے کہ ٹھٹھہ جیسے تاریخی علاقے کے گھرانوں سے اگر سیکڑوں نادر اور نایاب کتابیں اور خصوصاً قرآن، تفاسیر اور احادیث کے نسخے حاصل کر لیے گئےہیں لیکن : ’’اب لوگ ایسی تاریخی کتابیں دکھاتے ہوئے گھبراتےہیں، وہ ڈرتے ہیں کہ یہ ورثہ ان سے کوئی چھین نہ لے۔ ماضی میں بارہا یہ ہوا کہ کوئی ایسا ضلعی حاکم آیا جسے تاریخی نوادر سے دلچسپی ہو گئی اور لوگوں کو مجبوراً یہ کتابیں دینا پڑیں۔ اس لیے یہ اپنی کتابیں دکھاتے ہوئے گھبراتے ہیں‘‘۔
اور کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جہاں علم و حکمت کے موتی نسل در نسل چلے لیکن جوں ہی بزرگوں کی آنکھ بند ہوئی یہ موتی ادھر ادھر رل گئے اور ایسی ایسی کتابیں، دستاویزیں ، نقشے اور فرمان جو ہماری تاریخ کی گمشدہ کڑیوں کا پتہ دیتے‘‘ آپ ہی گم ہو گئے۔
پروفیسر گو پی چند نارنگ اردو کے استاد ہیں اور ادب کے ہر تاریک اور روشن گوشے تک ان کی رسائی ہے۔ انہوں نے کتنے ہی کتب خانے بنتے دیکھے اور ان ہی کی آنکھوں نے کتنے ہی ذخیرے مٹتے دیکھے۔ انہوں نے کہا:
’’جو ذاتی ذخیرے ہیں اب لوگ دبائے بیٹھے ہیں کہ صاحب یہ تو کروڑوں روپے کا سرمایہ ہے اور بڑی نادر چیزیں ہیں اس میں کیا شک ہے کہ نادر ہیں لیکن جو آدمی اپنی تحویل میں لیے بیٹھا ہے جب اس کی آنکھ بند ہو جاتی ہے تو اس کی اولاد اور اس کے ورثا نہیں جانتے کہ ان چیزوں کی کیا اہمیت ہے، چنانچہ ایسے بعض ذخیروں کا تالا ہی نہیں کھلتا، بکس ہی نہیں کھول کر دیکھے جاتے، یا لوگ چرا کر لے جاتےہیں یا جو ورثا ان کی اہمیت کو نہیں جانتے وہ ان کو ردی کے بھائو بیچ دیتے ہیں اور اسی طرح بہت سے ایسے ذخیرے جو ملک کے دور دراز علاقوں میں نجی تحویل میں ہیں وہ برباد ہو رہے ہیں اور ان کے ضائع ہونے کا شدید خطرہ ہے‘‘۔
جن لوگوں کو کتابوں سے عشق ہوتا ہے، جنگل اور دریا پھر ان کا راستہ نہیں روکتے۔ آندھرا پردیش کے نامور محقق ڈاکٹر ضیا الدین احمد شکیب علم کی جستجو میں متھرا سے لےکر سیتا مئوتک کہاں کہاں نہیں گئے۔ جہاں خبر ملی کہ قدیم دستاویزوں کا ذخیرہ موجود ہے، ڈاکٹر صاحب وہاں ایک بار نہیں بار بار گئے۔ وہاں انہوں نے کیا دیکھا ’’میں نے بعض جگہ دیکھا کہ ایسی ایسی کتابیں ہیں جو بارہ سو اور تیرہ سو سال پرانی ہیں اور ایسی چھت کے نیچے ہیں جو ہر سال بارش میں ٹپکتی ہے۔ اور مالک یہ چاہتے ہیں کہ ان سے جدا نہ ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لاکھوں کی چیز ہے لیکن ان میں اتنی بھی استعداد نہیں کہ کسی بینک میں رکھوا دیں۔ ایسے بہت سے کتب خانے ہیں کہ جب ہم سال بھر کے بعد دوبارہ جاتے ہیں کہ ذرا دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یا تو دیمک چاٹ گئی یا چوہوں نے کتر لیا، یا پانی لگ گیا یا کچھ جل گئے یا بچوں نے لا پروائی سے کہیں پھینک دیا۔ ایسے حادثے دن رات ہو رہے ہیں‘‘۔
اپنی اس گفتگو میں جب ہم مطبوعہ یعنی چھپی ہوئی اور مخطوطہ یعنی ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کے ذخیروں کی بات کریں گے تو پرانی کتابوں کے تاجروں کا ذکر بھی آئے گا۔ ایسے تاجروں کا بھی جنہوں نے علم کا اور تاریخ کا بیوپار کیا اور ایسے تاجروں کا بھی جنہیں کتابوں کی تجارت کرتےکرتے ان سےجذباتی لگائو ہو گیا اور جنہوں نے بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں بھری ہوئی کتابیں کوڑیوں کے مول فروخت ہوتے دیکھیں، مثلاً حیدرآباد دکن کے علیم الدین جنہوں نے کہا۔
’’امیر پائیگاہ ظہیر یار جنگ کی مثال لیجیے۔ ان کا انتقال ہوا تو ان کی بیوہ نے ایک لاری بھر کر کتابوں کا ذخیرہ بیچ دیا اور یہاں سے ایران چلی گئی اور یہ لاری بھر ذخیرہ کوڑیوں کے دام، صرف اڑھائی ہزار میں دے گیں۔ کم سے کم دو لاکھ تین لاکھ کی چیزیں تھیں۔ مجھے اتنا دکھ ہوا، اتنا دکھ ہوا کہ کھانا نہیں کھایا گیا۔ بالفاظ دیگر ‘‘۔
کتاب کا معاملہ بھی خوب ہے۔ کتاب اپنے قاری سے بیک وقت دو عشق طلب کرتی ہے، ایک تو خود کتاب کا عشق اور دوسرے علم کا عشق۔ یہ بات ہم بھی کہتے ہیں اور یہی بات اردو کے بزرگ شاعر اور خدمت گزار سکندر علی وجد نے بھی کہی جنہوں نے برس ہا برس بابائے اردو مولوی عبدالحق کی رفاقت میں کام کیا اور گائوں گائوں قریہ قریہ جا کر پرانی کتابیں جمع کیں، کہنے لگے:
’’کتاب کے عشق کے بغیر کتاب محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اب اس میں شک نہیں کہ ہماری کتابیں ملک سے باہر چلی جا رہی ہیں مگر مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ وہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ وہاں انہیں بڑی احتیاط اور اہتمام سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ فیومی گیشن ہوتا ہے، ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں رکھا جاتا ہے۔ اب ہمارے پاس کتابوں میں نیم کے پتے رکھ دیتے ہیں، اس لیے اور کیڑے پیدا ہو جاتےہیں۔ تو کتابوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ عشق چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ علم کا بھی عشق چاہیے مگر اب علم بھی نہیں ہے اور عشق بھی نہیں ہے۔ ہمارے گھروں میں ریڈیو ہے، ٹی وی ہے، سب کچھ ہے لیکن کتاب نہیں ہے۔‘‘
اسلام آباد کی کانفرنس ، پاکستان میں لائبریری آرڈیننس نافذ کرنے کی تجویز، دہلی میں دستاویزوں کے تحفظ کی تعلیم و تربیت اور کلکتہ میں ہر وہ کتاب جمع کرنے کی تگ و دو کہ جو کسی بھی چھاپے خانے سے نکلے، یہ سب ایک نئی امنگ کی پہلی پہلی علامتیں ہیں۔ حکومتیں، ادارے اور افراد اب بے عملی کی اندھیری کوٹھری سے آگہی اور دانش کے روشن دالان میں نکل آئے ہیں مگر یہ محض آغاز ہے ابھی بہت سا کام ہونا ہے، مریض کی تپتی ہوئی پیشانی پر ٹھنڈے پھاہے رکھنےکی ضرورت ابھی ختم نہیں ہوئی۔
اس گفتگو کو ہر گوپی چند نارنگ کی اس بات پر ختم کرتے ہیں:
’’بالعموم کتاب خانوں کی جو حالت ہے، چند ایک کو چھوڑ کر، وہ زیادہ اچھی نہیں کیونکہ ان سے استفادہ کرنے والے اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ کہنے کو تو ہر شخص محقق ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہتا ہے مگر اس کے لئے جس لگن کی ضرورت ہے وہ لوگوں میں دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرف آپ جتنی بھی توجہ دلائیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف ایک طرح کی خدمت ہو گی بلکہ انتباہ بھی ہو گا اور قومی ذخیرے ، خواہ کسی ملک کے ہوں، کسی قوم کےہوں، کسی معاشرے کے ہوں، کسی زبان کے ہوں وہ پوری بنی نوع انسان کی میراث ہیں اور ان کے تحفظ کے لئے جتنی بھی کوشش آپ کر سکیں اور اس سلسلے میں جتنی بھی بیداری آپ پیدا کر سکیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ہی مستحق اقدام ہو گا۔‘‘
(معروف کالم نویس، رضاعلی عابدی کی کتاب
’’تیس سال بعد‘‘ سے لیے گئے دو ابواب)
علم کی وادی
جن دنوں میں برصغیر کے کتب خانوں کے سفر پر جانے کی تیاریاں کر رہا تھا ان ہی دنوں ایک روز فیض احمد فیض سے ملاقات ہوئی ۔ میں نے فیض صاحب کو بتایا ہم لوگ ایک دستاویز ترتیب دیں گے۔ جس میں دیکھیں گے کہ ہماری قدیم کتابیں کہاں کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ میری بات سن کر فیض صاحب بہت خوش ہوئے۔ میں نے بتایا کہ برصغیر میں ایک مہینے کام کروں گا ان کے سننے میں مغالطہ ہوا۔ فیض صاحب ایک مہینے کو ایک سال سمجھنے اور کہنے لگے کہ اتنے بڑے کام کیلئے ایک سال تو بہت کم اور ناکافی ہوگا۔
وہ ٹھیک ہی کہتے تھے۔
میں نے پاکستان اور ہندوستان کا سفر شروع کیا تو احساس ہوا کہ چھوٹے بڑے کتب خانوں کا حال جاننے کیلئے ایک سال نہیں ایک عمر درکار ہے اور عمر بھی ایسی کہ جس میں ہر برس کے پچاس ہزار دن ہوں۔
سندھ کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں اور مدرسوں میں موجود تاریخ کے شہ پاروں کا ایک جائزہ
بحرحال میں جتنی بھی معلومات سمیٹ سکتا تھا بٹور لایا۔ میرے سامنے کتابوں اور کتابچوں کے نوٹس خطوط، مضامین اور تراشوں کے انبار لگے ہیں اور یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کہاں سے شروع کروں اورکہاں تمام کروں۔
ہر چند کہ وہ زمانہ گیا جب گھر گھرکتب خانے ہوا کرتے تھے اور امراء کو تو جانے دیجئے، غریب غربا تک جیسے بھی بن پڑتا تھا، گھر کے ایک طاق میں کچھ نسخے ضرور سجا لیا کرتے تھے اور یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب خوش نویس راتوں کو چراغ کی روشنی میں کتابیں نقل کرکرکے بیچا کرتے تھے ان دنوں کوئی گھرکتابوں سے خالی نہ تھا مگر جب راتوں رات چھاپ کر ارزاں کتابوں کے ڈھیر لگا دینے والا چھاپہ خانہ آیا تو کتابوں کا ذوق جاتا رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کے جانے کی آہٹ ابھی نہیں گئی ہے اس کے قدموں کی چاپ سننے میں آرہی ہے اس کے پیروں کے نقش ماند سہی مگر باقی ہیں تو آئیے آج وہی نقوش دیکھتے چلیں۔
انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی میں صرف سندھ کے موضوع پر پچپن ہزار کتابیں جمع ہیں اور ان میں زیادہ تر اب نایاب ہیں۔ جام شورو میں سندھ یونیورسٹی سے وابستہ اس ادارے میں بہت بڑے کتب خانے کے ساتھ ساتھ قدیم کتابوں کو محفوظ کرنے کے وہ تمام انتظامات بھی ہیں جو مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔
وہاں فیومی گیشن چیمبر ہیں جن کے اندر رکھی ہوئی پرانی کتابوں کے کیڑے مکوڑے ختم ہوجاتے ہیں، سلین نکل جاتی ہے اور پرانا کاغذ گلنے سے بچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کتاب کے ہر ورق پر جھلی جیسا کاغذ چڑھانے کا بندوبست بھی ہے جس کے بعد پرانا کاغذ صدیوں کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی میں کتابوں کے ایک ایک صفحے کی چھوٹی سی فلم بنانے کے جدید انتظامات بھی ہیں اور اس مائیکرو فلمنگ کے علاوہ ہر صفحے کی فوٹو کاپی اتارنے کے آلات بھی لگے ہیں۔ پرانی کتابوں کی ازسرنو جلد بندی ہوتی ہے اور قابل ذکر اور قابل دید کتابوں کو شوکیسوں میں سجادیا جاتا ہے اور وہیں اس کتاب کے بارے میں تمام ضروری معلومات تحریر کردی جاتی ہیں۔ چنانچہ وہاں سیکڑوں کتابیں ایسی ہیں کہ انہیں پڑھنا تو رہا ایک طرف، دیکھنا ہی نصیب ہوجائے تو خود کو خوش نصیب جانیے۔
انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی کو ملاکر صوبے میں اس نوعیت کے تین ادارے ہیں۔ ان کے متعلق ڈاکٹر الانا نے بتایا:
’’ان میں سب سے سینئر ادارہ سندھی ادبی بورڈ ہے۔ اس کے بعد ہے انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی۔ اس کے بعد ہے خیرپور کی پبلک لائبریری۔ ان تینوں اداروں میں جہاں تک قلمی نسخوں کا تعلق ہے تو سندھی ادبی بورڈ اول ہے۔ وہاں سب سے پرانے نسخے ہیں کیونکہ وہ پرانا ادارہ ہے۔ اس کے بعد سندھ کے عالموں اور فاضلوں کی لکھی ہوئی کتابیں سندھالوجی میں ملیں گی لیکن خیرپور کی لائبریری بھی کم نہیں کیونکہ تعداد کے لحاظ سے وہاں قلمی نسخے زیادہ ہیں۔ اس لائبریری میں تالپور حکمرانوں کے زمانے کا کلکشن موجود ہے۔ وہاں خود سندھ کے متعلق کتابیں اتنی زیادہ نہیں لیکن برصغیر کے قلمی نسخے وہاں زیادہ ہیں۔‘‘
حیدرآباد سندھ کے بڑے کتب خانوں میں شاہ ولی اللہ اکیڈمی کی لائبریری قابل ذکر ہے اس میں خود شاہ صاحب کی تصانیف کے علاوہ اسلام اور تاریخ اسلام پر مخطوط اور مطبوعہ کتابوں کا ایسا نادر ذخیرہ محفوظ ہےکہ یورپ اور امریکہ میں تحقیق کرنے والوں کو بھی اپنی بات تکمیل کو پہنچانے کے لیے وہاں جانا پڑتا ہے۔
سندھ یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں بھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے اور وہاں پانچ چھ سو قلمی کتابیں موجود ہیں جن کی اب مائیکرو فلم بنائی جارہی ہے تاکہ ان کا عکس ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد میں صوبائی میوزیم کے پاس بھی بہت سی نایاب کتابیں ہیں اور انہوں نے تقریباً ڈیڑھ سو قلمی نسخوں کا ایک ذخیرہ حال ہی میں خریدا ہے۔ حیدرآباد شہر میں پاکستان نیشنل سینٹر کا کتب خانہ بھی ہے جہاں تقریباً بیس ہزار نئی اور پرانی کتابیں ہیں۔
ان سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے بعد اب ہم آپ کو سندھ کے ایک عجیب و غریب کتب خانے کے بارے میں بتاتے ہیں جو پتھریلے میدانوں اور سنگلاخ چٹانوں کے پچھواڑے ایک چھوٹے سے گائوں کوٹری محمد کبیر میں ہے اور علم کا یہ ذخیرہ دنیا کی نگاہوں سے روپوش ہے۔
کوٹری محمد کبیر نواب شاہ میں نیشنل ہائی وے پر ایک قدیم گائوں ہے جہاں کبھی مخدوم شیخ محمد کبیر اور سخی شیخ اللہ یار کی درسگاہیں تھیں اور اب ان دو بزرگوں کی درگاہیں ہیں۔ وہاں پرانی درسگاہوں کی کتابیں ابھی تک موجود ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹر الانا نے کہا:
’’وہاں میری نظر میں سب سے زیادہ قیمتی اور نایاب کتابیں مخطوطوں کی شکل میں پائی جاتی ہیں۔ کوٹری محمد کبیر ایک ایسا گائوں ہے جہاں کے بزرگوں نے صدیوں پہلے کتابیں اکٹھا کرنا شروع کی تھیں سندھ کے بزرگ شاعر شاہ لطیف بھی وہاں گئے تھے اور انہوں نے بھی کچھ کتابیں دیکھی تھیں۔‘‘
کوٹری محمدکبیر کے اس کتب خانے کے بارے میں پہلے یہ سنا جاتا تھا کہ وہاں کتابوں کی حالت اچھی نہیں کیونکہ وہاں قدیم کاغذوں کے تحفظ کا انتظام نہیں۔ لیکن اب سنا جاتا ہے کہ درگاہوں کے سجادہ نشین میاں غوث محمد گوہر ان نایاب کتابوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کام کے لئے متعلقہ اداروں کی مدد لے کر رہے ہیں۔
کوٹری محمد کبیر کے بعد سندھ میں نایاب کتابوں کا دوسرا بڑا ذخیرہ بھی ایک چھوٹے سے قصبے منصورہ ہے۔ منصورہ کا دینی علوم کا مدرسہ ، جہاں یہ کتابیں موجود ہیں، عالم اسلام میں بہت مشہور ہے چنانچہ اس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے طالب علم بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ایسا ہی ایک اور ذخیرہ سندھ کے ایک گائوں پیرجھنڈو شریف میں تھا۔ وہاں برطانیہ ، ترکی اور مصرکے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقلیں منگوا کر جمع کی گئی تھیں۔ اب یہ کتب خانہ نیشنل میوزیم کودے دیا گیا ہے۔
سندھ میں دو اور ایسے پرانے مدرسے ہیں جہاں دینیات اور سیرت پر نایاب کتابیں اور مخطوطے پائے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق ڈاکٹر الانا نے بتایا:
’’خیر پورمیرس کی طرف ایک چھوٹا سا شہر ہے’’ ٹھیڑی‘‘ جہاں جامعہ دارالہدیٰ ہے۔ اس مدرسے میں بھی پانچ چھ سو قلمی نسخے موجود ہیں جو دینیات اور فقہ پر بڑی نادر کتابیں ہیں۔ اسی طرح اگر ہم زیریں سندھ میں جائیں تو وہاں میر پور بٹھورو کی طرف ایک چھوٹا سا گائوں ہے’’چنہاں‘‘ جس کو سومرو بھی کہتے ہیں وہاں بھی ایک پرانا مدرسہ ہے اس میں قدیم زمانے کے سندھی کاتبوں کی لکھی ہوئی فقہ اور سیرت پر کتابیں ملتی ہیں۔
اسی طرح ضلع ٹھٹھہ کے ایک گائوں چوہڑ جمالی میں شاہ بندر ادبی سوسائٹی کا کتب خانہ اور اس علاقے میں مدرسہ ہاشمیہ سجاول کا کتب خانہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ضلع سانگھڑ کے دیہات میں بھی دو بڑے کتب خانے ہیں ان میں سے ایک چوٹیاریوں اوردوسرا ڈبھروں نامی گائوں میں ہے جو سادات کا بڑا کتب خانہ تصور کیا جاتا ہے۔
حیدر آباد سے تقریباً بیس میل دور ٹنڈو سائیں داد میں سرہندی بزرگوں کا ایک بڑا کتب خانہ ہے جس میں مخطوطات اور نوادر کا ذخیرہ ہے۔لاڑکانہ کے قریب پیر جوگوٹھ میں پیرنجیب اللہ شاہ کا کتب خانہ موجود ہے جو بڑا علمی سرمایہ ہے ۔ اسی نام کا ایک گائوں خیر پور میرس کے قریب ہے جس میں پیر صبغت اللہ شاہ مرحوم کی کتابیں اور ان کے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ زیادہ تر کتابیں حدیث، تاریخ، صرف و نحو، فقہ اور لسانیات کے موضوع پر ہیں دو بڑے دینی مدرسے کراچی کے علاقوں کھڈو اور ملیر میں موجود ہیں جو مخطوطوں اور نایاب کتابوں سے مالا مال ہیں ایک اور مدرسہ بھی ہے جو کہ جنا ب مولانا عبدالحق ربانی کا ہے اور یہ میرپور خاص کے قریب واقعہ ہے، وہ بھی کتابوں سے خالی نہیں ہے۔
یہ تھا سندھ کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں اور مدرسوں میں موجود تاریخ کے شہ پاروں کا ایک جائزہ ۔بلاشبہ اس میں کئی نام اورمقام شامل ہونے سے رہ گئے اور یہ مقام معذرت طلبی کا ہے۔
صوبہ سندھ کے امیروں ، عالموں، اشاعت کاروں اور غریبوں کے گھروں میں ان کی اپنی ذاتی ملکیت میں موجود ہیں۔ ان میں سے کئی کتب خانے تباہ ہو رہے ہیں، کئی کو بچا لیا گیا ہے اور کتنے ہی کتب خانے ایسے ہیں جنہیں ہم اور آپ دیکھ ہی نہیں سکتے۔ البتہ جانتے ہیں کہ وہاں تاریخ کی ایسی ایسی نادر یادگاریں موجود ہیں کہ انہیں خدانخواستہ نقصان پہنچا تو پھر تلافی کی کوئی صورت نہیں۔