زندگی کی سب سے بڑی حقیقت روٹی ہے ۔ روٹی پیسوں سے آتی ہے ، اسی لیے کہتے ہیں کہ باپ بڑا نہ بھیّا، سب سے بڑا رُوپیّہ ۔ لیکن اس سے بڑھ کرایک اور چیز ہے جسے ہم بھولے رہتے ہیں یا جسے Taken for granted کہتے ہیں۔ اور وہ ہے صحت۔ صحت سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ لیکن چوں کہ وہ ہمیں جوانی میں عموماً میسر ہوتی ہے اس لیے سب سے بڑا مسئلہ روز گار نظر آتا ہے۔
وہ ملازمت ہو یا کاروبار۔ دہاڑی لگانے والا مزدور ہو یا ٹھیکےدار۔ کلرک ہو یا بیوروکریٹ۔ ایک بیوروکریٹ اپنے وزیر کے ناجائز احکامات پر انکار کرکے تو دکھائے، اسے فوراً روٹی کی فکر پڑجائے گی۔ ایئرکنڈیشنڈ گھر ، گاڑی ، سب چھن جائے گی۔
تو ہمارے حساب سے صحت اول نمبر پر اور مالی خوش حالی دوسرے نمبر پر ہے۔ زندگی کی تیسری سیڑ ھی انسانی تعلقات ہیں۔ شادی ہوئی تو ازدواجی زندگی شروع ۔ اور جوائنٹ فیملی میں رہیں گے تو بیوی اور ماں کے ساتھ حسنِ سلوک میں توازن ضروی ۔بچے ہوں تو ان کی تربیت۔ مگر آپ ہنس پڑیں گے اورکہیں گے کہ تعلیم کہو، تربیت آج کی دنیا میں بھلا کون کرتا ہے۔
بچے اسکول جائیں گے تو انگریزی میڈیم تو ہے ہی، لیکن کوئی نام ور اسکول ہو تب ہی تو ناک اونچی رہے گی۔ چاہے آدمی کی آدھی تنخواہ دو بچوں کی فیس میں نکل جائے۔ باقی آدھی گھر کے کرائے اور بجلی کے بل میں۔ اب ننگا کیا نہائے اور کیا نچوڑے۔ لیجیے، آپ کی زندگی مسائل کا مرکّب ہو گئی۔
مسائل زندگی کی علامت ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسائل حالات کے باعث ہیں یا آپ کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ آپ صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا پھر فیصلہ تو بالکل صحیح تھا، لیکن اس پر چل نہ سکے ، کیوں کہ سسرالیوں کا دباؤ آگیا ۔ لوگ کیا کہیں گے، منہ بھی تو دکھانا ہے۔ تو اب آپ مشکل یا غلط راستے پر چل پڑے۔ مشکل راستہ یہ تھا کہ شا م کو پارٹ ٹائم جاب کرلی۔
ٹیچر ہیں تو کوچنگ سینٹر کھول لیا، ڈاکٹر ہو گا تو دس کےبجائے رات بارہ بجے تک کلینک کرنے لگ جائے گا۔ اور غلط راستہ یہ ہے کہ محنتانہ (رشوت) ان سے وصول کرنا شروع کر دیا جن پر بنتا ہی نہیں تھا۔ اب تک آپ کی صحت ٹھیک تھی اور ضمیر مطمئن۔ لیکن دو بچوں کے بڑے نام والے اسکول کی فیس اور بیڈ روم کا ائیر کنڈیشنر آپ کے دل کا چین لے گیا۔ راتوں کی نیند اڑ گئی، بیوی سے کوئی میٹھی بات کیے برسوں گزر گئے۔
صحت اور تعلیم کے بعد تیسری چیز ہے ایک چھت کا حصول۔ یہ کبھی بھی آسان نہ تھا۔ میں نے سو سال پرانی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ماسٹر صاحب جب گاؤں میں اپنا مکان بنانے کھڑے ہوئے تو ٹوٹ کر رہ گئے۔ مکان بنانے کا کوئی سستا طریقہ آج تک ایجاد نہیں ہوا۔ ہاں جب کراچی میں نئےنئے فلیٹ ملکیت کی بنیادپر شروع ہوئے تھے تو کچھ وقت کے لیے محدود آمدن والوں کے لیے دو کمروں کا فلیٹ ممکن ہو گیا تھا ۔لیکن اب فلیٹ بھی کروڑوں میں ہیں۔
چوتھی مشکل رشتے نبھانا۔ ماں باپ کی خدمت ، بھائیوں کی تعلیم بہنوں کی شادی۔ ہاں آپ بڑے خوش قسمت ہیں، اگر والدین کی صحت اچھی ہے اور ابا کی پینشن آرہی ہے۔ بھائی آپ سے بڑے تھے اور بہن کی شادی ابّا نے بھلے وقت میں کر دی تھی تو اب آپ ٹینشن فری ہیں اور اسکی قدر کیجیے۔
لیکن اس کے بعد اب کیا ہوتا ہے کہ ادہر آپ کی بیگم نے قدم رنجہ فرمایا ،ادہر ساس بہو کی رنجش نے سر اُٹھا یا۔ پھر آپ سسرالیوں کی خدمت میں لگ گئے۔ ایک سالی کی شادی ہوگئی تو دوسری تیار کھڑی ہے۔ ماں باپ دیکھ رہے ہیں کہ بیٹا دونوں طرف پِس رہا ہے، لیکن ساس سسر اب بھی آپ کی بہت زیادہ منزلت نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ اتنا بھی نا کرتا تو کیا کرتا۔ دوستوں کا حلقہ مختصر ہوتا جاتا ہے۔
پہلے اسکول کے ساتھی چھوٹے۔ پھر وہ جن کے ساتھ کرکٹ کھیلی ۔ بس کالج، یونیورسٹی کے گنے چنے دوست باقی رہ جاتے ہیں۔ انہیں بیگم بھاری کردیتی ہیں ۔ لیکن آپ وقت نکال کر ایک آدھ بیٹھک کر لیتے ہیں۔ وہی موقع ہوتا ہے جب آپ پھر سے قہقہہ لگاتے ہیں، فقرے کستے ہیں ، سارے غم کچھ دیر کے لیے دوستوں کے نشے میں بھول جاتے ہیں۔ بس یہی اتنا سا لمحہ ہے جب آپ اپنی زندگی جی رہے ہیں۔
پانچواں مسئلہ ہر ایک کو پیش نہیں آتا یا آتا بھی ہے تو دبے پاؤں گزر جاتا ہے۔ مگر کسی کسی کو پکڑ بھی لیتا ہے ۔ اور وہ ہیں فکری یاروحانی مسائل۔ کسی کو غریبوں کا دکھ ، کہ ان کی زندگی بھی کیا زندگی ہے ۔ کسی کو یہ خیال کہ ہم آزاد ہیں یا غلام ۔ کسی کو یہ فکر کہ میں سیدھے راستے پر ہوں یا بھٹک رہا ہوں۔ کبھی ضمیر کی خلش کبھی خوفِ خدا۔
آج عبادتوں کا شغف ہے ، کل حقوق العباد کی دوڑ۔ ایک بے کلی اسے چین نہیں لینے دیتی۔ اب وہ ڈپریشن کا شکار ہو یا تبلیغ کی راہ پر چل نکلے ۔ خلقِ خدا کی خدمت میں لگ جائے اور غریب بچوں کی فیس ادا کرتا پھرے یا محلے میں درخت لگانا شروع کردے۔
جب تک زندگی ہے مسائل ہیں۔ صحت اور تعلیم کے مسائل، ازدواجی زندگی کی اونچ نیچ کے مسائل۔ حالاں کہ وہ چاہتا صرف یہ تھا کہ ایک چھوٹا ساگھر ہو، سامنے ایک شجر ہو ، شجر پر ثمر ہو۔
مسائل کی فہرست کبھی ختم نہیں ہوئی۔ بس پانچ بڑے مسئلے بتا کر میں رُک گیا ۔لیکن کیا آسان اور خوش گوار زندگی کا کوئی نسخہ بھی ہے ؟ جی ہاں !سب سے پہلے تو بیس ہزار روپے کی فیس والے اسکول کا خیال دل سے نکال دیجیے۔ تین ہزار والا اسکول بھی انگلش میڈیم ہے اور وہاں بھی وہی بی ۔اے یا بی۔ ایڈ ٹیچرز پڑھا رہے ہیں۔ جو چند سال بعد بیس ہزار فیس والے اسکول میں چلے جائیں گے۔
یہ بھی سمجھ لیجیے کہ تین ہزار والے اسکول میں جو بچے آتے ہیں ان کے والدین عموماً گریجویٹ ہوتے ہیں اور ان کے دادا، نانا بھی اپنے وقت کے تعلیم یافتہ لوگ تھے ۔ یہ بات بیس یا چالیس ہزار فیس والے بچوں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔
آپ کا دوسرا مسئلہ ایئر کنڈیشنز اور بجلی کا بل ہے ۔ اس کا حل جو میں نے اپنے لیے نکالا وہ آپ کو بتا دیتا ہوں۔ آپ فلیٹ میں رہتے ہیں اور بیڈروم کے ساتھ ایک چھوٹی سی بالکونی ہے۔ اس بالکونی پر ایک بڑا سا پیڈسٹل فین خرید کر رکھ دیں۔ رات کو جب اسے چلائیں گے تو ٹھنڈی ہوا بیڈ روم میں پھینکے گا۔ بس یہ خیال رکھیں کے کھڑکی میں جالی لگی ہو تاکہ مچھر اندر نہ آئیں۔
اب معاملہ آگیا خاندانی تعلقات کا۔ساس بہو کا جھگڑا چلتا رہے گا، وہ انہیں نمٹنے دیجیے ۔ آپ کا سمبندھ بیگم کے ساتھ خوش گوار رہنا چاہیے۔اوراس کی ایک آزمودہ ترکیب موجودہے ۔ ’’دو میٹھی باتیں اور دو چھوٹے تحفےـ‘‘۔ ہر ماہ اسے دہراتے رہیے۔ بیوی سے محبت سے بات کرنا ہم اپنی ہتک سمجھتے ہیں اور پوری زندگی تلخ کر لیتے ہیں۔ مسائل زندگی کے ساتھ لگے رہیں گے، لیکن اُنہیں بڑھائیے نہیں۔ نہ اُن کے قیدی بن جائیے ۔ خوش رہیے اور خوش رکھیے۔