• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقسیم ہند کے فوراً بعد اس بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی کہ جگہ جگہ مہاجر بستیاں آباد ہو گئیں۔ انہیں میں ایک بہار کالونی بھی تھی۔بہار کالونی آباد ہونے کے کئی سال بعد بجلی آئی۔ گھروں میں دو لالٹینیں اور ایک لیمپ ہوتا۔ شام کو تینوں کی چمنیاں چمکائی جاتیں۔بتی ٹھیک کی جاتی اور تیل ڈالا جاتا۔ ادھر مغرب ہوئی ادھر تینوں روشن۔

لیمپ کے گرد لڑکے بالے ہوم ورک کرنے بیٹھ جاتے۔ ایک لالٹین باورچی خانے میں اور دوسری جس کو جہاں ضرورت ہو۔ رات کی روٹی پکتے ہی دسترخوان بچھ جاتا،پھر عشاء پڑھنے کے بعد بس دونوں لالٹینیں گل۔ لیمپ والوں کو دس بجے تک کی اجازت تھی،پھر اندھیرا گھپ یا چندا کی چاندنی۔آٹھ گھنٹے کی نیند لے کر چھ بجے سب اٹھ جاتے۔ نوجوانی میں نیند زیادہ آتی ہے تو کوئی آدھا پونا گھنٹہ اور سو لیتا۔ پر چڑھتا سورج اور کراچی کی گرم مرطوب ہوا، بجلی کا پنکھا تو تھا نہیں۔ آنکھیں ملتے،جمائیاں لیتے اٹھنا ہی پڑتا۔

یہ صرف ساٹھ ستر سال پہلے کی بات ہے جب ہم قدرت کے نظام کے ساتھ چل رہے تھے، مگر بھلا ہو، تھامس ایڈیسن صاحب کا جنکا بجلی کا بلب ہمارے گھروں تک پہنچ گیا۔ پھر ریڈیو آ گیا، کچھ عرصے میں ٹیلیویژن اور دیکھتے دیکھتے لیپ ٹاپ اور موبائلوں کی یلغار ہو گئی اور راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔

جس طرح کھانا پینا اور نسل کی افزائش انسانی جبلت ہے، یہی درجہ نیند کا بھی ہے۔ سورج کا طلوع و غروب اور دن اور رات کا آگے پیچھے آنا، نشانیاں بھی ہیں اور انسان کے لیے نعمت بھی۔

نیند کے لئے سورج کا نکلنا اور ڈوبنا ہی کافی نہیں، ہمارے جسم کے اندر بھی ایک نظام ہے جو ہمیں سونے کے لئے کہتا ہے۔ جیسے ہی اندھیرا ہو نے لگتا ہے ایک کیمیکل ہمارے دماغ میں پیدا ہوتا ہے جو بار بار کہتا ہے کہ '' اندھیرا ہو نے والا ہے، اندھیرا ہو گیا ہے، اندھیرا ہو چکا ہے '' آپ سمجھ دار ہیں ،اب سو جائیں، مگر ہم نہیں سوتے۔

سوئیں کیسے، ابھی ٹی وی پر پسندیدہ پروگرام چل رہا ہے، اسایئنمنٹ مکمل نہیں ہوا، کل کے امتحان کے لئے پڑھنا ہے۔ تو اگر آپ صبح چھ بجے اٹھے تھے تو دس بجے آپ کو جاگتے ہوئے سولہ گھنٹے ہو چکے ہیں۔ ان سولہ گھنٹوں میں ایک دوسرا کیمیکل اتنی مقدار میں جمع ہو جاتا ہے جو آپ پر سونے کا دباؤ ڈالتا ہے۔ بارہ بجتے بجتے اٹھارہ گھنٹے کا جمع شدہ کیمیکل آپ کو زبردستی سلا دیتا ہے۔ ٹی وی دیکھتے دیکھتے آنکھیں بوجھل اور آپ نیند کی وادی میں اتر گئے۔

بہار کالونی کا اسکول صبح کو لڑکیوں کا ہوتا اور دوپہر کی شفٹ لڑکوں کی۔ ساڑھے بارہ بجے گھنٹی بجتی اور ہم قطار لگا کر کلاس میں داخل ہو جاتے۔ کوئی لڑکے ایسے بھی ہوتے جو برآمدے میں کھڑے گپ لگا رہے ہوتے, تب ایک مانیٹر آتا'' یہاں کیوں کھڑے ہو، چلو کلاس میں۔'' سو پہلا کیمیکل اسکول کی گھنٹی ہے کہ نیند کا اعلان ہو گیا اور دوسرا کیمیکل مانیٹر جو سر پر کھڑا ہو جاتا ہے کہ سوتے کیوں نہیں۔ یہ تو ہو گیا کہ آپ سوتے کیسے ہیں، لیکن ہم سوتے ہی کیوں ہیں۔ کم خوابی کے کیا نقصانات ہیں، خواب کیوں آتے ہیں اور نیند نہ آئے تو کیا کریں۔

ان سوالوں کا جواب میتھو واکر نے اپنی کتاب ''Why we sleep'' میں دیا ہے،مگر جو انکا سب سے اہم پیغام ہے وہ یہ ہے کہ دن کام کے لیے اور رات آرام کے لئے،اس سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ گھنٹے کی نیند ہر عمر کے لوگوں کے لیے ضروری ہے اور جس کی نیند اس سے کم ہے وہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہے۔

میتھو واکر کراچی میں تو نہیں رہے۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ انکا تجربہ صرف ترقی یافتہ ملکوں تک محدود ہے۔لیکن ان سے کوئی فیض اٹھایا جا سکتا ہے تو اسے کیوں جانے دیں۔

……٭٭……

ایوب خاں کا مارشل لاء اور بہار کالونی کا سیلاب تقریباً ایک ساتھ آیا۔ ہوا یوں کہ بارشیں زیادہ ہو گئیں، کچھ جھونپڑیاں اور غریبوں کا سامان لیاری ندی میں بہتا ہوا آ کر ماری پور کے پل کے نیچے پھنس گیا اور سطح آب بلند ہونے لگی۔ جب آدم خان روڈ، جو ندی کے پشتے کا کام کرتا تھا، کے اوپر پانی آ گیا تو وہ کالونی میں داخل ہو گیا۔ پہلے گلیاں تالاب بنیں پھر گھروں میں پانی بھر نے لگا۔آدھی رات کا وقت، میں گہری نیند میں تھا۔

جب پانی پلنگ تک اونچا ہو گیا تو چپلیں تیرنے لگیں۔ جب ایک چپل میری کمر سے ٹکرائی تو میری نیند ٹوٹی۔اٹھا تو سب جاگ رہے تھے۔ چھت پر جانے کے سوا بچاؤ کا کوئی رستہ نہ تھا۔ مشکل یہ تھی کہ مکان میں کوئی سیڑھی نہ تھی۔ ایک دیوار سے چند اینٹیں نکلی ہوئی تھیں۔ اسی کی مدد سے پورا کنبہ اوپر چڑھا۔بارش اور تیز ہو گئی، ہر طرف سے اذانوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ خیر، کچھ دیر بعد بارش تھمی، ساتھ ہی پو بھی پھٹنے لگی۔ اب جو دیکھتے ہیں تو حد نظر تک ہر چھت پر ایک خاندان پناہ لیے ہوئے تھا۔

آپ نے گہری نیند کا عالم دیکھا۔ اگر کوئی اٹھا د ے تو چند سیکنڈ کے لئے اسکی کیفیت یوں ہوتی ہے کہ ''میں کہاں ہوں''۔تو نیندیں دو طرح کی ہوتی ہیں، جنھیں ہم اپنی سہولت کے لئے گہری نیند اور کچی نیند کہیں گیں۔ کچی نیند میں آنکھیں تو بند ہوتی ہیں لیکن اندر دیدے حرکت کر رہے ہوتے ہیں اور سونے والا اپنے ماحول سے بالکل بے خبر نہیں ہوتا۔ جبکہ گہری نیند میں دیدے بھی ساکت ہو جاتے ہیں۔ سوائے سانس چلنے اور دل دھڑکنے کے، جسم کے تمام عضلات سکوت اختیار کر لیتے ہیں۔

نیند کی یہ دونوں قسمیں الگ الگ خدمات انجام دیتی ہیں۔ گہری نیند کا کام ہے کہ دن بھر کے معاملات کی چھان پھٹک کرے، کیا یاد رکھنا ہے اور کیا دماغ سے نکال دینا بہتر ہے۔ کچی نیند کا فریضہ ہے کہ وہ غیر اہم اور ناگوار کو بھلا دے اور ضروری یاد رکھنے والی باتوں کو پکا کر دے۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں فلمیں کیسے بنتی ہیں، مجھے نہیں معلوم۔جب ہم سینما جاتے تھے تو فلم کی ریلیں ڈبوں میں بند آتی تھیں۔ دو پروجیکٹر ہوتے، ایک پر ریل چل رہی ہے اور دوسرے پر اگلی ریل تیار۔ آپریٹر کی غفلت سے اگر چند سیکنڈوں کا وقفہ آ جائے تو اسکرین سادہ ہو جاتا اور آڑی ترچھی لکیریں دکھائی دیتیں۔ہماری آٹھ گھنٹے کی نیند پانچ ریلوں میں آتی ہے۔ ڈیڑھ ڈیرھ گھنٹے کی چار گہری نیند کی ریلیں اور ایک دو گھنٹے کی کچی نیند کے، جو صبح کے قریب کا وقت ہے۔

یہ جو آپکی نیند رات کے ڈھائی بجے ٹوٹ جاتی ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ دو ریل چل چکیں مگر تیسری میں ذرا وقفہ آ گیا۔ خیر آپ آنکھیں موندے لیٹے رہیے، ریل چل پڑے گی۔اب جو لوگ رات بارہ بجے سوتے ہیں اور صبح چھ بجے اٹھنا ہوتا ہے، انہیں گہری نیند تو مل گئی اور گذرے دن کے معاملات کی چھانٹی بھی ہو گئی لیکن کچی نیند کے دو گھنٹے تو انہیں ملے ہی نہیں، نہ غیر اہم بھلانے کا عمل ہؤا نہ یاد رکھنے والی باتوں کوپختہ کرنے کا۔ آپ کہیں گے کہ دو ہی گھنٹے تو کم سویا ہوں مگر اصلیت یہ ہے کہ آپکی نیند نے صرف آدھا کام کیا ہے۔

یہ دونوں قسم کی نیندیں آپ کے لیے ایسی ہی ہیں جیسے صبح سویرے ماسی آ کر جھاڑو پونچھا لگا دے اور جمعدار کچرا اٹھا کر لے جائے۔ اب دن بھر آپکا گھر صاف، اور دماغ بھی۔صبح کی کچی نیند کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب آپ کو خواب آتے ہیں۔ زیادہ تر آپ بھول جاتے ہیں، اکا دکا یاد رہ جاتے ہیں، وہ بھی اگلے دن تک اور بس۔

طالب علم یہ بات سمجھ لیں کہ ساری رات جاگ کر پڑھنا اور صبح امتحان، ایک لا حاصل عمل ہے۔ جب آپ سوتے نہیں تو جو کچھ آپ نے پڑھا وہ پکا تو ہوا نہیں۔ اور عام دنوں میں بھی جو کچھ پڑھیں اسکے بعد آٹھ گھنٹے کی نیند سے کم پر سمجھوتا نہ کریں۔

کہتے ہیں وقت بڑا مرہم ہے۔ ایک دوسری کہاوت آپ کو اچھی نہ لگے ''آج مرے کل دوسرا دن ''۔ جس دن کسی عزیز کی موت ہو وہ بڑا غمزدہ دن ہوتا ہے۔ لیکن رات کی نیند بھلانے کا فریضہ انجام دیتی ہے اور اگلے دن آپ کچھ ہلکے ہو جاتے ہیں۔ سوگ کی اجازت تین دن ہے کیونکہ بھاری غم ایک نیند سے نہیں تو تین نیندیں آپ کو معمول کے کاموں کے لیے تیار کر دیتی ہیں۔

زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کو کوئی نہیں کہتا مگر ریس سے بچتے رہیے۔ آٹھ گھنٹے کی پوری نیند لیجئے، صحت اور خوش باشی دونوں آپ کے حصّے میں آئے گی۔

سوئے سب سنسار، جاگے پالن ہار۔

……٭٭……

ایم ایس سی کرنے سے پہلے ہی ہم نے پی ایچ ڈی کی نیت باندھ لی تھی۔ پلان یہ بنا کہ امریکہ اور کینیڈا کی چھ یونیورسٹیوں کو میں خط لکھوں گا اور چھ کو عاقل فاروقی۔ تو ہمیں بارہ یونیورسٹیوں کی معلومات مل جائینگی۔ مگر ہوا یہ کہ اکثر یونیورسٹیوں نے داخلے کا توعندیہ دیا مگر مالی معاونت سے کنی کترا گئے۔ صرف ایک یونیورسٹی نے لکھا کہ پہلے سال کا خرچہ آپ خود اٹھا لیں تو دوسرے سال ٹیچنگ اسسٹنٹ شپ کیلئے غور ہو سکتا ہے، ایک سال کا خرچہ ہم کہاں سے لاتے، ہمارے پاس تو ائیر ٹکٹ کے بھی پیسے نہیں تھے۔

اسی دوران ایک خط وزارت تعلیم سے شعبے کو ملا کہ چیکوسلواکیہ نے تین اسکالر شپ دی ہیں، فارم منسلک ہے۔ ہم تو فارم بھرنے بیٹھ گئے عاقل کو بھی کہا پر وہ کمیونسٹ ملک جانے پر آمادہ نہ تھے۔ کوئی چھ ماہ گزر گئے، ایک دن ہمیں ایک بھاری لفافہ ڈاک سے ملا کہ آپ کو داخلہ دے دیا گیا ہے، وظیفہ منظور اور ٹکٹ کیلے ہمارے قونصلیٹ سے رابطہ کیجئے۔

لیجئے صاحب،ہم نے ایک سوٹ کیس میں کچھ گرم کپڑے،چند کتابیں اور عام استعمال کے دو جوڑے رکھ لئے۔ باقی کپڑے چھوڑ دیے کہ ان پرانے کپڑوں کو کیا لے جانا۔ پر اگ پہنچے،چارلس یونیورسٹی گئے تو اگلے ہی دن انہوں نے پہلے ماہ کا وظیفہ گیارہ سو کراؤن ہمارے ہاتھ پر رکھ دئیے۔ لیکن جب بازار نکلے تو پتہ چلا کہ ان کا کراؤن تو ہمارے دو آنے کے برابر بھی نہیں۔ اب ہمیں اپنے کپڑوں کی یاد ستانے لگی۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، ہر ہفتے دس دن پر ایک ہی خواب دیکھتا کہ پاکستان گیا ہوں اور اپنے کپڑے سوٹ کیس میں بھر کے لا رہا ہوں۔

خوابوں کے بارے میں ماہر نفسیات کیا کہتے ہیں۔ بیسویں صدی چار بڑوں کی صدی تھی۔ چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائیڈ، کارل مارکس اور آئن اسٹائن۔ فرائیڈ نے نفسیات کے علم کو سائنس کے درجے پر پہنچا دیا۔ انسان کے لاشعور میں کیا چھپا ہے، خواب اسکی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ وہ ویانا کے امراء کا علاج انکے خواب سن کر کرتا۔ فرائیڈ کا مشہور نظریہ ہے کہ زندگی کی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل،خوابوں میں ہوتی ہے۔

اب میرا جو تجربہ پر اگ جانے پر ہوا، اس کے حسابوں تو مجھے فرائیڈ کا معتقد ہونا چاہیے۔ لیکن نیند پر ریسرچ کرنے والوں کا خیال ہے کہ فرائیڈ محدود پیمانے پر تو درست ہو سکتا ہے لیکن عموماً ہمارے خواب، پیش آنے والے واقعات کا الٹ اور غیر منطقی ہوتے ہیں۔ دن میں ہم جن واقعات سے دوچار ہوتے ہیں اور ان سے ہمارے اندر غصے،حیرت یا خوشی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ رات میں ہم جو خواب دیکھتے ہیں وہ بالکل مختلف واقعات ہوتے ہیں،لیکن وہی جذبات لئے ہوتے ہیں جن سے آپ دن میں دو چار ہوئے تھے۔ گویا خواب اسی کام میں معاون ہوتے ہیں جو کچی نیند کا مقصد ہے یعنی منفی جذبات سے چھٹکارہ۔

اب یہ سوال کہ کیا خوابوں کی تعبیر ہوتی ہے یا ان سے مستقبل کا کوئی اشارہ ملتا ہے۔ کوئی بشارت یا رویائے صادقہ۔ تو نیند پر ریسر چ کرنے والوں کی اکثریت تو یہی کہے گی کہ خاص لوگوں کیلئے خاص حالات میں تو ممکن ہے، لیکن عام آدمی کیلئے ایسا کچھ نہیں۔ البتہ چند ماہرین یہ مانیں گے کہ ہم خوابوں کی اصلیت تک تو پہنچے نہیں، لہذا کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔

نیند کی کمی کیا مسائل کھڑی کرتی ہے۔ کچھ تو سامنے کی بات ہے جیسے رات نیند نہ آئی ہو تو دن میں کسلمندی، دماغ حاضر نہ ہونا، تھکن وغیرہ۔ لیکن زندگی کی دوڑ میں جب آپ سالہا سال چھ گھنٹے سونے پر اکتفا کرتے ہیں تو آپ کو امراض قلب، بلڈ پریشر اور ذہنی امراض خصوصاً الزائمر کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ 

ہم اس وقت صرف الزائمر یعنی بھولنے کی بیماری پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔ جو شروع تو اس بات سے ہوتا ہے کہ 'نام یاد نہیں آرہا' لیکن ختم اس پر ہوتا ہے کہ اس مرض کا مارا اپنے پیاروں کو بھی نہیں پہچانتا۔ میں ایک عزیز کی والدہ کی تعزیت پر گیا تو کہنے لگے، اقبال بھائی کیا پوچھتے ہیں، دس سال سے بستر پر تھیں اور کسی کو نہیں پہچانتی تھیں۔ میں جاتا تو کچھ دیر پایئنتی بیٹھ کر واپس آجاتا۔

جمہوری نظام میں مارگریٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن جیسے طاقتور حکمران اورنہیں گذرے،پھر دونوں الزائمر کا شکار ہوئے، کیونکہ وہ صرف پانچ سے چھ گھنٹے سوتے اور صبح سویرے کام شروع کر دیتے۔ میتھو وا کر خبردار کرتے ہیں کہ دیکھ لیجئے گا ٹرمپ صاحب بھی ایک دن الزائمر میں مبتلا ہونگے کیونکہ و ہ بھی فخریہ کہتے ہیں کہ مجھے پانچ گھنٹے کی نیند کافی ہے۔

الزائمر ہمارے ارد گرد تیزی سے پھیل رہا ہے۔ میرے ساتھ کے پڑھے ایک کزن اسی بیماری کی گرفت میں آئے تو انکی بیگم نے مجھ سے تدبیر پوچھی۔ میں تین ہی چیزیں جانتا تھا۔ اول بادام کھلائیں، دویم ورزش کا اہتمام کریں، جو ورزش جسم کو فائدہ دیتی ہے وہی دماغ کو بھی۔ اور تیسرے یہ کہ انکی دوسری شادی کرا دیں۔ جوصلواتیں مجھے پڑیں وہ اپنی جگہ لیکن الزائمر کے معالج تیسری ترکیب یہی بتاتے ہیں کہ نئی چیز سیکھیں یا نیا عشق کریں۔ میں نے اپنے معاشرے کے مطابق اسے نئی شادی کر دیا۔

نیند نہ آئے تو کیا کریں؟ اسکا کوئی تشفی بخش جواب موجود نہیں۔ سائنسی مشورہ صرف ایک ہے۔ چونکہ نیند کے دوران آپ کے جسم کا اندرونی درجہ حرارت ایک ڈگری کم ہو جاتا ہے اس لئے اگر سونے سے پہلے نہالیں تو اچھی نیند آئیگی۔ 

البتہ ٹوٹکے بہت ہیں۔اپنے کو تھکا لیں، جسمانی کام سے یا ورزش سے۔ ذہن کو فکروں سے خالی کر لیں جیسے گھوڑے بیچ کر سونا، کیونکہ اب نہ سودے میں نقصان کی فکر رہی نہ گھوڑوں کی حفاظت کی۔ آدھی رات نیند ٹوٹ جائے تو کروٹیں بدلنا چھوڑ ئیے اور کسی دوسری جگہ بیٹھ کر ہلکی موسیقی سنیے(یا وضو کر کے دو نفلوں کا ثواب حاصل کر لیجئے) نیند کے جھونکے آنے لگ جائیں گے۔

آخری حل نیند کی گولی ہے مگر خیال رکھئیے یہ آخری حل ہے، پہلا ہر گز نہیں۔اگر آپ انگریزی مقولے''Early to bed, Early to Rise'' پر آج سے عمل شروع کردیں تو نیند کی گولی کی ضرورت اللہ نے چاہا تو نہیں پڑے گی۔ الزائمر سے بچ نکلئے گا۔آپ کا ہر دن چست اور دماغ حاضر۔